(خلق میں انکا ہوا سوال زیب سندھی (ترجمہ: اسامہ تنولی

396

خلق میں انکا ہوا سوال زیب سندھی
’’حال ہی میں ضلع جیکب آباد کے شہر ٹھل سے آنے والی یہ خبر شاید آپ کی نظروں سے بھی گزری ہوگی جس کے مطابق ’’موٹر سائیکل، ٹریکٹر اور کاروں سے لے کر چاول بھی سود پر دیے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے سود کے شکنجے میں پھنسنے والے متعدد خاندان تباہی کے دہانے پر آن پہنچے ہیں۔‘‘
یہ خبر پڑھ کر مجھے ٹھل ہی کا ایک شخص یاد آگیا جس نے لگ بھگ دس برس قبل سود پر لیے گئے اناج کا سود اور اصل رقم واپس نہ کرنے کی استطاعت کے سبب عالمِ مجبوری اور بے بسی میں اپنی بیٹی کا سود خوروں کے نیم پاگل نوجوان سے بیاہ کردینے کی ہامی بھرلی تھی۔ تاہم خوش قسمتی سے یہ معاملہ جب میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تو اس شخص کی بیٹی کی گلوخلاصی ہوئی اور وہ اس نیم پاگل نوجوان کے حوالے ہونے سے بچ گئی، لیکن قریب قریب انہی دنوں میں پنوعاقل شہر کی دو بہنیں اتنی خوش نصیب ثابت نہیں ہوسکی تھیں، جن کے والد کو اپنی اہلیہ کے بیمار پڑجانے پر سود خوروں سے چند ہزار روپیہ بطور قرض لینے کے عوض جو بعدازاں سود در سود ہونے کے بعد ستّر ہزار روپے سے بھی تجاوز کرگیا تھا، بہ امر مجبوری اپنی دونوں بیٹیاں ویاج خوروں (سود خوروں) کے سپرد کرنی پڑگئی تھیں۔ اگرچہ یہ معاملہ بھی بذریعہ میڈیا مشتہر ہوا تھا لیکن پھر بات دب گئی تھی۔ معلوم نہیں پھر ان بچیوں کا کیا بنا اور ان کی بیمار ماں کو اپنی بیٹیوں کی جدائی کا صدمہ کتنے عرصے سہنا پڑا، جس کے علاج کی خاطر لیے گئے چند ہزار روپوں کے سبب ہی اس کی چہیتی بیٹیاں شاید سود خوروں کے حوالے ہوگئی تھیں۔
سندھ میں ویاج (سود)کا غیرقانونی کاروبار ایک خطرناک وبائی صورت اختیار کرچکا ہے۔ پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی ناک تلے یہ قبیح کاروبار ترقی کی منازل طے کرتا رہا ہے۔ لیکن اکثر مقامات پر پولیس نے ان ویاج خوروں کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی پہرے داری کے فرائض ہی سرانجام دیے ہیں۔ سندھ کے مختلف شہروں سے ویاج کے نقصانات سے متعلق رپورٹ ہونے والی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سود خوروں کے شکنجوں میں پھنس کر لوگ محض تباہی کے کنارے پر ہی نہیں پہنچے، بلکہ بے شمار افراد ویاج خوروں کے بچھائے گئے جال میں پھنس کر تباہ و برباد ہو بھی چکے ہیں۔ سود کے جال میں گرفتار لوگ پھر ان کے وہاں قید ہی رہتے ہیں، اور وہ جونکوں کی مانند ان کا خون چوسنے میں لگے رہتے ہیں۔ سود خوری یا کسی بھی موضوع سے متعلق ساری ہی خبریں اخبارات میں رپورٹ نہیں ہوا کرتیں، بلکہ ستم کی کئی داستانیں مختلف وجوہ کی بنا پر رپورٹ ہونے سے رہ بھی جاتی ہیں۔ حال ہی میں ویاج خوروں کا شکار بننے والے آرا مشین کے اُس مالک کی درد بھری داستان بھی شاید کسی اخبار کی خبر نہیں بن سکی ہے جس نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سودخوروں سے قرض تو لیا لیکن کاروبار کے اتار چڑھاؤ کے سبب اسے بجائے فائدے کے نقصان اٹھانا پڑگیا۔ نقصان کے نتیجے میں نہ صرف اس کی آرا مشین، زمین اور گھر تک بک گیا، بلکہ وہ کنگال اور قلاش ہوجانے والا بے چارہ شخص رزق کی تلاش میں کراچی جاپہنچا، جہاں وہ آج کل محنت مشقت کرکے اور خود فاقہ کشی کا نشانہ بن کر بھی اپنے بچوں کے لیے خوراک کے حصول میں لگا رہتا ہے۔
جس طرح سے کوئی اژدھا کسی جاندار کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر اس کا سانس بند کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح سے مالی مسائل میں مبتلا افراد بھی جب ویاج خوروں کے جال میں آن پھنستے ہیں تب یہ سود خور اپنے اس شکار کو اتنا بدحال اور قلاش کردیتے ہیں کہ وہ بے چارے متاثرہ افراد مجبوری اور بے بسی کی اس انتہائی سطح پر جاگرتے ہیں کہ ان کے لیے پھر سے سنبھلنا دشوار ہوجاتا ہے، اور ان میں سے بعض حد درجہ لاچار افراد تو عالم یاس میں خودکشی جیسا انتہائی اقدام بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایسی ہی خودکشیوں کی چند الم ناک داستانیں میرے صحافی دوست ایم۔ بی سومرو نے کاوش کے لیے رپورٹ کی ہیں۔ موصوف آج کل تو کاوش کے اسلام آباد دفتر میں سینئر رپورٹر ہیں لیکن چند سال قبل جب وہ سندھ میں رپورٹر تھے تب انہوں نے ویاج خوروں کے متعلق کچھ نیوز اسٹوریز کی تھیں۔ حال ہی میں میری اُن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی پرانی یادیں کھنگالتے ہوئے بتایا کہ 1980ء کی دہائی میں سارے سندھ میں تمباکو کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر نے تین لاکھ روپے ویاج پر لیے تھے جس کا سود ادا کرتے کرتے وہ نہ صرف اپنے تمباکو کے کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ مختلف روٹس پر چلنے والی اس کی گاڑیوں سمیت اس کی اپنی ذاتی گاڑی بھی ویاج کی بھینٹ چڑھ گئی اور بالآخر نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اُس کے پاس صرف اس کے ذاتی استعمال اور رہائش کا گھر ہی باقی رہ گیا جو سود خوروں نے لینے پر اصرار کیا، جس پر دل برداشتہ ہوکر اس نے اپنے اسی گھر میں گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ ویاج خوروں نے بعد از مرگ بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اس کی اولاد پر مذکورہ گھر حوالے کرنے کے لیے دباؤ ڈالا، جس پر مرحوم کی اولاد نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تب کہیں جاکر اور چند ہمدرد افراد کے بیچ میں پڑنے سے اس کے بیٹوں کی سود خوروں کے چنگل سے گلوخلاصی ممکن ہوسکی۔ اگرچہ رہنے کا گھر تو اس طرح ویاج خوروں کے ہتھے چڑھنے سے محفوظ رہ گیا لیکن پھر اسی خوشحال تاجر، جو بعد ازاں سود کے سبب تباہ و برباد ہوکر خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا تھا، کے لاڈلے بیٹوں کو دکانوں اور ہوٹلوں پر لوگوں نے مزدوری کرتے ہوئے دیکھا۔ ایم بی سومرو نے ویاج خوری کی دیگر کئی دل فگار داستانوں کے ساتھ ایک المناک واقعہ یہ بھی سنایا کہ جب ایک لاچار اور بے بس شخص کسی طرح سے بھی اپنی جان سود خوروں سے آزاد نہ کروا پایا تو بالآخر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینی پڑی، جس سے اسے سود پر قرض دینے والے فرد نے بعد ازاں شادی کرلی۔ سود کی دلدل میں دھنسے ہوئے افراد زیادہ تر اس سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی جتنی بھی کوشش کرتے ہیں وہ اتنا ہی اس میں مزید دھنستے چلے جاتے ہیں۔ قانون کے مطابق بینکوں کے علاوہ کسی بھی نجی ادارے یا فرد کو ویاج کا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن مجبور اور بے بس افراد کو
(باقی صفحہ 47 پر)
برباد کرکے رکھ دینے والا یہ گھناؤنا اور مکروہ دھندا سارے صوبہ سندھ میں ہورہا ہے، جب کہ قانون کے محافظوں نے اس حوالے سے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ رکھی ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں ہر قسم کا قبیح اور مکروہ دھندا کرنے والے قانون کے ان رکھوالوں کو ان کا حصہ ادا کرنے میں بخل یا کنجوسی سے کام بالکل نہیں لیتے۔ نتیجتاً سندھ کے بے شمار لوگ سود خوروں کی ستم رانیوں کے ہاتھوں مبتلائے آزار ہیں اور سود کا غیرقانونی گھناؤنا دھندا آج ایک وباء کی سی صورت اختیار کرچکا ہے۔ سرکار کو تو اس اہم ترین مسئلے پر لازمی دھیان دینا ہی چاہیے، لیکن جو افراد کسی بھی ضرورت کی وجہ سے سود پر پیسے لینا چاہتے ہیں انہیں بھی ویاج کے عوض قرض لینے سے قبل سو مرتبہ سوچنا چاہیے۔ سخت مجبوری کے عالم میں بھی سود پر قرض لینے سے بہتر یہ ہے کہ گھر کا سامان یا زیورات وغیرہ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کی جائے، بجائے اس کے کہ سود پر رقم لینے کے بعد نہ صرف گھر کا مال و اسباب اور زیورات وغیرہ، بلکہ گھر ہی کو بیچنے کی نوبت آجائے اور انسان کو بالآخر اپنی زندگی سے ہی بیزار ہونا پڑجائے۔ لیکن اگر کسی مسکین اور غریب کے گھر میں (اگر کسی کے پاس گھر بھی ہو) مال و زر یا دوسرا کوئی سامان ہی نہ ہو تو وہ بے چارہ پھر اس صورت میں کیا کرے۔۔۔؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو میرے حلق میں اٹک کر رہ گیا ہے۔‘‘

حصہ