فرح آج بہت پریشان تھی۔ اُس کی زندگی کا پہیّہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے رُک گیا ہو، یا یوں لگتا تھا جیسے اُس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سَرک گئی ہو۔ آج فرح کے میاں کا انتقال ہوگیا تھا۔ فرح کو کسی صورت یقین نہیں آرہا تھا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا، کیسے ہوگیا، بچوں کا کیا ہوگا، یہ کیسے تربیت پائیں گے، میں اکیلے کیا کروں گی، ہمارا کیا ہوگا؟؟ فرح کے ذہن میں یہ سارے سوالات گردش کررہے تھے اور وہ خاموش اور گم صم ہوکر رہ گئی تھی، لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اُس کے منہ سے شکوے کی جگہ انالِلہ وانا الیہ راجعون کے سوا کوئی لفظ نہیں نکلا۔ وہ قرآنِ مجید کو سمجھنے والی ایک نیک اور صابر وشاکر عورت تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتی تھی کہ اللہ کو زبان سے غلط الفاظ سخت بُرے لگتے ہیں۔
آخرکار وقت گزرتا گیا۔ فرح اپنی اماں کے گھر آکر رہنے لگی۔ ساس کے ہاں رہتے ہوئے اُسے مستقل شوہر کی یاد ستاتی، پھر دوسری بات یہ تھی کہ شوہر کے انتقال کے بعد سسرال میں اُس کی قدر کھوگئی تھی۔ آخرکار فرح کو اُس کے ماں باپ اپنے گھر لے آئے کہ بیٹیاں کبھی والدین پر بوجھ نہیں ہوتیں۔ لیکن فرح کے اندر خود اُس کی اَنا جاگی ہوئی تھی۔ پھر ایک دن فرح نے یہ ارادہ کیا کہ وہ کسی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کرے گی تاکہ والدین کا ہاتھ بٹاسکے اور ساتھ ہی شوہر کی یاد میں تڑپتے ہوئے ذہن کو مصروف رکھ سکے۔ فرح نے جس اسکول میں اپنی بیٹی کا داخلہ کروایا، وہاں ایک ٹیچر کی اسامی خالی تھی، چناں چہ اس کی قابلیت دیکھتے ہوئے اسے انتظامیہ نے فوری رکھ لیا۔ فرح کو وہاں بڑی عزت ملی۔ اب وہ مصروف رہنے لگی۔ اس نے اپنے بیٹے کو بھی اسی اسکول میں بلالیا تاکہ اس کی نظروں کے سامنے رہے۔ فرح کے دونوں بچے ہیرے موتی تھے۔ اس نے دونوں کی تربیت بڑے اچھے انداز میں کی تھی۔ وہ ماں اور بڑوں کی عزت کرتے، ہر ایک سے تمیز سے پیش آتے۔ فرح کو اپنے بچوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی، لیکن جب فرح کو آج سعدیہ نے بازار میں دیکھا تو سوچ میں ڈوب گئی کہ وہ اپنے 8 برس کے بیٹے کو کھلونے کی دکان میں کھڑے ہوکر لگاتار سمجھا رہی تھی کہ بیٹا یہ کھلونا پستول اچھا نہیں، تم دوسرا لے لو۔ لیکن بیٹا ضد کررہا تھا، کیوں کہ وہ بھی ایک بچہ تھا۔ فرح اُس وقت بہت پریشان تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر آج اس کا باپ ہوتا تو اس کے پاس کس قدر مہنگے اور بڑھیا کھلونے ہوتے، اور اس کو اس قدر پیار ملتا کہ کھلونوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
فرح اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک امی کی آواز آئی کہ فرح بیٹا آکر کھانا کھالو۔ اور وہ اپنے خیالات کے سمندر کو جھٹک کر واپس اپنی دُنیا میں مگن ہوگئی اور زبان سے کلمۂ شکر نکالا کہ اس کے والدین ابھی زندہ ہیں جنہوں نے فرح کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور فرح کے بچوں کو نانا نانی کے پیار کے بدلے حقیقی والدین کا پیار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔
فرح نے آج بھی شادی نہیں کی، وہ ساری زندگی اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے میں سکون محسوس کرتی ہے۔ اس کی زندگی گزارنے کا اصل مقصد ہی اپنے بچے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ اللہ نے اگر ہمیں والدین (ماں اور باپ دونوں ہی) کی نعمت سے سرفراز کیا ہے تو ان کی خدمت کرکے خوب اجر کمائیں اور اپنی جنت میں جانا آسان بنائیں۔
اقبال کے افکار میں زندہ ہے زمانہ
مدیحہ صدیقی
اقبال کے اشعار ہیں مومن کا خزانہ
ظلمت سے، اندھیروں سے رہا بر سرِ پیکار
اسلام کے ہتھیار سے تھا سب کو ہرانا
مرعوب تھا مغرب سے نہ تھے ہند کے اثرات
تھا پیشِ نظر غیر کی تہذیب مٹانا
شاہین کی امثال سے تھا اسْ نے جھنجوڑا
مدہوش جوانوں کو تھا پرواز سکھانا
تھا اس کا تصورِ خودی خوب تر جینا
کردار بلندی پر تھا اس کو لے جانا
احساس کے وہ رنگ تھے الفت کے کرشمے
اک سوز تھا جذبوں میں، تھا رب کو منان