ترکی میں آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم ہورہا ہے، اور مغرب تلملا رہا ہے، کیوں؟ ہالینڈ کی حکومت چراغ پا ہے، کیوں؟ جرمن حکومت مشتعل ہے، کیوں؟ سوئیڈن نے ہالینڈ سے کاندھے ملا لیے، کیوں؟ فرانس پہلے ہی شانہ بہ شانہ ہے، اور آسٹریا دانت پیس رہا ہے، کیوں؟؟ کہاں گیا لبرل یورپ؟ کہاں گیا جمہورکا احترام؟ کہاں گیا روادار اقدارکا محافظ یورپ؟ کہاں گیا انسانی حقوق کا علَم بردار یورپ؟
2 فروری جمعرات کا روز تھا۔ انقرہ میں تاریخ ساز پریس کانفرنس ہوئی۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور ترک صدر رجب طیب اردوان ون آن ون ملاقات کے بعد خوشگوار موڈ میں ذرائع ابلاغ کے روبرو ہوئے۔ جرمن چانسلر نے کہا: ’’ہم نے تفصیل سے’اسلامی دہشت گردی‘ سمیت دہشت کی ہر قسم پرگفتگو کی ہے، کرد قوم پرست جنگجوؤں (دہشت گرد نہیں کہا) کا تذکرہ بھی ہوا۔ ہم نے تعاون پر اتفاق کیا۔ ہم سب ہی دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ ہم نے مستقبل میں تعاون میں مزید استحکام پر اتفاق کیا ہے۔‘‘’
انجیلا مرکل کے ان الفاظ پر صدر اردوان کے چہرے پر ناگواریت صاف دیکھی گئی۔ اپنی باری پر انہوں نے جرمن چانسلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر واضح کردیا کہ’’اسلامی دہشت گردی کے الفاظ سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی، یہ موازنہ ہرگز درست نہیں، اسلام اور دہشت گردی کا کوئی تعلق نہیں، اسلام کا مطلب امن ہے۔ داعش کے دہشت گردوں کو بنیاد بنا کر ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح کا استعمال افسوسناک ہے۔ برائے مہربانی، آئندہ یہ اصطلاح استعمال نہ کریں۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحاد کی ضرورت کا سوال ہے، میں بطور مسلمان صدر یہ اصطلاح قبول نہیں کرسکتا۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقشِ قدم پر جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا اشتعال انگیز بیان محض اتفاق نہ تھا، بلکہ باہمی اتفاق تھا۔ جرمن چانسلر نے یہ اصطلاح ترک وزیراعظم بن علی یلدرم کے ساتھ پریس کانفرنس میں دوبارہ استعمال کی، گویا خود کو ٹرمپ قافلے کا ہراول دستہ ظاہرکیا، جرمنی کے رانگ ٹرن کا واضح اعلان کیا۔ جرمن چانسلرکا یہ پالیسی بیان دو وجوہات کے سبب نسبتاً زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی انتہا پسندی کا طوفان آیا تو سب کی پُرامید نظریں جرمنی کی جانب اٹھ گئیں، گمان تھا کہ جرمنی لبرل جمہوریت کا آخری محافظ بن کر سامنے آئے گا، مگر جرمن چانسلر نے ’اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح دہرانا ہی باعثِ شرف جانا، اور اس پر اصرارکیا۔
دوسری وجہ وقت ہے۔ اگلے ماہ کی 16 تاریخ کو ترکی میں آئینی اصلاحات پر ریفرنڈم ہے۔ اس ریفرنڈم کا ایک فیصلہ کن کردار یورپ میں آباد پچاس لاکھ ترک شہریوں کا ہے، جن میں سے چودہ لاکھ ووٹر صرف جرمنی میں رہتے ہیں، ان کی رائے بہت اہم ہے۔ ترک صدر یورپ میں مقیم ترک شہریوں میں ریفرنڈم کی مہم چلا رہے ہیں، جسے بروقت نقصان پہنچانے کے لیے جرمن حکومت اپنا کردار نبھانا چاہتی ہے، اور یہ کردار چانسلر انجیلا مرکل کی اشتعال انگیزی اور ترک دشمن پالیسی میں نمایاں ہے۔
غرض جرمنی لبرل اقدار اور جمہوری اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر ترک مخالف یورپی مہم کا سرخیل بن چکا ہے۔ جرمنی میں وزراء ترکی کی جمہوری حکومت کے خلاف زہرافشانی کرتے ہیں کیونکہ یہ رائے کی آزادی کا اظہارہے، مگر ترک حکام کو آئینی اصلاحات کے لیے مہم چلانے کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ سیکورٹی رسک ہے۔
آسٹریا کے وزیراعظم یورپی یونین سے درخواست کرچکے ہیں کہ ترک صدر کی تقاریر پر پورے یورپ میں پابندی عائد کی جائے۔
سماجی منصوبوں کی ترک وزیر فاطمہ بتول ریفرنڈم مہم کے سلسلے میں بذریعہ سڑک ہالینڈ کے شہر روٹر ڈیم پہنچیں، لیکن حکام نے انھیں قونصل خانے میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ جس کے بعد فاطمہ بتول وطن لوٹ گئیں۔ اس واقعہ پر استنبول سے روٹرڈیم تک ترک شہریوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ اس سے قبل ہالینڈ کی حکومت نے ترک وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو کی پرواز کو بھی روٹرڈیم میں اترنے سے روک دیا تھا۔
سوئیڈن میں ترک آئینی اصلاحات مہم پر ایک ریلی شیڈول تھی، مگر مقامی منتظم نے اچانک ترک حکمران جماعت سے معاہدہ توڑ دیا، ریلی کے انتظام سے ہاتھ اٹھالیے، اورکوئی وجہ بیان نہ کی۔
ڈنمارک کے وزیراعظم لارس لوکے راسموسین نے فرمایا کہ ترکی میں ’جمہوری اقدار شدید دباؤ میں ہیں۔‘
ترکی میں آئینی اصلاحات کے روشن امکان سے گویا مغرب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بلبلاہٹ کا اندازہ بی بی سی کی ایک سرخی ’’امید ہے کہ ترکی اپنے حواس بحال کرلے گا‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔
مذکورہ یورپی ملکوں میں آج کل انتخابات ہورہے ہیں، اور ’اسلامی دہشت گردی‘ ہی تقریباً سب کا انتخابی نعرہ ہے۔
غرض، پورا مغرب ترک انقلاب پر چلاّ اٹھا ہے۔ یہی وہ مغرب ہے جو سو سال پہلے ترکی میں مصطفی کمال کے مظالم کا پشتی بان تھا، جو مغرب ہزاروں علماء کی سرعام پھانسیوں پر زیرلب مسکراتا رہا تھا، جو مغرب مساجد پر تالے دیکھ کر بغلیں بجایا کرتا تھا، یہ وہ مغرب ہے جو ترکی میں جمہوریت کے لگاتار قتلِ عام پر پھولے نہ سماتا تھا، اور ترکی سے اسلام کا نام و نشان تک مٹادینا چاہتا تھا۔
سچ یہ ہے کہ امریکہ کے بعد، یورپ نے نقاب اتاردیا ہے۔ ایک دہشت ناک چہرہ نمایاں ہونے لگا ہے، نئے عالمی انتشار کے نقوش ابھرنے لگے ہیں۔ یہ امریکی ٹرمپ کے نقش ہیں، یہ ڈچ وزیرگیرٹ ویلڈرز کے نقش ہیں، یہ فرانسیسی سیاستدان لی پین کے نقش ہیں، یہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے نقش ہیں، اور یہ پوپ اُربن دوئم کے نقش ہیں۔ بش کی صلیبی یلغار نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ گوکہ بات ڈونلڈ ٹرمپ سے بہت پہلے ہی زور پکڑ چکی تھی، مگر ٹرمپ نئے مرحلے کی پہلی علامت ہے۔ اب یورپ بتدریج اس مرحلے میں داخل ہورہا ہے، کیونکہ مغرب میں اب تک یورپ کسی تباہ کن صورت حال سے لاتعلق نہیں رہا۔
اس صورت حال پر صدر رجب طیب اردوان کا تبصرہ درست ہے، وہ کہتے ہیں ’’گزشتہ چند روز میں مغرب نے بہت واضح ہو کر اپنا حقیقی چہرہ دکھایا ہے۔ جب سے (ترکی مخالف) واقعات شروع ہوئے ہیں میں نے ہمیشہ کہا کہ فاشسٹ دباؤ ہے۔ میرا خیال تھا کہ (نازی) ناتسی ازم ختم ہوگیا، لیکن میں غلط تھا۔ درحقیقت مغرب میں یہ اب بھی زندہ ہے۔ میری بہن کو، ہماری خاتون وزیر (فاطمہ بتول) کو، اپنے ہی ملک کے قونصل خانے کی عمارت میں سفارتی گاڑی میں داخل ہونے سے کوئی ملک (ہالینڈ) کیسے روک سکتا ہے! وضاحت کریں یہ کیا ہے؟۔۔۔ ہم جانتے ہیں ہالینڈ نے بوسنیا سربرینیکا کے آٹھ ہزار انسانوں کے قتل عام میں وحشیانہ کردار ادا کیا۔۔۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل دہشت گردوں کی پشت پناہ ہیں۔‘‘
اردوان نے یورپ کی کیفیت پر (نازی) ناتسی ازم کا اطلاق جذبات میں نہیں کیا، نہ ہی یہ شدید ردعمل کا نتیجہ ہے۔ درحقیقت، پورے یورپ نے ترک جمہورکے خلاف جو فسطائی رویہ اپنایا ہے، وہ نیا یا انوکھا نہیں۔ تین دہائیوں سے مسلمان آبادیوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں، وہ فسطائیت کی بدترین مثال ہیں۔ بوسنیا اور الجزائر کے قتل عام سے شام پر بمباریوں تک فسطائیت ہی فسطائیت ہے۔
سچائی یہ ہے کہ ترکی سو سال سے مغرب کا کامیاب سیکولر تھیسس تھا، مگر آج اینٹی تھیسس بن چکا ہے، اور اب سن تھیسس تشکیل دے رہا ہے۔ مغرب اس سن تھیسس سے خوفزدہ ہے۔ مغرب اسلامی احیاء کا امکان برداشت نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ امکان ’اسلامی دہشت گردی‘ کا عالمی ڈراما فلاپ کردے گا۔ مغرب کی ’اسلام سازی‘ پر اربوں ڈالر سرمایہ کاری ضائع کردے گا۔ عالمگیر انسانی تہذیب کے امکانات روشن کردے گا۔
nn