’’ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا‘‘
’’فقیرِ شہر‘‘ میں کوئی نہ کوئی توایسی ادائے خاص ہوگی جس کے سبب وہ نکتہ چینی کا شکار ہوئے۔
26 فروری کے سنڈے میگزین کے آخری رنگین صفحہ پر ’’فقیرِ شہر کی صدا‘‘ کے عنوان سے جو رنگینی بکھیری گئی ہے وہ مسالہ دار بریانی کی طرح مزیدار ہے۔ اس مضمون کے خالق محترم خیال آفاقی صاحب ہیں جو پائے کے ادیب اور شاعر ہیں مگر انکساری ملاحظہ فرمایئے کہ اپنے آپ کو ’’فقیرِ شہر‘‘ کہہ کر علامہ کے اس مصرع کی یاد دلا دی:
’’مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں‘‘
اس مضمون میں ’’خالص‘‘ ادبی پیرائے میں اپنے دل میں درد کے سوا ہونے کے بعد جس تلخ نوائی کا اظہار کیا ہے وہ بجا ہے‘ یہ ادبی نوک جھونک قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث بھی ہے اور معلومات میں اضافے کا ذریعہ بھی مثلاً علاء الدین اور بہاء الدین وغیرہ میں واؤ نہیں آتا‘ لفظ ’’چاہیے‘‘ پر ہمزہ کا کیا جواز ہے وغیرہ وغیرہ۔
خیال آفاقی صاحب نے اطہر ہاشمی صاحب کے تنقیدی مضمون کو تنقیصی قرار دے کر اس بات کا اعتراف تو کر ہی لیا کہ ان کی تصنیف میں نقص ہے مگر کھلے دل سے اس کا اعتراف کرنے سے گریز کیا ہے۔ شاید مرزا غالبؔ کے اس شعر کے اثرات اس کا سبب ہوں۔۔۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
حروف سے لفظ اور لفظوں سے جملے تخلیق ہوتے ہیں‘ اب اگر ہمارا املا ہی درست نہیں ہوگا تو پھر بھلا تحریر کیسے درست کہلائے گی لہٰذا اس کا درست ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی عمارت کے لیے اس کی بنیادوں کا سیدھا ہونا۔
تنقید برائے تنقید ایک خطرناک عمل ہے‘ ہاں اگر تنقید برائے اصلاح ہو تو وہ سود مند ہے لیکن اصلاح کے لیے عمر کا بڑا عمل دخل ہے‘ اگر عمر ساٹھ سال سے کم ہے (یعنی ابھی وہ سٹھیا نہیں گیا ہے) تو اصلاح کی امید کی جاسکتی ہے اور اگر ساٹھ سال سے زائد ہے تو پھر بقول مومن خاں مومن’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے۔‘‘
اطہر ہاشمی صاحب کے مضمون میں بات بہت سلیقے اور دلیل کے ساتھ کہی گئی ہے۔ خیال آفاقی صاحب کا یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ ’’لسانیت کی مہارت دکھانے میں اس قدر آگے بڑھے کہ میرے والد بزرگوار تک پہنچنے کی جسارت کر ڈالی۔‘‘
میرے محترم خیال آفاقی صاحب! خدانخواستہ اطہر ہاشمی صاحب نے آپ کے والد بزرگوار کی شان میں کوئی گستاخی تو نہیں کی‘ وہ تو آپ اور آپ کے رفیق سے مخاطب ہیں کہ کیا آپ کے والد صاحب بھی اپنا نام غلط لکھتے رہے یا آپ کی خیال آرائی ہے‘ تو اس کا صحیح سے ہاں یا نا میں جواب دیا جاسکتا تھا‘ جملے کا غلط مفہوم لے کر اس قدر چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ اپنے اور اپنے والد محترم کے ناموں سے واؤ نکال کر اس کے ہجّے صحیح کرلیں اس میں نہ تو آپ کی شان میں کوئی کمی آئے گی نہ عزت میں‘ ہاں ایک زحمت تو ضرور ہوگی شناختی کارڈ کے دفتر کے کئی چکر لگانے پڑیں گے‘ دوسرا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے۔
خیال آفاقی صاحب نے اپنی تحریر کو ایک ایسا احتجاج قرار دیا ہے جسے بقول ان کے شکوہ بھی کہا جاسکتا ہے تو میرے محترم! عرض کرنا چاہوں گا کہ احتجاج اور شکوے میں بڑا فرق ہے‘ شکوہ ہمیشہ اپنوں سے کیا جاتا ہے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے اور احتجاج ظالم کے خلاف کیا جاتا ہے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے۔
اپنی تحریر کے آخر میں محترم خیال آفاقی صاحب نے علامہ اقبالؔ کا ایک شعر تحریر کیا ہے اور شعر سے پہلے فرماتے ہیں ’’اور آخر میں ایک دعا‘‘ شعر ہے:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
یہ دعا ہے یا بددعا؟ میری سمجھ سے باہر ہے۔ اس شعر کے مفہوم سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے کہ گویا اطہر ہاشمی صاحب کے بحر کی موجیں ساکت ہیں اور خیال آفاقی صاحب کی تمنا ہے کہ ان میں اضطراب پیدا ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اطہر ہاشمی صاحب کے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں تھا تو 1363 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم تصنیف پڑھ کر اتنی جامع تنقید (بقول خیال آفاقی تنقیص) کیسے کی جاسکتی تھی پھر تو یہ ہوتا کہ کتاب کھولے بغیر صرف سرورق دیکھ کر کتاب اور صاحبِ کتاب کی تعریف کے پُل باندھ دیے جاتے۔
اطہر ہاشمی اور خیال آفاقی کی اس خوب صورت ادبی نوک جھونک سے کسی اور کو شاید اتنا فائدہ نہ ہوسکے گا جتنا فائدہ ’’بیت السلام‘‘ جو اس کتاب کے پبلشر ہیں‘ انہیں ہوگا مفت میں کتاب کی تشہیر ہو رہی ہے اور کتاب خوب فروخت ہوگی۔ بیت السلام والوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ابھی سے دوسرے ایڈیشن کی تیاری شروع کردیں فائدے میں رہیں گے۔