پاکستان پانی کی شدید قلت کے شکار ممالک میں شامل ہے۔ عالمی موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے میں حکومتوں کی عدم دلچسپی کے سبب پاکستان میں پانی کی رسد محدود ہوتی جارہی ہے۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے ملک میں قلتِ آب کی تصویرکشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے پانچ سے سات برسوں میں پاکستان میں پانی کا قحط پڑسکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی پانی کے حوالے سے پاکستان کے مستقبل کی خوفناک تصویر پیش کررہی ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو شدید قلتِ آب سے دوچار ممالک میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کو باقاعدہ قلتِ آب کا شکار ملک قرار دے دیا جائے گا۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈیولپمنٹ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر فرد کے لیے دستیاب پانی کی مقدار میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ 2000ء میں ہر شہری کو اوسطاً 2961 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔2005ء میں یہ اوسط کم ہوکر 1420 مکعب میٹر ہوگئی، اور اب ایک ہزار سے بھی نیچے آچکی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں امریکا، آسٹریلیا اور چین میں ہر شہری کو بالترتیب 6000، 5500 اور 2200 مکعب میٹر پانی دستیاب ہے، حالاں کہ یہ ممالک بھی قلتِ آب سے دوچار ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک ماہ کی ملکی ضروریات کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ پاکستان جیسے موسمی حالات کے حامل ممالک کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس تین سال کی ضرورت کے مطابق پانی موجود ہونا چاہیے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگلے ایک عشرے کے دوران 48 ممالک میں تین ارب افراد کو پانی کی کمیابی کا سامنا ہوگا۔
پانی کی کمی کے مسئلے سے نظر ہٹائی جائے اور دستیاب پانی کے معیار پر نظر ڈالی جائے تو وہ کسی صورت پینے اور کھانے کی اشیاء میں استعمال کے قابل نظر نہیں آتا۔ پینے کے لیے صاف اور جراثیم سے پاک پانی پورے پاکستان، خصوصاً سندھ میں کمیاب ہے، 3کروڑ سے زائد آبادی گندا اور آرسینک والا پانی پینے پر مجبور ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والا دریائے سندھ جو پاکستان میں تازہ پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس کے بہاؤ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ بہاؤ میں کمی کے باعث دریائے سندھ کا طاس بھی سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کھارا اور آلودہ ہورہا ہے۔ یوں یہ پانی نہ تو پینے کے قابل ہے اور نہ ہی زرعی استعمال کے لیے موزوں۔ پانی میں نمکیات کی سطح بڑھنے سے مینگروز کے جنگلات اورآبی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
پانی میں خطرناک وائرس کی موجودگی کے انکشاف پر صوبہ سندھ میں پینے کے پانی اور صحت و صفائی کی صورت حال کے معاملات کو دیکھنے کے لیے عدالتی کمیشن نے پاکستان کونسل آف ریسرچ واٹر ریسورس (پی سی آر ڈبلیو آر) کو سروے کرنے کا حکم دیا۔ سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سندھ کے شہریوں کو فراہم کیے جانے والے پانی میں ہیپاٹائٹس بی، جگر کے سرطان، خون کی کمی اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ ڈالنے والے وائرس موجود ہیں، جن کی وجہ سے یہ بیماریاں سندھ بھر میں پھیل چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ حکام پینے کے پانی میں شامل وائرس کی موجودگی کی بات سے باخبر ہیں۔
پینے کے صاف پانی کی سنگین صورت حال کو جانچنے کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے وفد نے سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ اور دیگر اضلاع کا دورہ کیا اور اپنی تفصیلی رپورٹ میں ایک جملہ شامل کیا جو کہ معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ عدالتی کمیشن نے لکھا کہ ’’سندھ کے لوگ تو گٹر کا پانی پی رہے ہیں۔‘‘ سندھ میں رہنے والا حالات سے واقف ہر شخص رپورٹ میں شامل اس جملے سے اتفاق کرے گا۔ پینے کے پانی کے ذخیرے اور ترسیل کے واحد ذریعے نہری نظام میں براہِ راست ڈرینج کے فضلہ جات اور اسپتالوں کی استعمال شدہ غلیظ باقیات شامل ہوتی ہیں اور پھر وہی پانی واٹر سپلائی کے ذریعے ہمارے گھروں تک پہنچتا ہے۔
پینے کے لیے صاف پانی انسان کا بنیادی حق اور صحت مند زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اہم ضرورت ہے۔ لیکن سرکاری سطح پر اس کے لیے کوئی نظام موجود نہیں۔سرکاری سطح پر ہر ضلع میں لگائی گئی کروڑوں روپے کی مشینیں بطور اسکریپ فروخت کے لیے قطار میں لگی ہیں، جبکہ 90 فیصد سے زائد آر او فلٹریشن پلانٹ بھی ناکارہ حالت میں اپنے وجود کو پیٹ رہے ہیں۔
غیر سرکاری سطح پر کچھ ادارے اپنی مدد آپ کے تحت پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے سعی کررہے ہیں جن میں الخدمت فاؤنڈیشن سندھ بھی شامل ہے۔ الخدمت، سندھ بھر بالخصوص تھرپارکر میں صاف پانی کے منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ تھرپارکر اور دور دراز علاقوں میں کنووں کی کھدائی، سولر و الیکٹرک سبمرزبل پمپس، شہری علاقوں میں فلٹریشن پلانٹس اور کمیونٹی ہینڈ پمپس کی تنصیب کے منصوبے، الخدمت کے صاف پانی پروگرام کا حصہ ہیں۔ گزشتہ سال حیدرآباد، نواب شاہ، ڈہرکی، کندھ کوٹ، مٹھی اور دیگر اضلاع میں16 آر 150 او پلانٹ نصب کیے گئے، جبکہ تھر پارکر میں 351 کنویں اور 427 کمیونٹی ہنڈ پمپ اور 27 سولر و الیکٹریکل سبمرزبل پمپ لگائے گئے۔ پانی کے ان منصوبوں سے روزانہ 30ہزار سے زائد خاندان مستفید ہورہے ہیں۔
6کروڑ کی آبادی والے صوبے میں پانی جیسے سنگین مسئلے کو حل کرنا انفرادی طور پر کسی غیر سرکاری ادارے کے بس میں نہیں، اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران سب سے پہلے اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کریں۔ اعلیٰ سطح پر مؤثر منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے، اور اس مسئلے پر قابو پانے یا اس کی شدت میں کمی کے لیے بیک وقت کئی سمتوں میں کوششیں کرنا ہوں گی، جبکہ قلتِ آب سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران سب سے پہلے اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کریں جو آگے چل کر ملک میں انتشار اور انارکی کا سبب بن سکتا ہے۔ بعد ازاں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دی جائے۔
nn