ایک چھوٹی سی چیونٹی کو دیکھ لیں، یا اس پوری کائنات پر پھیلے آسمان، پہاڑوں، زمین کو دیکھ لیں، ہوا میں موجود نظر نہ آنے والے ان چھوٹے چھوٹے آرٹیکلز کو، چرند ، پرند چوپائے یا پانی ہویا اشرف المخلوقات یعنی انسان ۔ اللہ تعالی کی بنائی گئی ہر چیز اپنی مثال آپ ہے۔ سورۃ غاشیہ کی ان چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار بڑی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے اہم ترین بات یہ ہے کہ آسمان، پہاڑوں اور زمین جیسی نشانیوں کو بعد میں بیان فرمایا گیا ہے جبکہ اونٹ کو ان نشانیوں پر مقدم رکھا گیا ہے۔
سورۃ غاشیہ ،آیات کا ترجمہ: کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کو کیسے بلند کیا؟ اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟ اور زمین کو کیسے بچھایا گیا؟
سورۃ غاشیہ کی ان آیات کے ترجمے میں اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین کو اپنی نشانی کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے۔ اونٹ کا ذکر سب سے پہلے رکھ کر اللہ تعالیٰ اس بات پر توجہ دلارہا ہے کہ اونٹ کا ذکر اہم ہے۔ جو میرے لیے سوچ اور کھوج کا باعث بنا کہ آخر کیا اللہ کی اس ’’عام سی مخلوق‘‘ میں کیا’’ خاص ‘‘ہے ۔اصلاًیہ تحریر ڈاکٹر سیدصلاح الدین قادری صاحب کی کتاب’’اونٹ‘‘، اسی موضوع پر جناب محمد و لی رازی صاحب کے مضمون اور چند متعلقہ ویب سائٹس کا حاصل مطالعہ ہے،جودرج ذیل نکات کی صورت میں پیش خدمت ہے:
عام مویشیوں کے مقابلے میں اونٹ کی چند امتیازی خصوصیات ؔ *عربی میں اونٹ کی مختلف حالتوں اور عمروں کے لیے ایک ہزار الفاظ مستعمل ہیں ۔انہیں میں سے ایک ’’جمل‘‘بھی ہے ،جس کے معنی خوبصورتی کے ہیں۔
*ہیت کے اعتبار سے اونٹ دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک کوہان والے اور دو کوہان والے۔ایک کوہان والے کا کوئی امتیازی نام نہیں ہے جبکہ دو کوہان والا ’’ باختری اونٹ ‘‘کہلاتا ہے۔
*کہنے کو تو ’’کوہان‘‘ گائے اور بھینس ‘‘ کابھی ہوتا ہے ،جو چھوٹا اور پشت پرگردن سے قریب ہوتا ہے ، جبکہ اونٹ کا کوہان پیٹھ کے وسط میں اورکافی نمایاں ہوتا ہے۔
صرف اونٹ ہی وہ چوپایا ہے جو اپنے کوہان میں چکنائی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ یہ چکنائی ضرورت پڑنے پر غذا میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔جبکہ اونٹ کے طویل عرصے تک بغیر پانی کے زندہ رہنے کی ایک خاص وجہ اس کے oval red blood cells بھی ہیں جو کسی اور چوپائے میں نہیں پائے جاتے۔
*اونٹ کی سننے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔
*اونٹ بھاری وزن اٹھا کر بھی روزانہ 40 کلو میٹر تک سفر کر سکتا ہے۔
* اونٹ کی تیز ترین رفتار16 میل فی گھنٹہ کے حساب سے25 کلو میٹر تک ہو سکتی ہے۔
* اونٹ ہرطرح کے موسم میں خودکو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
* اونٹ عام طور پر400 سے 800کلو گرام تک وزن اٹھا سکتا ہے۔
* اونٹ اپنے جسمانی وزن کے لحاظ دیگر چوپایوں کے مقابلے میں بوجھ اٹھانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔
* اونٹ وہ واحد جانور ہے جس پر بیٹھنے کی حالت میں بھی بوجھ لادا جا سکتا ہے۔ گھوڑا، گائے وغیرہ کسی کے بھی لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔
*اونٹ کے بڑے ، موٹے اور مضبوط پاؤں کے تلوے اور کھر ایسے بنائے گئے ہیں جو اسے صحر ا کی گرم ریت اور پتھریلی زمین دونوں پر آسانی سے چلنے میں مدد دیتے ہیں۔
*گائے بھینس وغیرہ صرف پچھلی جانب ٹانگیں زیادہ طاقت سے چلا سکتی ہیں آگے کی طرف نہیں جبکہ اونٹ کی یہ منفرد خصوصیت ہے کہ وہ اپنی ٹانگوں کو آگے اور پیچھے یکساں طاقت کے ساتھ چلا سکتا ہے۔ اونٹ کی ٹانگیں جسم کے عین نیچے کی جانب مڑ بھی سکتی ہیں۔
*جسے ہم اونٹ کا گھٹنا سمجھتے ہیں وہ اونٹ کا ٹخنہ ہے۔ اونٹ کے ٹخنے کا فاصلہ پیروں سے کچھ زیادہ ہوتا ہے جبکہ اس کا گھٹنا پیٹ کے قریب ہوتا ہے۔
* اونٹ سرد موسم میں بغیر پانی پیے لگ بھگ چھ سے آٹھ مہینے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ جبکہ گرم سے گرم موسم میں بھی طویل عرصے تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتا ہے۔
* اونٹ کے ہونٹ بڑے اور لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ اونٹ کا اوپر والا ہونٹ دوسرے جانوروں کے برخلاف بیچ سے کٹا ہوا ہوتا ہے یعنی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے جسے اونٹ اوپر نیچے حرکت دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ہونٹوں پر ایک گدی نما موٹی کھال ہوتی ہے جن پر چھوٹے بال بھی ہوتے ہیں جو کانٹوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔اسی لیے اونٹ سخت سے سخت چیز کھانے میں بھی اپنا منہ زخمی نہیں کرتا۔
* اونٹ کی گردن لمبی ہوتی ہے جو ریگستانی طوفان میں بھی اس کی حفاظت کرتی ہے۔ جب وہ مٹی میں دھنس جاتا ہے تو اس کی گردن باہر رہتی ہے۔ اونٹ ریت کے طوفان کامقابلہ کرنے میں اپنی مثال آپ ہے۔
*اونٹ کے کھانے کا انداز بھی نرالا ہے دوسرے جانور پتوں کے ساتھ ٹہنی بھی کھا جاتے ہیں،پر اونٹ عام طور پر درختوں کے پتوں کا کچھ حصہ کھا کر آگے چل دیتا ہے۔ پھر دوسرے درخت کے پتے کھاتا ہے۔ اس کے اس طرح کے کھانے سے پودے ختم نہیں ہوتے اور اونٹ بھی مضر اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔
* اونٹ اپنے جسمانی وزن کے تہائی حصے کے برابر پانی پی سکتا ہے۔ اونٹ کے پانی پینے کی رفتار ستائیس لیٹر فی منٹ ہوتی ہے۔ اونٹ ایک وقت میں ایک سو چھ لیٹر جبکہ ایک دن میں ایک سو ستر لیٹر پانی پینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرا کوئی بھی چوپایا نہ اتنی رفتار میں پانی پی سکتا ہے، نہ اتنا پانی پی سکتا ہے۔
*اونٹ کے نتھنوں میں بند رکھنے اور کھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اس کی ناک کی نالی لمبی ہوتی ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ گرم ہوا کو نتھنے بند کرکے مقید کیا جا سکتا ہے اور آ بی بخارات کی مدد سے گرم ہوا کا درجہ حرارت کم کرکے اس کو نم کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اونٹ کو تیزی سے زیادہ پانی پینے کے دوران سانس لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
*اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے اونٹ کے دماغ والا حصہ کبھی بھی مکمل طور پر سورج کی شعاعوں کی زد میں نہیں رہتا۔
* اونٹ کے کانوں کے اندرونی حصے میں بالوں کے گچھے ریت اندر جانے نہیں دیتے۔
* اونٹ کی کھوپڑی کے آگے کی ہڈی آنکھوں کے آگے چھجے کا کام کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے آنکھیں ہمیشہ سائے میں رہتی ہیں۔ اس کی لمبی پلکوں کی وجہ سے صحرا میں بھی اونٹ کی آنکھوں میں ریت جانے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔
*اونٹ کی آنکھ کے اندر ایک باریک اور شفاف جھلی ہوتی ہے جو ریت کے طوفان میں آنکھ کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اونٹ اس جھلی کے اندر سے دیکھ بھی سکتا ہے۔ خشک موسم میں اللہ تعالی ایک غدود کے ذریعے اونٹ کی آنکھوں میں نمی مہیا کردیتا ہے۔
*اونٹ کے دانت مسلسل بڑھتے رہتے ہیں اسی لیے اونٹ انھیں مسلسل رگڑتا رہتا ہے۔
*پیدائش کے وقت اونٹ کے بچے کی کوہان نہیں ہوتی، جو بڑے ہوتے ہی آ جاتی ہے یعنی جب وہ ٹھوس غذا کھانا شروع کردیتا ہے۔
*اونٹ کے ہاضمے کی مثال عام طور پر نہیں ملتی۔ یہ خشک سالی میں سوکھے پودے، درختوں کی ٹہنیاں، چمڑا یہاں تک کے ہرن کی ہڈیاں وغیرہ تک کھا کر ہضم کرلیتا ہے۔ اس کے ایسے ہاضمے کی وجہ اس کے جگالی کرنے کا منفرد انداز ہے کیونکہ یہ نوالے کو پچا س ساٹھ مرتبہ چباتا ہے اور نوالے کو دائیں بائیں گھماتا ہے جس سے اس کا لعاب دہن بھی مسلسل غذا میں شامل ہوجا تا ہے جو ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
*اونٹ کا سینا کافی تنگ ہوتا ہے سینے کے نیچے جو ابھار ہے اسے کنب کہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بیٹھنے کی حالت میں بھی اس کا جسم زمین سے کچھ اوپر رہتا ہے۔
*صحرا کی شدید گرمی میں جہاں ٹینکر اور ٹرک وغیرہ کے موٹے ٹائر بھی جواب دے جاتے ہیں وہاں اونٹ اپنے خاص بنائے گئے پاؤں کے تلوؤ ں کی وجہ سے صحرا میں بھی اپنا سفر جاری رکھتا ہے اسی لیے اسے صحرائی جہازکہتے ہیں۔ جو قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔
*اونٹ کے دودھ میں وٹامن کی مقدار گائے کے دودھ سے تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔
*قدیم زمانے کے باشندے اونٹ کے پیشاب کو بھی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔
*اونٹ اپنے آبائی علاقے میں پانی کے آثار بہت دور سے ہی محسوس کر لیتاہے۔ اونٹ کو جہاں سے ایک دفعہ پانی مل جائے وہ جگہ یہ پھر کبھی نہیں بھولتا۔
*اونٹ کو یہ ساری خصوصیات اللہ تعالی نے خاص کر انسان کی خدمت کے لیے عطا کی ہیں۔ اونٹ کو چوپایوں کا صوفی کہا جاتا ہے۔ جو روکھی سوکھی کھا کر بھی گزارا کر لیتا ہے۔
nn