گستاخ مواد اور لبرل روشن خیالی نے پاکستان کے نظریے اور اس کی بنیادی اساس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر کھلے گریبان کسی میڈیا ہاؤس کے مالک کو اس بات کی توفیق نہیں دیتے کہ وہ اسکرین پر آنے والی خواتین کو آداب سکھائے۔ مگر جہاں معاملہ فیس بک کے ذریعے گستاخیوں تک جاپہنچے اس معاشرے میں زندگی کی رمق تلاش کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن امید کی ایک کرن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دکھائی ہے۔ ان کی تربیت جہاں اور جس ماحول میں ہوئی اس سے اہلِ اسلام آباد اور اہلِ راولپنڈی بخوبی واقف ہیں۔ جسٹس صدیقی، وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کے قریبی عزیز ہیں اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرٹ پر ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے ہیں۔ انہوں نے جرأت اور دلیری کے ساتھ گستاخ بلاگرز کے کیس کی سماعت کی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخانہ مواد کی اشاعت کے حوالے سے مقدمے میں جواب دینے کے لیے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو عدالت میں طلب کرلیا۔ عدالتِ عالیہ نے سیکرٹری داخلہ کی عدم حاضری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ بیوروکریسی پر نہیں چھوڑیں گے۔ عدالت کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی حکم لکھواتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ عدالت نے پی ٹی اے کو ایسا مواد بلاک کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ روزِ محشر ہماری شفاعت کرنے والی ہستی کی کردارکشی کی جا رہی ہے، وزیرداخلہ خود عدالت میں پیش ہوکر بتائیں کہ حکومت نے اس معاملے پر اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے انتظامیہ کے افسروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ معاملے میں ملوث عناصر اور تماشا دیکھنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ عدالت نے تحریری فیصلے میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر گستاخانہ مواد نشر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں امن وامان کا سنگین مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بغیر پہلے بھی زندہ تھے لیکن کسی نے ہمارے عقائد پر ایسا حملہ کبھی نہیں کیا۔ اس سے بڑی اور کیا دہشت گردی ہوگی! عدالت نے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذمہ دار افسروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس گھناؤنی سازش کے خلاف سخت ایکشن لیں۔ بھینسے ہوں یا گینڈے، کتے ہوں یا سور سب کو بلاک ہونا چاہیے۔ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ میرا سب کچھ میرے ماں باپ، میری جان، مال اولاد، میری نوکری سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہے، مجھے ٹیکنیکلیٹز میں نہیں پڑنا، پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑا تو کردوں گا، اگر پی ٹی اے بند نہیں کرسکتی تو پھر عدالت پی ٹی اے کو ہی بندکردے گی۔
ایڈووکیٹ سلمان شاہد نے ایڈووکیٹ طارق اسد کے ذریعے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیصلے کے مطابق گستاخی میں ملوث افراد کے کوائف سات روز کے اندر عدالت کو فراہم کرنا تھے۔ سوشل میڈیا پر تمام گستاخانہ مواد ہٹانے کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ توہین اور گستاخی میں ملوث افراد کے کوائف عدالت کو فراہم نہیں کیے گئے اور نہ ہی عمل درآمد سے متعلق رپورٹ ابھی تک درخواست گزار کے وکیل کو فراہم کی گئی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی بدترین گستاخی کے خلاف عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس دن سے یہ پٹیشن میرے سامنے آئی خدا کی قسم میں نہیں سویا، ہم آئین و قانون پر عملدرآمد نہ کرکے خود ممتاز قادری پیدا کرتے ہیں، یہ مسئلہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم، ازواج مطہرات، اصحابِ رسول اور قرآن کریم کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے مجھے اپنے عہدے کی قربانی بھی دینا پڑی تو دے دوں گا، مگر اس کیس کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچاؤں گا، اس کیس کا مدعی پورا پاکستان ہے، اگر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لیے سوشل میڈیا کو بھی بند کرنا پڑا تو اللہ کی قسم حکم جاری کردوں گا، جن لوگوں نے گستاخی کی اور جو لوگ تماشا دیکھتے رہے ان سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی بدترین گستاخی کے خلاف پٹیشن کی سماعت ہوئی تو اس وقت پٹیشنر سلمان شاہد ایڈووکیٹ کی جانب سے طارق اسد ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ وفاقی سیکرٹری داخلہ، وفاقی سیکرٹری آئی ٹی، اور ڈی جی ایف آئی اے کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے برہمی کا اظہار کیا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور سب سے اہم کیس یہ ہے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے ڈاکٹر اسماعیل شاہ سے استفسار کیا کہ ’’کیا عدالت کے 27 فروری کے فیصلے پر عملدرآمد کیا گیا؟‘‘اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے عدالت کو بتایا کہ تمام گستاخانہ پیجز بلاک کردیئے گئے۔ درخواست گزار کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا میں اب بھی تمام گستاخانہ پیجز چل رہے ہیں۔ اس پر
(باقی صفحہ 41پر)
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس دن سے یہ پٹیشن میرے سامنے آئی ہے خدا کی قسم میں نہیں سویا، آئین و قانون پر عملدرآمد نہ کرکے ہم خود ممتاز قادری کو جنم دیتے ہیں، ایف آئی اے والو، پی ٹی اے والو، وزارتِ آئی ٹی والو، وزارتِ داخلہ والو، فوج والو بتاؤ، کس طرح شفاعت مانگو گے، اتنی گستاخی کے بعد ہم ابھی تک زندہ کیوں ہیں، یہ مسئلہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، اللہ کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کہ اگر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے مجھے اپنے عہدے کی بھی قربانی دینا پڑی تو دے دوں گا ‘ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو یہ گستاخی کیوں نظر نہیں آرہی،گستاخِ رسول مباح الدم ہے، جب کوئی گستاخ مارا جائے تو پھر کچھ لوگ موم بتی لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں، ہم خود قوم کو لاقانونیت کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں، اگر یہ مواد عوام تک چلا گیا تو وہ حشر کریں گے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے، اگر پی ٹی اے سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کو نہیں روک سکتا تو پی ٹی اے کو ہی ختم کردیا جائے‘‘۔ اس حکم کے جاری کرنے کے بعد عدالت نے وزیر داخلہ کو طلب کیا۔