بچپن کی یادیں اور باتیں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں۔ ساری زندگی پیچھا کرتی ہیں۔ جوانی ہو یا بڑھاپا۔۔۔ تنہائی میں بچپن کے وہ معصوم واقعات، معصوم شرارتیں یاد کرکے خودبخود لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ بیٹی جو کہ خود بھی درس و تدریس سے وابستہ ہے اور دو چھوٹی چھوٹی پیاری سی بچیوں کی ماں ہے وہ اپنے بچپن کی باتیں یاد کرکے خوب لطف اندوز ہوتی ہے، بلکہ اب تو اپنی پانچ سالہ بیٹی سے بھی شیئر کرتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے میں اپنے بچپن کو اس سے شیئر کرتی تھی، اور اب بھی اکثر ہم محفلوں میں بچپن کے جھروکوں کو کھولتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں۔ مثلاً ہم دونوں بہنیں جب چھوٹی تھیں لوگ ہمیں جڑواں بہنیں ہی سمجھتے تھے۔ رمضان آتا تو بڑی بہن جو ہم سے 8۔9 سال بڑی تھیں، ہمیں سحری کرکے اسکول کے لیے تیار کرکے کرسیوں پر مجسموں کی طرح بٹھا دیتی تھیں کہ یہاں سے ہلنا نہیں ورنہ کپڑے خراب ہوجائیں گے، بال خراب ہوجائیں گے، پھر استانی تمہیں ڈانٹیں گی، اور خود جاکر سوجاتیں۔ ہم دونوں دو گھنٹے اسی حالت میں بیٹھے رہتے اور 8 بجے اسکول کے لیے نکلتے تھے۔ جبکہ وہ آٹھ بجے اٹھ کر آرام سے تیار ہوکر اپنے اسکول جاتیں۔ یہ بات سن کر ہم سے زیادہ ہمارے بچے انجوائے کرتے ہیں کہ آپ دونوں اتنی معصوم تھیں! آج کے بچے تو دو منٹ ٹک کر نہیں بیٹھتے اور آپ دونوں مظلومیت کی انتہا کہ دو گھنٹے۔۔۔ خیر، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچپن ہر بندے کے لیے حسین یادوں کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ بچوں کو ان کے بچپن میں رہنے دیں، ان کے بچپن کو ان سے نہ چھینیں۔
کہا جاتا ہے کہ بچپن انسان کا سب سے حسین دور ہوتا ہے۔ کچھ سیکھنے کے لیے یہ آئیڈیل دور ہے۔ زندگی میں بننے سنورنے اور ترقی کرنے کے لیے یہ دور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بچے کھیل کھیل میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے درمیان رہ کر بھی بہت کچھ سیکھتے اور اپناتے ہیں۔ یعنی پڑھائی کے ساتھ اُن کی ان سرگرمیوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ دلچسپ مشاغل، دوست و احباب، ان کی صحبت ان کے اس دور کا سرمایہ ہے۔ اگر ان سے یہ سب دور کردیے جائیں تو ان کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی خلا ضرور نظر آئے گا۔
چونکہ میرا اپنا مضمون ’’نفسیات‘‘ ہے اور درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی نفسیات جانچنے کا کافی وقت ملا، بہت سے واقعات دیکھے جن میں سے چند کو آپ کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتی ہوں، ہوسکتا ہے کہ کسی کو کچھ فائدہ پہنچے۔
ناصر اوسط ذہن کا طالب علم تھا۔ والدین اس کی پڑھائی میں حد سے زیادہ دلچسپی لیتے تھے، یہ اچھی بات ہے، لیکن ہر معاملے میں اعتدال لازمی امر ہے۔ جب وہ نویں کلاس میں پہنچا تو جس طرح تمام والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے معاشرے کا معزز شہری بنے، اسی طرح اس کے والدین نے اس کی بھی تمام سرگرمیوں کو روک کر اسے صرف پڑھائی کی جانب لے جانے کی بھرپور کوشش کی۔ صبح ساڑھے چھ بجے اس کی اسکول وین آتی، واپسی میں وین والا اسے دو بجے گھر چھوڑتا۔ دوپہر کے کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر تین بجے اسکول کا ہوم ورک کرتا۔ چار بجے ایک استاد (ٹوئیٹر) اسے کیمسٹری پڑھانے آتا۔ پانچ بجے استاد کے جانے کے بعد اس کے والد اس کو کوچنگ سینٹر چھوڑنے جاتے۔ سات بجے واپس آکر وہ نڈھال ہوکر پڑ جاتا۔ ماں زبردستی دو تین نوالے کھانا کھلانے میں کامیاب ہوپاتی۔ نو بجے وہ بستر میں ہوتا۔ اگر اگلے دن کلاس میں کوئی ٹیسٹ ہوتا تو وہ مزید ایک گھنٹہ اونگھتے اونگھتے سبق یاد کرتا۔ ماں باپ فخر سے سب کو اس کی کارکردگی بتاتے۔ ہر انسان میں ایک حد تک قوتِ مدافعت ہوتی ہے، اس سے زیادہ اگر اس پر بوجھ ڈالا جائے تو وہ بیمار ہوجاتا ہے۔ یہی حال ناصر کا ہوا۔ ٹینشن اور پریشانی نے اس بچے کو بیمار کرڈالا۔ پورا ایک ہفتہ بستر پر رہا۔ ہسپتال سے ڈسچارج ہوا لیکن ڈاکٹروں نے سختی سے تاکید کی کہ اسے کچھ مہینے تک بالکل آرام کی ضرورت ہے ورنہ ذہنی طور پر اس کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس طرح اس بچے کا ایک قیمتی سال ضائع ہوگیا۔ اس بات کو میٹنگ میں والدین کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا کہ بچے کو پڑھائی کے ساتھ آرام اور کچھ کھیل کود کے لیے بھی وقت مہیا کیا جائے۔ بے شک والدین کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ پڑھائی میں دلچسپی لے اور محنت کرے، لیکن بچہ تو بچہ ہی ہے، اس عمر میں اُس کی کھیل میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، اس کی ان دلچسپیوں اور ان سرگرمیوں سے اسے جدا نہ کریں۔ یعنی اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اپنے وسائل کے مطابق کبھی کبھار بچوں کے لیے سیرو تفریح کے پروگرام بھی مرتب کریں۔ والدین خود بھی بچوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لیں، سبق آموز دلچسپ کہانیوں کے ذریعے ان کی مثبت انداز میں تربیت کریں۔ میرے حسین بچپن کی ایک یہ بھی یاد ہے کہ میرے والد ہم بہن بھائیوں کو (قصص الانبیاء میں سے) نبیوں اور پیغمبروں کے واقعات سناتے تھے، لہٰذا میری بھی یہ کوشش رہی کہ جب بچے چھوٹے تھے انہیں ایسی کہانیاں اور قصے سناؤں۔ یعنی والدین کے لیے یہ بھی ضروری امر ہے کہ اپنا کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں۔ یہ بھی میرا تجزیہ ہے کہ جو والدین اپنی بے جا مصروفیات کی بنا پر اپنا وقت اولاد کو دینے سے قاصر ہوتے ہیں ان کی اولاد میں کہیں نہ کہیں خلا رہ جاتا ہے۔ بڑے ہوکر بھی ان کے ذہنوں میں بچپن کی اداسی اور تنہائی پیچھا کرتی ہے۔ حسین یادوں کے لیے اردگرد حسین ماحول کا ہونا بھی ضروری ہے۔ رشتوں میں محبت، خلوص اور نرمی کا ہونا ضروری ہے، ورنہ بڑے ہوکر بچپن کی یہ تلخ یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بڑوں کے درمیان کتنے بھی اختلافات ہوں، بچوں کے سامنے ان کا اظہار بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ خصوصاً والدین کے آپس کے لڑائی جھگڑے ان کے بچپن کو روند ڈالتے ہیں اور دیرپا اثر کا موجب بنتے ہیں، کیونکہ بڑے ہوکر بھی تلخ یادوں پر گزرا ہوا بچپن سوائے اذیت کے کچھ نہیں دے گا۔ اسی طرح بچوں پر بے جا سختی، حد سے زیادہ روک ٹوک انہیں مفلوج کردیتی ہے۔ بے شک کچھ حدود کا ہونا لازمی ہے جن کے بغیر ان کی زندگیوں کو منظم نہیں کیا جا سکتا، ماں باپ کا فرض ہے کہ ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں، لیکن قید میں رکھنا ظلم ہے۔ بچے کھلی فضا میں کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں تو خود کو تازہ دم محسوس کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر کی گئی اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں پر بڑے ہوکر بھی انجوائے کرتے ہیں، مثلاً میری بیٹی کہتی ہے کہ میرے سب سے حسین یادگار دن وہ ہیں جب نانو کے گھر ہم سب کزن جمع ہوتے اور اپارٹمنٹ کے گراؤنڈ میں کھیلتے کودتے اور لوگوں کے گھروں کی گھنٹیاں بجا کر چھپ جاتے تھے، اور مزے کی بات یہ کہ جو ذرا بھاگنے میں سست ہوجاتا وہ پکڑا جاتا، اسے خوب ڈانٹ پڑتی، باقی چھپ کر اس کی مرمت ہوتے دیکھتے اور ہنستے تھے۔ بعد میں وہ کزن ناراض ہوتا تو ہم سب مل کر اس کو منانے کی کوشش کرتے۔
میں اپنے ماضی میں جھانکتی ہوں تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد کرکے خودبخود مسکراتی ہوں اور وہ ساتھی یاد آتے ہیں جن کا اسکول اور محلے میں ساتھ رہا، جن کے ساتھ آنکھ مچولی، کھوکھو جمالو یا گڈے گڑیا کی شادی کرنے کے کھیل کھیلے۔ غرض کہ امیر ہو یا غریب، ہر ایک کے لیے اس کے بچپن کی اہمیت ہے۔ ان سے ان کا بچپن چھن جائے تو وہ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں نے نئی ماسی کام کے لیے رکھی۔ تیسرے دن آئی تو اس کے ساتھ آٹھ نو سال کی بڑی پیاری لڑکی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آج تمہاری بیٹی اسکول نہیں گئی، جو اسے یہاں لائی ہو؟ کہنے لگی: ’’یہ تو میرے ساتھ مل کر کام کرواتی ہے، دو دن بیمار رہی اسی لیے نہیں لائی تھی۔‘‘ مجھے حیرانی ہوئی ’’تو یہ صبح آٹھ بجے سے شام چھ سات بجے تک تمہارے ساتھ کام کرے گی؟‘‘ بڑے فخر سے کہنے لگی ’’ہاں ناں باجی، بڑی والی کا کام چھڑوا دیا ہے، بڑا دکھ ہوتا ہے، بس ابھی بیٹا ذرا بڑا ہوجائے تو اسے پھر سے کام پر لگوا دوں گی۔ ایک باجی کے گھر اسے دن رات کے لیے لگایا تھا، پورے 6 ہزار مل جاتے تھے، جب سے بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ اسے گھر میں سنبھالتی ہے (بڑے دکھ سے اس نے یہ بات بتائی)۔‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری اُس بیٹی کی عمر کتنی ہے جو اسے پورے دن کے لیے کام پر لگوایا ہے۔ اور تمہارا میاں تو اچھا خاصا کما لیتا ہے پھر تم نے بچیوں کو کیوں کام پر لگوایا ہے؟ یہ دن تو ان کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے ہیں۔ اسکول نہ سہی، مدرسے میں قرآن پڑھنے کے لیے بھیجو۔ اب تو تہمارے لوگ بچوں کو پڑھانے لگے ہیں۔‘‘
کہنے لگی ’’باجی پنجاب میں اپنے گاؤں میں زمین کا ٹکڑا لیا ہے، اب اس پر مکان بنوانا ہے، ظاہر ہے سب مل کر کام کریں گے تو ہی مکان بن سکے گا۔ اس بچی سے دو سال بڑی ہے وہ، اب تو پیسے بھی زیادہ (تنخواہ) ملیں گے اُسے۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا: ’’بچیوں کو کھیلنے کودنے یا دوستوں میں وقت گزارنے کا موقع مل جاتا ہے؟‘‘
’’نہیں جی، جب سال دو سال بعد گاؤں جانا ہوتا ہے تو یہ فارغ ہوتی ہیں، گھوم پھر بھی لیتی ہیں۔‘‘
مجھے ماسی کی باتوں پر بڑا تعجب ہوا جس نے ان بچیوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں مشین بنا دیا ہے۔ میرے اور دوسری باجیوں کے سمجھانے پر اب اس نے بچی کو مدرسے میں قرآن پڑھنے کے لیے بھیجنا شروع کردیا ہے جہاں وہ نہ صرف قرآن پڑھنے لگی ہے بلکہ اپنی ہم عمر بچیوں کے ساتھ بھی کچھ وقت گزارنے لگی ہے۔ اب میں نے اس میں ایک تبدیلی دیکھی ہے کہ ہر وقت اس کی آنکھوں میں جو ناراضی اور تھکن رہتی تھی وہ کم ہوگئی ہے، یوں لگ رہا ہے جیسے اس کا کھویا ہوا بچپن اسے مل رہا ہے۔ یہ صرف اس ماسی کی بچیوں کی داستان نہیں بلکہ ہمارے آس پاس ایسے بہت سے غریب مزدور وغیرہ نظر آتے ہیں جن کے بچوں کا یہی حال ہے۔ ان بچوں کی آنکھوں میں ہمیں بہت سی داستانیں نظر آتی ہیں۔
بچے بچوں کے ساتھ رہ کر ہی اپنا بچپن گزارنا چاہتے ہیں۔ انہیں ان بچوں کے ساتھ میل جول رکھنے دیں۔ کچھ خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے سے منع کرتی ہیں۔ یہ غلط روش ہے، آپ کو چاہیے تمام دن اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، وقت گزاریں لیکن ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ بھی وقت گزاریں۔ میری نواسی اور پوتی تقریباً ہم عمر ہیں، جب نواسی کو چھٹی کے دن آنا ہوتا ہے، اس کے چہرے پر ایک دن پہلے ہی سے خوشی کے آثار نظر آتے ہیں۔ یہی حال پوتی کا بھی ہوتا ہے۔ وہ بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتی ہے۔ پھر دونوں مل کر اس دن کو انجوائے کرتی ہیں۔ اکثر دونوں مل کر گھومنے پھرنے کے پروگرام بناتی ہیں اور پھر ہمیں مطلع کرتی ہیں۔ مثلاً پچھلے دنوں دونوں نے مل کر ’’دو دریا‘‘ جانے کا پروگرام چپکے چپکے آپس میں مل کر بنایا، پھر میرے پاس آئیں کہ ہمیں دو دریا لے کر چلیں۔ میں ہوٹل کے کھانے کو زیادہ پسند نہیں کرتی لیکن ان دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کی وجہ سے مجھے ان کا ساتھ دینا پڑا، اور ان سے اگلے دن کا وعدہ کیا۔ نہ صرف وعدہ کیا بلکہ ہم سب ان کو لے کر گئے۔ دونوں بچیاں بہت خوش ہوئیں اور سب سے کہنے لگیں: ’’دادو‘‘ نے ہم دونوں کی وجہ سے یہ پروگرام بنایا ہے۔ غرض کہ اکثر ایسے پروگرام ان بچیوں کی وجہ سے بنانے پڑتے ہیں۔
ان کی یہ چھوٹی چھوٹی خواہشیں اور خوشیاں آنے والے دور میں حسین یادیں ہوں گی جنہیں تنہائی میں بیٹھ کر یا کبھی دوستوں میں بیٹھ کر، یا پھر اپنے بچوں میں بیٹھ کر دہرائیں گی۔ پھر ان کی بھی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو ایک حسین بچپن مہیا کریں۔ تمام جائز ناجائز خواہشات اور ضد کو پورا کرنا بعض والدین کے نزدیک لازمی ہوتا ہے۔ یہ غلط روش ہے۔ بعض اوقات جائز خواہش کو بھی رد کرنے سے بچوں کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں نے بہت سے پڑھے لکھے والدین کو بھی بچوں کی ہر ضد کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے دیکھا ہے، جس سے بچوں کو ضد اور من مانی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بعض اوقات اسکول لنچ کے علاوہ بچوں کو اسکول کینٹین سے بھی خرید کر کھانے کے لیے کچھ رقم دیں، اس طرح ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ کینٹین کی لائن (قطار) میں کھڑے ہوکر کچھ خریدنے پر ان کا دل بھی خوش ہوتا ہے اور یہ ان کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ اس طرح کرنے سے وہ اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ ایک خاتون نے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ معلوم نہیں کیوں میرے بیٹے کو چوری کی عادت ہوگئی ہے، وہ اکثر میرے پرس میں سے دس بیس روپے نکال لیتا ہے (حالانکہ رقم زیادہ نہیں)۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ اسے اسکول کے لیے یا جیب خرچ کے لیے کچھ دیتی ہیں؟ (بچے کی عمر 13/12 سال تھی) کہنے لگیں: نہیں، لیکن لنچ بڑی اچھی طرح دیتی ہوں۔ میں نے کہا: پریشان نہ ہوں، کبھی کبھار لنچ کے بجائے اسے کچھ پیسے دیں، وہ یقیناًاپنے دوستوں کی طرح اسکول کینٹین سے کچھ خرید کر کھانا چاہتا ہے، اور پھر احتیاطاً نظر بھی رکھیں کہ وہ واقعی کینٹین سے کچھ خریدنے کے لیے پیسے (رقم) پرس سے نکال رہا ہے یا کسی اور کام کے لیے۔ بچے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی بھی کام کو کرنا خوشگوار اور دلچسپ سرگرمی تصور کرتے ہیں، اور اس چھوٹے سے عمل سے بھی انہیں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بعض اوقات بچوں کی خوشی اور دلچسپی کے لیے اپنے اصولوں میں نرمی پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بچے دوسرے متبادل راستے جو غلط بھی ہوسکتے ہیں، استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
لیکن اعتدال کا راستہ اختیار کرنا لازمی ہے۔ بچوں کی ہر ضد کو تسلیم کرنا ہے اس پر ایک مضمون الگ سے تحریر کیا جا سکتا ہے جو کسی آنے والے وقت کے لیے ایک بہترین عنوان ہوگا۔ پھر ایک اور بات جو کم از کم میرے اور میرے بچوں کے لیے اہم ثابت ہوئی، بچوں کو بعض اوقات گھر میں ہونے والی سرگرمیوں میں شامل کریں اور مسائل (گمبھیر نہ ہوں) سے آگاہ کریں۔ مثلاً میں گھر کا بجٹ بناتے وقت اکثر بچوں کو بھی شامل کرلیتی تھی جس میں سب سے زیادہ ترجیح ان کی تعلیم کو ہی دی جاتی تھی۔ اس طرح نہ صرف تعلیم کی اہمیت کا احساس ان میں اجاگر ہوا بلکہ یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ ہماری تعلیم ہمارے والدین کے لیے بھی ضروری امر ہے۔ لہٰذا بچوں میں تعلیم میں خاص دلچسپی پیدا ہوئی۔ صرف اس ایک ’’بجٹ‘‘ کے توسط سے ہی ان میں بہت سی باتوں کا شعور پیدا ہوا اور آگہی حاصل ہوئی، اور سب سے اہم بات یہ کہ بچپن سے ہی وہ اپنی اہمیت سے بھی واقف ہوگئے کہ ہم ’’اس گھر‘‘ کا ایک حصہ ہیں، ہمارا ہر عمل اس گھر کے لیے اہم ثابت ہوگا۔ لہٰذا وہ ہمیشہ مثبت عمل کی طرف راغب ہوئے۔ یعنی ان کے بچپن کی دلچسپ ننھی منی سرگرمیاں اور ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہوتی گئی، اور یقیناًیہ ساری چیزیں بڑے ہوکر بھی ان کے ذہنوں میں ایک یادگار بچپن کی جگہ دے گئیں۔ لہٰذا والدین کے لیے یہ لازمی امر ہے کہ بچوں کو ایک بہترین سازگار بچپن مہیا کریں جہاں بچپن کے کھیل کود بھی ہوں، ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کے مواقع بھی مثبت انداز میں ہوں۔
nn