(پنجاب کے وزتعلیم رضا گیلانی کی ہدیایت (حامد ریاض ڈوگر

230

ہمارے معاشرے کے خودساختہ روشن خیال، نام نہاد ترقی پسند، لبرل اور لادین عناصر یا پاکستانی قوم کے آستین کے سانپوں کے حوصلے کچھ عرصے سے زیادہ ہی بڑھتے جا رہے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے سرپرستوں امریکہ و یورپ کی بھرپور سرپرستی اور اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار پاکستانی حکمرانوں کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ کچھ روز پیشتر آزاد جموں و کشمیر کے چیف جسٹس نے اپنے عملہ کو نماز قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ ملازمین کو ترقی دیتے وقت ان کے نمازی ہونے کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا، تو ان سیکولر عناصر نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ترقی سے ملازم کے نمازی ہونے کا کیا تعلق؟ یہ دیگر ملازمین کے ساتھ بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہوگا جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
’’بھینسا‘‘، ’’روشنی‘‘، ’’موچی‘‘ اور اس طرح کے دیگر ناموں سے سماجی ذرائع ابلاغ پر اسلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ اور شعائرِ دین کے خلاف گستاخانہ اور توہین آمیز مہم کا معاملہ آیا تو بھی یہ لبرل خواتین و حضرات خم ٹھونک کر ملزموں کی پشت پر کھڑے ہوگئے، اور کیس کی سماعت کرنے والے اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو جذباتی، خطیب اور مولوی جیسے القابات سے نوازا جانے لگا۔ انہی لوگوں کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ڈیڑھ دو سال قبل سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا تھا، مگر توہینِ رسالت کیس کی سماعت کے بعد اس ریفرنس پر کارروائی میں اچانک تیزی دکھائی جانے لگی تاکہ جسٹس صدیقی کو خوفزدہ اور ہراساں کرکے مبنی بر انصاف جرأت مندانہ فیصلے سے روکنے کے لیے دباؤ میں لایا جا سکے۔ اس دوران حکومت میں موجود ان کے سرپرستوں نے گستاخی کے مرتکب بلاگرز کو بیرونِ ملک فرار کرا دیا۔ یوں اب وہ پاکستانی عدالتوں اور قانون کی زد سے خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے بیرونِ ملک بیٹھ کر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس و متبرک ہستیوں اور دینی شعائر کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں اسلام دشمن بیرونی قوتوں کی ہر طرح کی تائید و حمایت انہیں حاصل ہے، اور فیس بک انتظامیہ بھی آزادئ اظہار کے نام پر ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔
اب تازہ واقعہ یہ سامنے آیا ہے کہ پنجاب کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر رضا علی گیلانی نے منگل 14 مارچ 2017ء کو ثانوی تعلیمی بورڈ کے کمیٹی روم میں صوبے کے ڈویژنل ڈائریکٹرز تعلیم کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں ان کے محکمے سے متعلق بہت سے امور زیر غور آئے، جن پر صوبائی وزیر نے ہدایات جاری کیں اور اپنے محکمے کے ان اعلیٰ حکام کو بتایا کہ صوبے کے36 اضلاع میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے 721 کالجوں کو آئندہ مالی سال میں تعلیم و تحقیق کی بہترین سہولیات کی فراہمی کے لیے معقول مالی وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ ہمارا مقصد طلبہ کو عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ صوبائی وزیر رضا علی گیلانی نے ہدایت کی کہ کالجوں میں کھیلوں کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کی معیاری سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، کالجوں کی سیکورٹی کے لیے حکومتی ہدایات پر مکمل عملدرآمد کیا جائے۔ اس موقع پر انہوں نے پرانی گاڑیوں کی نیلامی کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ کرایہ کی عمارتوں میں قائم تعلیمی اداروں کے لیے موزوں قطعہ اراضی تلاش کیا جائے تاکہ ایسے کالج جلد از جلد اپنی عمارتوں میں منتقل ہوں، کالجوں میں معیاری فرنیچر، سائنس و کمپیوٹر لیبارٹریوں کے قیام، فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور بس و لائبریری کی سہولیات کے لیے فنڈ کی فراہمی کو بھی ترجیح دی جائے، کالجوں میں صبح کی اسمبلی کا آغاز کیا جائے اور طالب علموں کی کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ دی جائے، اسٹاف کا مکمل ریکارڈ اپ ٹو ڈیٹ کیا جائے، جب کہ ڈیپوٹیشن پر بھجوائے گئے اسٹاف کو واپس بلوایا جائے، کالجوں کی ویب سائٹ پر طالب علموں کو ون ونڈو آپریشن کی سہولت مہیا کی جائے، جنوبی پنجاب کی تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ اہم ترجیح ہے۔
ان طویل و عریض تجاویز و ہدایات کے دوران وزیر محترم نے شاید غلطی سے یہ بھی کہہ دیا کہ سرکاری کالجوں میں طالبات میں حجاب کے استعمال کی بھی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے جس کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ طلبہ و طالبات کے لیے دورانِ سال حاضری کی 65 فیصد کی جو شرط ہے اس میں پانچ فیصد اضافی حاضریوں کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے، تاہم حتمی فیصلہ صوبائی حکومت کرے گی۔ اس طویل خبر کو دوبارہ پڑھیے۔ تعلیم کی بہتری و ترقی کے لیے وزیر موصوف نے درجنوں وعدے، یقین دہانیاں، سفارشات و تجاویز وغیرہ کا ذکر کیا ہے، مگر ان سب میں سے ہمارے مادر پدر آزاد ہوتے ذرائع ابلاغ کی نظرِ انتخاب صرف اس ایک جملے پر پڑی ہے جس میں طالبات میں حجاب کی حوصلہ افزائی کا ذکر ہے، چنانچہ اپنے نام و قیام کی تحریک، آئین و قانون کی رو سے واضح طور پر ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کہلانے والی مملکت کے ذرائع ابلاغ اسلام سے تعلق کے اظہار سے متعلق اس ایک جملے کو لے اڑے اور چند گھنٹوں میں وہ طوفانِ بدتمیزی ان ذرائع ابلاغ پر برپا کیا گیا گویا بہت بڑا ظلم، ناانصافی اور زیادتی کی جانے والی ہے۔ بس پھر کیا تھا، ہر طرف سے وزیر موصوف کو آڑے ہاتھوں لیا جانے لگا اور تنقید کے تیروں کی بارش اُن پر ہونے لگی۔ نواز لیگ کی حکومت کے اکثر وزراء یہ بیان دیتے پائے جاتے ہیں کہ ملک کو اس وقت بیرونی سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے خطرہ ہے۔
پنجاب کابینہ میں اعلیٰ تعلیم کے قلم دان کے حامل وزیر رضا علی گیلانی کو بھی کچھ ایسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا کہ مخالفوں سے زیادہ کابینہ میں اُن کے ساتھ بیٹھنے والوں نے اُن کی خبر لی۔
چنانچہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر کی باحجاب طالبات کی حوصلہ افزائی کی اس تجویز پر صوبائی حکومت کے ترجمان نے فوری وضاحت ضروری سمجھی ہے کہ حجاب کے بارے میں وزیر صاحب کے بیان کا حکومتی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی حجاب کرنے والی طالبات کو خصوصی مراعات دینے کا حکومتِ پنجاب نے کوئی فیصلہ کیا ہے، اس طرح کی کوئی تجویز بھی زیر غور نہیں۔ صوبائی حکومت کے ترجمان کی وضاحت کے بعد رانا ثناء اللہ جن کا محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں مگر خاموش رہنا چونکہ ان کی فطرت کے خلاف ہے، اس لیے انہوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں، علی رضا گیلانی گدی نشین ہیں، وہ حجاب کرانا چاہتے ہیں تو اپنی
(باقی صفحہ 47 پر)
مریدنیوں سے کرائیں، یہ صوبائی وزیر کی اپنی سوچ ہوسکتی ہے، حجاب کے حوالے سے کسی سے کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی۔
اور تو اور تحریک انصاف جو حکمران نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ہر مؤقف کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے، حتیٰ کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پی ایس ایل کے معاملے میں پوری قوم کی مخالفت مول لے کر بھی لاہور میں اس کے انعقاد کے خلاف بیان دینا ضروری سمجھا تھا، مگر حجاب کے معاملے میں وہ بھی حکمران لیگ کی آواز میں آواز ملاتی سنائی دی، چنانچہ 2013ء کے عام انتخابات میں لاہور سے میاں نوازشریف کے مقابلے میں انتخاب لڑنے والی تحریک انصاف کی ممتاز رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے فوری ردعمل میں کہا کہ وزیر کی گفتگو غیر ذمہ دارانہ ہے، ایسی سفارشات سوچ سمجھ کر پیش کی جانی چاہئیں۔ چلیے یہاں تک رہتا تو معاملہ سمجھ میں آتا تھا، مگر تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی نبیلہ حاکم علی خان نے تو حد ہی کردی اور تحریک کا ’’یوٹرن‘‘ لینے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ انہوں نے ایوان میں پہلے سے نہ جانے کس جذبے کے تحت ایک قرارداد جمع کرا رکھی تھی کہ پنجاب میں طالبات کے لیے حجاب پہننا لازمی قرار دیا جائے، مگر صوبائی وزیر رضا علی گیلانی کی اپنوں اور پرایوں کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھ کر محترمہ نے نہ صرف اپنی یہ قرارداد واپس لے لی بلکہ ایک نئی قرارداد بھی جمع کرانا ضروری سمجھی، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبات کو حجاب پہننے کا پابند نہ کیا جائے ؂
پنجاب کے وزیر رضا علی گیلانی کی حجاب سے متعلق تجویز اور اس پر شدید نوعیت کا ردعمل جس روز اخبارات کی زینت بنا ہے اُس روز کے اخبارات میں برسلز سے یورپی عدالتِ انصاف کا ایک فیصلہ بھی شائع ہوا ہے جس میں یورپی کمپنیوں کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ دفتر میں اپنی خواتین کارکنوں کو حجاب پہننے سے روک سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی طالبہ کے اپنے تعلیمی ادارے میں حجاب کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا غلط ہے تو کسی مسلمان خاتون کو اس کے کام کی جگہ پر مردوں کی بے باک نظروں سے بچنے کے لیے حجاب کے استعمال سے روکنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟ مگر مجال ہے انسانی اور نسوانی حقوق کے کسی بھی علَم بردار کے کان پر جوں تک رینگی ہو، اور کسی نے اس فیصلے کے امتیازی ہونے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ضروری سمجھا ہو۔

حصہ