اینٹ پتھر سے بنے مینار نہ بولتے ہیں‘ نہ سنتے ہیں اور نہ ہی سوچتے ہیں لیکن جب کوئی بڑا واقعہ ہونے جارہا ہو تو قاعدے بدل جاتے ہیں‘ لہٰذا یہاں بھی قاعدہ بدل گیا اور اتوار 23 مارچ 1940ء کو بادشاہی مسجد کے مینار نے منٹو پارک لاہور میں جمع ہونے والوں کو مسکراتی نم آنکھوں کے ساتھ سلام پیش کیا کیوں کہ آج یہاں اللہ کے نام پر اور اس کے حکم کو ناٖفذ کرنے کا ارادہ لیے ہوئے مسلمانوں کا ایک بڑا مجمع حاضر ہوا تھا۔ مولوی فضل الحق نے اس جلسے کے سامنے ایک قرارداد پیش کی‘ جو بعد میں ’’قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس جلسے کے کچھ بعد جب قائد اعظم لاہور سے دہلی جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوئے تو کسی بے قرار نے اپنے قائد سے سوال کیا ’’قرارداد تو منظور ہوگئی پاکستان کب بنے گا؟‘‘
قائد نے جواب دیا ’’اس کا انحصار آپ کی کوشش پر ہے۔‘‘ پھر تاریخ نے انہونی کو ہوتے دیکھا اور سات برس کے مختصر وقت میں پاکستان وجود میں آگیا۔ سات برس کی جدوجہد سے بنائے گئے پاکستان کے عوام سے ستر برس بعد بادشاہی مسجد کا مینار آج ایک بار پھر بے قراری سے سوال کررہا ہے کہ کیا پاکستان میں اللہ کا حکم نافذ ہوگیا؟ کیا مغرب میں ’’عمرؓ لا‘‘ کے نام سے نافذ ہونے والے قوانیں پاکستان میں بھی رائج کر رہے ہیں؟ کیا مسلمانوں نے اپنے خواب کی تعبیر پالی ہے؟ کیا پاکستان میں سارے انسان برابرہیں؟ کیا پاکستان کے عوام خوش حال ہیں؟ کیا پاکستان کا ہر شہری اپنی جان کے خوف سے آزاد ہوگیا ہے؟ کیا پاکستان کے حکمران کمزور عوام کی طاقت بن گئے ہیں؟
میں نے تو مینار کے اس سوال سے اپنی آنکھیں چرا لیں اور ایسے آگے بڑھ گیا ہوں جیسے یہ سوال مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا، لیکن آپ سب کو تو اس کا جواب دینا ہی چاہیے۔ اپنی پوری زندگی کے ساتھ ہمارا یہی رویہ ہے کہ فرض کے سوال پر ’’ہم سب کا فرض ہے‘‘ کہتے ہیں اور حق کے سوال پر ’’میرا حق ہے‘‘ کا دعویٰ لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
پاکستان بناتے ہوئے جو نعرے لگائے گئے تھے‘ جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے‘ وہ تو پورے نہ ہوئے بلکہ امن کی آشا، باہمی تجارت، فلموں کا تبادلہ اور اب پاکستانی اداکاروں کی دولت کی ہوس کو ’’فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘‘ کے غلاف میں لپٹے دھوکے نے قیام پاکستان کے مقصد کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ ہولی اور دیوالی سے الگ ثقافت کا اعلان کرنے والوں کے ملک پر حکمرانی کرنے والوں نے مذہبی رواداری کے نام پر مندروں میں بھونڈی پرفارمنس دینا شروع کردی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’مسلمان قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل، ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا، ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔‘‘
1940ء میں ایک الگ ملک کا مطالبہ ہوا اور سات سال کے مختصر عرصے میں پاکستان بن گیا۔ آج اتنے وقت میں تو بنے بنائے آئین، عدالت، پارلیمنٹ، نیب، ایف آئی اے کے موجود ہوتے ہوئے بددیانتی پر تحقیقات کے لیے ٹی آر او بھی نہیں بن پاتے۔
جتنے کم وقت میں پاکستان بن گیا اتنا عرصہ تو مقاصد اور طریقہ کار طے کرنے میں لگ جاتا ہے، پاکستان کی بنیاد میں اگر ’’پاکستان کا مطلب کیا‘ لاالٰہ الاللہ‘‘ کا نعرہ نہ ہوتا تو کوئی بھی نظریہ یا نعرہ پاکستان کے مطالبے کو تحریک میں تبدیل نہیں کرسکتا تھا، اس نعرے میں اتنی تحریک‘ اتنی جان‘ اتنی ہمہ گیریت اور اتنا بڑا اور واضع مقصد ہے کہ اس کے بعد کسی اور منشور‘ پروگرام اور وعدے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ پاکستان بنانے کے لیے کسی دلیل اور ذہن سازی کی بال برابر ضرورت نہیں پڑی جس پل پاکستان کے مطالبے قرارداد منظور ہوئی اُسی پل عملی جدوجہد کا آغاز ہوگیا۔
پاکستان کے مخالفوں نے پہلے ہی دن سے اپنے حریفوں اور اُن کے پروگرام کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرلیا تھا لہٰذا بنگالی‘ غیر بنگالی‘ اردو اور انگریزی کا جھگڑا کھڑا کردیا گیا، جن لوگوں کو نوخیز پاکستان میں اردو نافذ کرنے کا ایسا شوق تھا‘ وہ آج ستر برس گزر جانے کے بعد اردو کو نامکمل، ناقص زبان قرار دے رہے ہیں۔
وہی پاکستان مخالف لوگ مولانا مودودیؒ کو بلا دلیل اور خلاف واقعہ پاکستان مخالف قرار دینے کی کمزور سی کوشش آج بھی کررہے ہیں، مولاناؒ نے پاکستان حاصل کرنے کی کتنی خوب صورت اور ارادوں میں بجلی بھردینے والی‘ مقصد سے بھری بات کہی تھی ’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے، تمام روئے زمین ایک ملک ہے، انسان نے اسے ہزاروں حصوں میں تقسیم کررکھا ہے، اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے تو کیا بگڑ جائے گا، اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو، مجھے اگر ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جہاں انسان پر اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو‘ تو میں اس کے ایک ذرۂ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔‘‘
انسان اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتا ہے‘ اپنے طور وہ بڑی بڑی چالیں چلتا ہے لیکن اللہ جب کوئی فیصلہ کرلے تو وہ مکھیاور مچھروں سے بھی بڑے بڑے کام لے لیتا ہے، دشمنوں سے راستہ ہموار کروا دیتا ہے لہٰذا آج برقی اسکرین پر تو ہر طرف اسلام نافذ نظر آنا شروع ہوگیا ہے، جو سدا کا جھوٹا ہے وہ بھی سچ کا پرچار کر رہا ہے‘ جو عید کی نماز بھی مارے باندھے پڑھتا ہے وہ بھی فجر کی نماز میں مسجد کے بھر جانے کو اسلام کی عظمت کا پہلا زینہ قرار دے رہا ہے۔ عمل ہو نہ ہو لیکن سچ حق زبان زد عام ہورہا ہے ممکن ہے کہ’’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوی‘‘ کے مصداق جو لوگ آج حق کا پرچم اسکرین پر بلند کررہے ہیں وہ اسکرین سے نکل کر عملی دُنیا میں آجائیں، بلاشبہ سب سے اچھی چال اللہ کی چال ہے۔
جو لوگ واقعی نظریہ پاکستان کو نظر سے عمل میں لانا چاہتے ہیں اور بلند و بانگ اعلانات اور دعوے کرتے ہیں اُن سے گزارش ہے کہ جس جلسے میں قراداد پاکستان پیش کی گئی وہاں واقعی ایک لاکھ کا مجمع تھا اس بڑے مجمع سے قائد اعظمؒ نے چند منٹ اردو میں خطاب کیا اور اس کے بعد ساری بات انگریزی میں کی لیکن سامنے بیٹھے لوگ اس طرح سُن رہے تھے کہ جیسے سب سمجھ رہے ہوں۔ ایک بوڑھا بار بار نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کررہا تھا۔ ساتھ بیٹھے آدمی نے اُس سے پوچھا ’’تمہاری سمجھ میں کیا آرہا ہے؟‘‘ تو جواب میں اُس بوڑھے شخص نیکہا ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میرا قائد جو بول رہا ہے وہ سچ بول رہا ہے۔‘‘
دین دار لوگوں کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اُن کی مصروفیت اُنھیں عام آدمی سے دور رکھتی ہیں، ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ دین دار آدمی کسی سے ملے اور اپنا اثر نہ چھوڑے، لہٰذا اچھے لوگوں کو چاہیے کہ کبھی ریل کی اکانومی کلاس میں سفر کریں‘ ساتھ بیٹھے لوگوں سے اپنا پورا تعارف کرائیں اور اپنا ٹچ فون بیگ میں رکھ کر عام آدمیوں کی طرح عام‘ آدمی بن کر بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس آدمی سے پوری ریل کے مسافر خود چل کر ملنے آئیں گے، اس سے بڑی مصروفیت اور کیا ہوسکتی ہے؟
nn