عام دنوں کے مقابلے میں منگل کا دن ہمارے محلے میں بڑا پُررونق ہوتا ہے۔ محلے میں گہماگہمی کی وجہ وہ منگل بازار ہے جہاں لوگ دور دور سے خریداری کرنے آتے ہیں۔ کئی برسوں سے لگنے والے اس بازار کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کا پبلک ٹرانسپورٹ اسٹاپ ’’منگل بازار‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یا یوں کہیے کہ شاید ہی کراچی میں ڈرائیونگ کرتا کوئی شخص ایسا ہو جو اس اسٹاپ کو نہ جانتا ہو۔ پچھلے منگل کو جب میں معمول کے مطابق دفتر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو محلے میں ایک عجیب افراتفری تھی، لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ بازار گھر کے سامنے ہونے کی وجہ سے مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اسٹال لگانے والے بڑی تیزی سے اپنا سامان واپس گاڑیوں میں رکھ رہے ہیں۔ سب کچھ بڑی جلدی جلدی ہورہا تھا۔ اس طرح سے لوگوں کو اپنا سامان واپس لوڈ کرتے دیکھ کر مجھے اُن دنوں کی یاد آگئی جب کراچی میں ہڑتال کی دی گئی کال پر بازار بند ہونے لگتے تھے۔ میں اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بازار کی جانب بڑھنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ کے بغیر ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے یہاں ہلچل دکھائی دے رہی ہے! ماضی میں کراچی کے عوام کو اس قسم کی صورت حال کا سامنا اُس وقت تھا جب شہر کی گلیوں میں اسلحہ بردار گولیاں چلاتے پھرتے تھے۔ لیکن کراچی کے حالات ماضی کے مقابلے میں بہتر ہونے کے باوجود اس بازار کا بند ہونا میرے لیے حیرت کا باعث تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کسی سے بات کرتا، میری نظر اُن پولیس اہلکاروں پر پڑی جو اس وقت بازار بند کروانے میں اپنی توانائیاں خرچ کرنے میں مصروف تھے۔ میرے سوال کرنے پر ان اہلکاروں نے بتایا کہ ہمیں اوپر سے ہدایت ملی ہے کہ ہفتہ وار بازاروں کو بند کروا دیا جائے۔ بازار بند کروانے والے ان پولیس اہلکاروں نے اپنے اس عمل کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے مزید بتایا کہ حکام بالا کو اطلاع ہے کہ بازاروں میں دہشت گردی ہوسکتی ہے، اسی لیے عوام کے جان و مال کے حفاظت کی خاطر یہ کارروائی کی جا رہی ہے۔ جب ان باتوں کی تصدیق کے لیے اپنے ذرائع سے رابطہ کیا تو مجھے یہ خبر بھی مل گئی کہ دہشت گردی کو بنیاد بناکر شہر کے سارے ہفتہ وار بازار بند کروائے جارہے ہیں۔ میری سمجھ میں اب ساری بات آتی جارہی تھی، میں سوچ رہا تھا کہ عوام کا سستے بازاروں سے خریداری کرنا انتظامیہ کو پسند نہیں، یا پھر ان بازاروں کو بند کرواکر نئے سرے سے اجازت نامے کے اجراء پر کروڑوں روپے کمانے کی یہ کوئی نئی چال ہے۔ جو بھی ہو، میرے علم میں تو صرف یہ لایا گیا کہ یہ قدم عوام کی بہتری کے لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ لوگ دہشت گردی سے محفوظ رہیں۔ بازاروں میں لوگوں کا رش زیادہ ہوتا ہے، اس لیے یہی بہتر فیصلہ ہے۔ انتظامیہ کے مطابق جہاں عوام کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے وہاں دہشت گردی ہونے کے زیادہ خدشات ہوتے ہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان بازاروں کا ختم ہونا ہی اچھا ہے۔ بازاروں کی بندش کا مقصد عوام کو بڑے حادثے سے بچانا ہے۔ اس مفروضے پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے تمام سستے بازار بند کروا دیے۔ یوں حکمرانوں کی سوچ کے مطابق نہ بازار لگیں گے نہ تخریب کاری ہوگی، یعنی ’’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری‘‘۔
قارئین، میں نے اپنی تحریر میں ہفتہ وار بازاروں کو سستے بازار صرف اس لیے لکھا ہے کیوں کہ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ان بازاروں میں واقعی سستی اشیا مل جاتی تھیں۔ غریب عوام کے لیے اگر کوئی سہولت تھی تو وہ ختم کردی گئی۔ میں نے نہ صرف لوگوں کو ایسے بازاروں سے روزمرہ ضروریات کا سامان سستے داموں خریدتے دیکھا ہے، بلکہ میں خود بھی ان بازاروں سے متعدد مرتبہ خریداری کرچکا ہوں، مجھے ان بازاروں میں فروخت ہوتی اشیا کی قیمتوں میں کافی فرق ملا۔
خیر بات بازاروں کی بندش کی ہورہی تھی۔ انتظامیہ نے جن باتوں کو بنیاد بناکر یہ کارروائی کی، میرے دل میں خیال آیا کیوں ناں میں بھی اس سلسلے میں حکومت کی کچھ مدد کروں۔ ویسے بھی میں اس ملک کا شہری ہوں، میرے فرائض میں بھی یہ بات شامل ہے کہ میں حکمرانوں کی سوچ پر سوالیہ نشان لگانے کے بجائے انہیں انہی کی سوچ کے مطابق مشورے دوں۔ اس لیے میں نے اپنا پورا ذہن بناکر حکومت کو حکمرانوں کی طبیعت کے مطابق مفید اور مفت مشورے دینے کی ٹھان لی، اور ویسے بھی مجھے کیا پڑی کہ میں ان کے فیصلوں پر نکتہ چینی کروں! انہوں نے جو بہتر سمجھا، کردیا۔ بات بھی ٹھیک ہے، بلاوجہ لوگ گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور خریداری کرنے لگتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے! آرام سے گھر بیٹھیں اور حکمرانوں کی تعریف کریں۔ احتیاط بڑی چیز ہوتی ہے، اگر کوئی تجویز ہو تو ضرور حکومت کو دیں، لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ تجاویز حکمرانوں کے ذہن کی عکاس ہوں، مثلاً میری حکومت سے جو گزارشات ہیں شاید وہ امن و امان کے لیے بہتر ہوں۔ بازاروں کی بندش کے بعد اب انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مسجدوں میں بھی تالے ڈلوا دے، خوامخواہ لوگ پانچ وقت مسجد میں جمع ہوکر رش لگاتے ہیں، خاص کر جمعہ کے دن تو عوام کی بہت بڑی تعداد مسجدوں کا رخ کرتی ہے۔ نماز ہی پڑھنی ہے تو وہ گھر پر بھی ادا ہوسکتی ہے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ جمعہ کے دن تالوں پر سیل (SEAL) بھی لگائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تالا توڑ کر مسجد میں داخل ہوجائے اور ساری احتیاط دھری کی دھری رہ جائے، کیونکہ جمعہ کی نماز میں کچھ زیادہ ہی لوگ شریک ہوتے ہیں جس سے ایک خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ کیا ضروری ہے کہ اتنا بڑا مجمع لگاکر انتظامیہ کو پریشان کیا جائے؟ دنیا بھر میں حکومت اور عوام ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، اس لیے ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر کم سے کم بوجھ ڈالیں۔ پہلے ہی ہمارے حکمران دن رات عوام کی خوشحالی کے لیے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر پالیساں بنا رہے ہیں۔ عوام کی خدمت کرتے کرتے ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ وہ اپنی نیند اسمبلی اجلاس کے دوران آکر پوری کرتے ہیں۔
میری دوسری مفت تجویز پہلی تجویز سے زیادہ کارآمد ہوسکتی ہے۔ وقت سے پہلے کی جانے والی احتیاط بہتر ہوتی ہے۔ ابھی رمضان آنے میں کچھ وقت ہے، وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ ابھی سے عوام کو اس بات سے آگاہ کردیں کہ نماز کے ساتھ ساتھ تراویح بھی اِس سال لوگ اپنے گھروں میں بلکہ گھروں کی چھتوں پر ہی ادا کریں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ پہلا یہ کہ گرمی میں روزہ رکھ کر مسجدوں میں آنے جانے کی زحمت سے بچیں گے، دوسرا یہ کہ روزہ افطار کرنے کے بعد انسان میں اتنی توانائی کہاں باقی بچتی ہے کہ وہ کہیں آجا سکے۔ میری تجاویز میں انسانی صحت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ اچھی صحت، ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے۔ انتظامیہ جب حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق لوگوں کو سمجھائے گی تو نتائج ضرور بہتر نکلیں گے، اور پھر وقت سے پہلے آگاہی دینے سے آنے والی عید تک لوگوں کو اس بات کی بھی عادت ہوجائے گی کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ عید کی نماز ٹھیک آٹھ بجے ان کے گھر کی چھت پر ہوگی۔ اس طرح عیدگاہ کے بجائے گھروں میں برکتیں ہی برکتیں ہوں گی۔
میری ان مفت تجاویز کے بعد بھی اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کرنا ہوگا۔ کیونکہ قسمت سے کون لڑ سکتا ہے! ابھی تو ملک میں دہشت گروں سے لڑائی جاری ہے، ایسے میں قسمت سے بھی لڑنا پڑ جائے تو کیا بنے گا! ویسے بھی ملک حالتِ جنگ میں ہے اور سنا ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔
قارئین! حکمرانوں کی جانب سے اس قسم کے اقدام‘ جن سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو، مکھی پر مکھی مارنے سے زیادہ نہیں۔ ایسی کارروائیوں سے حکومت کی کمزوری تو ظاہر ہوسکتی ہے، گڈگورننس نہیں۔ نہ جانے کن کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے حکمران فضول حرکتیں کرتے جارہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق سندھ حکومت کے سوا ملک میں کسی بھی صوبائی حکومت نے عوام کے لیے لگنے والے ان بازاروں پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ امن و امان کی خاطر اس طرح کے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، تو یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان میں ہونے والی زیادہ تر ایسی دہشت گردی جس کو بنیاد بناکر حکومتِ سندھ غریب عوام کی سہولیات چھین چکی ہے، وہ چار دیواری کے اندر ہوئی۔ آرمی پبلک اسکول سے لے کر لال شہباز قلندر تک جتنے بھی دھماکے ہوئے ان میں کوئی جگہ بھی ایسی نہ تھی جو کھلے مقام پر ہو۔ سخت سیکورٹی دے کر ہی ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔ عوام کو پریشانیوں میں مبتلا کرکے اچھے نتائج کی توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ خدارا اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرتے ہوئے عوام کے ان بازاروں کو دوبارہ لگانے کے احکامات دیے جائیں۔
nn