(چھوٹا شہر بڑ آدمی(طارق تنولی

301

تعلقہ کنڈیارو ضلع نوشہروفیروز سے تعلق رکھنے والے معروف سندھی ادیب
محمد عثمان عباسی
طارق تنولی

17-tt
محمد عثمان ولد محمد چنیھ عباسی جو علمی اور ادبی حلقوں میں محمد عثمان عباسی کے نام سے معروف ہیں‘ ضلع نوشہروفیروز تعلقہ کنڈیارو کے ایک چھوٹے سے اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم گوٹھ چنیھانی میں رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اس پسماندہ علاقہ اور ایک عام سے گوٹھ سے تعلق رکھنے کے باوجود موصوف نے علمی اور ادبی حوالے سے جو نمایاں امور سرانجام دیے ہیں وہ ان کے باعث سچ مچ ایک چھوٹے شہر(بلکہ گاؤں) کے بڑے آدمی کہلوانے کے حقدار پاتے ہیں۔ محمد عثمان عباسی نے 3 فروری 1960 ء کو ایک متوسط گھرانہ میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے پرائمری کی تعلیم اپنے آبائی گاؤں چنھیانی ہی سے حاصل کی جبکہ درجہ ششم تا ہشتم کی تعلیم کے لیے گورمنٹ مڈکل اسکول سیدو باغ میں داخلہ لیا۔ جس کے بعد درجہ نہم اور دہم کے امتحانات انہوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول کنڈیارو سے پاس کیے۔ بعد ازاں عباسی صاحب نے بی۔اے گورنمنٹ کالج کنڈیارو سے خرنے کے بعد ایم۔اے اسلامک کلچرکی سندھ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور سے حاصل کی۔ پی۔ٹی۔سی مٹھیانی کالج‘ سی ٹی علامہ اقبال یونیورسٹی مورو سینٹر‘ بی۔ایڈ (ریگولتر) پائلٹ کالج نوابشاہ اور ایم۔ایڈ کی اسناد انہوں نے ٹنڈوجام یونیورسٹی سینٹر کنڈیارو سے حاصل کیں۔ موصوف ہائی اسکول میں دوران تعلیم اپنے اساتذہ کرام الحاج محمد قابل اجن اور سکھیو خان چنا‘ کالج میں محمد ہارون سومرو اور مسعود احمد میمن‘ پی ٹی۔سی اوز بی۔ایڈ میں محمد حسین نانگر راج‘ غلام محمد سومرو رانجھوخان زرداری اور پور محمد کھوسے کے پڑھانے کے انداز سے از حد متاثر ہوئے اور آج بھی ان کا ذکر خیرعزت و احترام اور عقیدت کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ عباسی صاحب کو دوران تعلیم فن تقریر میں بھی مہارت حاصل تھی جس کی وجہ سے انہیں اساتذہ کرام بھی پسند کرتے تھے میٹرک میں انہین ایک تقریری مقابلہ میں بہ طور انعام کتاب دی گئی اور اپنی زندگی کا یہ پہلا تحفہ حاصل کرنا اب بھی ان کی خوشگوار یاردوں کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے۔ اگرچہ انہیں بعد ازاں متعدد انعامات و اعزازات اپنے علمی اور ادبی کاموں پر دیے گئے لیکن پہلے انعام کی وہ پہلی بار ملنے والی خوشی کا تصور آج تلگ انہیں مسرت عطا کرتا ہے۔ محمد عثمان عباسی کو اوائل ہی سے پڑھنے اور پڑھانے سے بے حد دلچسپی تھی۔ انہوں نے باقاعدہ طورپر لکھنے کا آغاز روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کراچی میں کالم بہ عنوان ’’جھاتیوں‘‘ سے بچوں کا ادب کے تحت کیا اور پھر معروف ماہنامہ ’’گل پھل‘‘ میں بھی لکھنے لگے۔ عباسی صاحب نے اپنی عملی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز 27 جنوری 1982 ء کو بہ طور پرائمری استاد کیا اور اب بھی اپنے گوٹھ کے سرکاری پرائمری اسکول میں بچوں کو پڑھارہے ہیں۔
محمد عثمان عباسی نے تاحال مختلف علمی اور ادبی موضوعات بزبان سندھی پر تین درجن سے بھی زائد کتب تصنیف‘ تالیف‘ مرتب اور ترجمہ کی ہیں جن میں سے چند معروف کتب کے نام یہ ہیں۔
(1) مرشدن جاکارنامہ ‘(2) دنیا ھک آئینو‘(3) صدام میدان جنگ میں‘(4) کامل نماز‘(5) سچائی (افسانوی مجموعہ)‘ (6) دلچسپ کہانیاں‘(7) دنیا کی سو عظیم شخصیات (ترجمہ)‘(8) گجھارتون‘(9) سیرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم‘(10) بچوں کی کہانیاں‘(11) پرک‘(12) سعدی جون رھاٹیون‘(13) تقریر سان تقدیر ٹاھیو(ترجمہ)‘(14) مسلمان خاوند‘(15) غریب ھاری‘(16) ذہنی تخلیق‘(17) قرآنی دعائیں‘(18) عالمی معلومات
غیرمطبوعہ کتب جو اشاعت پذیر ہونے کی منتظر ہیں وہ یہ ہیں۔
(1) علمائے اکابر دیوبند‘(2) ابوالکلام آزاد جو خفیہ فائل (ترجمہ)‘(3) ریڈیائی تقریروں (ترجمہ)‘(4) تاریخ اسلام ۔وغیرہ
متعددمحاصل کردہ انعامات اور اعزازات میں سے چند کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) سندھ گریجویٹ ایسوسی ایشن المعروف ’’سگا‘‘ کی جانب سے 2002 ء میں ملنے والا ’’بھٹائی ایوارڈ‘‘
(2) ’’محتا ایوارڈ‘‘ یعنی ’’اعتراف فن ایوارڈ‘‘ جو انہیں 2007 ء میں نوشہرو فیروز ضلع تاریخی آئینہ میں کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کے موقع پر عطا کیا گیا۔
(3) 2012 ء میں الابراہیم آئی ہاسپٹل کی جانب سے ’’اسکول اسکریننگ ایوارڈ ‘‘ضلع نوشہروفیروز۔
(4) کنڈھیاروں پارٹیز الائنس کی جانب سے 2011ء میں ’’بہترین استاد‘‘ کا ایوارڈ۔
(5) ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ کنڈیارو کی طرف سے 1994ء میں ’’گوبند مالہی شیلڈ‘‘ دی گئی۔
(6) 2015 ء میں کمشنر شہید بے نظیر آباد ڈویژن (نوابشاہ ڈویژن) جمال مصطفی سید کی جانب سے ضلع نوشہرو فیروز کا ’’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔
علاوہ ازیں بے شمار اسناد اور شیلڈز اس پر مستزاد ہیں۔
محمد عثمان عباسی 25 دسمبر 1993 ء کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے اور ان کے ہاں 4 بیٹوں اور ایک بیٹی کی اولاد ہوئی۔ موصوف بہ ظاہر قدرے سخت مزاج اور غصیلی طبیعت کے ہیں لیکن ان کے جاننے والوں کے مطابق وہ دل کے بے حد صاف اور کھرے ہیں یہ باطم ایک من کے اجلے اور ہمدرد طبع‘ دوستوں کے دوست انسان واقع ہوئے ہیں۔ عباسی صاحب کے لیے مشہور ہے کہ وہ حق بات منہ پر کہنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے اور چاہے ان کے سامنے کوئی کتنا ہی بااثر فرد ہو وہ دل کی بات بہرطور کرکے ہی دم لیتے ہیں اسلام‘ پاکستان اور امت مسلمہ کا درد رکھنے والے فرد ہیں اور اس حوالے متفکر اور دعاگو رہتے ہیں۔
پسندیدہ ادیب: مولانا عبدالوہاب چاچڑ‘ غلام ربانی آگرو‘ مولانا محمد حسین شاہ سجاولی‘ محمد عچمان ڈیپلائی اور مولانا محمد قاسم سومرو۔
پسندیدہ کتاب: قرآن مجید‘ شاہ جو رسالو‘ جھڑا گل‘ گلاب جا‘ ام الکتاب
پسندیدہ شاعر: شاہ عبداللطیف بھٹائی‘ نیاز ہمایونی
موجودہ پتا: محمد عثمان عباسی‘عثمانیہ لائبریری گوٹھ چنھیانی‘ تعلقہ کنڈیارو‘ ضلع نوشہر و فیروز

حصہ