ترکی کی تبدیلی، اصل قائد کون ہے؟
سچ کہوں تو اب تو یہ ایک سعادت ہی لگتی ہے کہ جناب فرید پراچہ کے ترکی کے سفر نامہ کی الحمرا میں تقریب رونمائی میں قاضی صاحب کی صدارت تھی۔ اس روز میں نے پہلی بار ان کو ایک کھونٹی کے ساتھ دیکھا۔ چہرے پہ بیماری اور بڑھاپا دونوں کے بڑھتے قدموں کے اثرات نظر آنے لگے تھے۔ ان کی موجودگی میں اسٹیج پہ ان کے ساتھ بیٹھنا اچھا ہی بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں ترکی کے حوالے سے اظہار خیال کرنے کے لیے کافی کچھ پڑھ کر گیا تھا۔ 1990 کی دہائی کا ترکی جب استنبول آدھا شہر درویشوں سے بھرا تھا کہ مولانا روم کا وہاں مزار تھا اور باقی آدھا شہر بازار حسن سے بھرا تھا۔ جون 96 میں نجم الدین اربکان وزیر اعظم بنے تو انہوں نے استنبول طیب اردگان کے سپرد کر دیا۔ وہ طیب جس نے زندگی میں کبھی شراب نہیں پی، جس کی اہلیہ ایمان اردگان ہی نہیں، دو بیٹیاں سمیہ اور سریٰ بھی اسکارف لیتی تھیں اور مردوں سے ہاتھ نہیں ملاتی تھیں۔ اسی طیب نے جو دینی مدرسے سے بھی پڑھا تھا، غربت میں جوان ہوا تھا۔ بچپن میں ٹافیاں تک بیچ کر گزارا کرتا رہا۔ 94 سے 98 تک استنبول کا اس عالم میں میئر کہ اس نے شہر کی گندگی اور مافیا دونوں کو شہر بدر کردیا۔ گلیاں پکی کرائیں، سیوریج ٹھیک کرایا۔ ہوٹل تعمیر کرائے، ٹریفک بہتر بنائی۔ پارکنگ کے نئے نظام متعارف کرائے، جرائم پیشہ کو جیل کی راہ دکھائی اور سیّاحوں کے لیے شہر کو پُرامن اور محفوظ بنادیا۔ یہ حیران کن کام یابی تھیں۔ اسی کام یابی کے بعد طیب نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی اور 2002 میں 341 ووٹ لے کر وزیر اعظم بن گیا۔ 2007 تک اس کی تمام اصلاحات کے نتائج آنے لگے اور 2011 میں دوبارہ ملکی پیداوار 9 فیصد بڑھ گئی۔ چین کے بعد ترکی دوسرے نمبر کی تیز رفتار معیشت ٹھہرایا جانے لگا۔ لوئر مڈل کلاس، ایک درجہ بَلند ہو کر مڈل کلاس میں آگئی۔ فی کس آمدن اس قدر بڑھی کہ لوگوں کو یقین کرنے میں مشکل ہونے لگی۔ خود وزیر اعظم کا عالم یہ ہے کہ ٹیکسی ڈرائیوروں کے پاس چلا جاتا ہے، ہوٹلوں میں بغیر سیکیورٹی کے گھومتا ہے، عام لوگوں سے ملتا اور ان کے مسائل پوچھتا ہے۔
تبدیلی کے خواب بُنتے ہماری عمر بیت چکنے کو ہے۔ کیا کبھی ہم یہاں اپنے ملک میں تبدیلی اور ایسی قیادت دیکھ سکیں گے۔ یہی سوال تھا میرا کہ تحریک کے لوگ دورے کرکے آتے ہیں، مگر بدلتے کیوں نہیں؟ ہمیں وہاں کے کھانوں کے ذائقے تو بتاتے ہیں، خود اس قدر خوش ذائقہ پکوان کیوں نہیں بنا کر عوام کی نظر کرتے۔
قاضی صاحب پہلے فرخ سہیل گوئندی کمال اتاترک کے فضائل بیان کرچکے تھے اور ترکی کی ساری ترقی کو مصطفی کمال پاشا کا کارنامہ قرار دے چکے تھے۔ خود وہ بیس سے زیادہ بار وہاں جا چکے تھے۔ دلائل مضبوط تھے، حاضرین پہ ایک سحر سا طاری ہو رہا تھا۔قاضی صاحب نے چند لمحوں میں ہی سحر توڑ دیا۔ جدید ترکی کو کمال اتاترک نے بے شک شکست خوردگی سے بچاؤ کا راستہ دکھایا مگر اپنے لیے ترقی کا عجیب سایہ بنایا کہ زبان، لباس، اقدار، روایات ہر چیز ہی بدل کر رکھ دی۔ پولیس والے سارا سارا دن دیہاتیوں کی لمبی قمیصوں کو ان کی شلواروں کے اندر ڈالتے اور پھر اوپر سے اوزار بند باندھتے۔ پتلون کو ترقی کا نشان مان کر یورپ کی اندھا دھند پیروی کے جس سفر کا آغاز کیا گیا تھا، وہاں وضع قطع ہی نہیں رسم الخط بھی بدلنا پڑا۔ ہمارے ہاں بھی وہ ہیرو مانا جاتا تھا۔ غازی اتاترک کہلاتا تھا، مگر سچ یہ ہے اقبال نے درست کہا تھا کہ دارو ہے ضعیفوں کا لاغالب اللہ مغرب کی ترقی ننگی پنڈلیوں اور ننگے بازوؤں کی وجہ سے نہیں ہے۔ مغرب نے محنت، علم اور تحقیق کے نتیجے میں ترقی کی ہے۔ آج کے ترقی کی ترقی مصطفی کمال پاشا کی نہیں نجم الدین اربکان کی دین ہے۔ ہر سال استنبول میں یوم فتح مناتے ہیں۔ وہ ترک روایات اور ترک تاریخ کے نام سے کام کرتے رہے۔ ملّی نظام پارٹی، ملّی سلامت پارٹی، سعادت پارٹی، یہ سب تبدیلی کی جدوجہد کے استعارے تھے، سیکولر دستور کے اندر راستہ بنایا۔ نجم الدین اربکان آج کی ترکی میں باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے جنازے میں پورا ترکی شریک تھا، جب کہ اس وقت ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا۔ ان کو یہ اعزاز ملا کہ مصطفی کمال اور عصمت انولو کے سیکولر ترکی کا انہوں نے رنگ بدل ڈالا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ترکِ اسلام ہی پس ماندگی کا بڑا سبب ہے۔ پاکستان کے ساتھ ان کی قدر ہی نہیں، درد بھی مشترک ہے۔ انھوں نے بہت ہی دردمندی اور دل سوزی سے کہا تھا: ’’ہمارے ملک میں بہتری اور تبدیلی کا جس قدر Potential ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹ صرف باہمی انتشار ہے۔ ہم دونوں ملک درد اور قدر کے مشترکہ ورثے کے مالک او حامل ہیں۔ مادی ترقی میں بھی اب ترکی پیروی ہو گی تو مطلوبہ نتائج لیے جا سکتے ہیں۔‘‘
قاضی صاحب کا یہ عجیب معاملہ تھا کہ حسن محفل میں ہوتے، وہاں سب سے باخبر ہوتے اور گفتگو اس قدر باوزن اور مدلل ہوتی کہ وہی حاصل تقریب ٹھہرتی۔
قاضی صاحب کی وفات نے جہاں سوچنے اور تجزیہ کرنے کے کئی دروازے کھولے ہیں، وہاں ایک اہم ایشو اور بھی توجہ کا طالب ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی حد تک تو یہ بات نہیں کھلتی، مگر نہ ہی بنیاد رکھنے والی پارٹیاں جب اپنے رہنما اور قائد کی شخصیت کو ابھارنے، اجاگر کرنے کی خاطر مہمات ڈیزائن کرتی ہیں، سلوگن بناتی ہیں اور مبالغہ آرائی سے کام لے کر ’’ظالمو! قاضی آ رہا ہے‘‘ جیسے نعرے تخلیق کرتی ہیں تو اس پہ کیا ردعمل ہوتا ہے اور عوامی سطح پر اسے کس طور پر لیا جاتا ہے اور خود ان جماعتوں کے اندر شدید ردعمل کیوں ہوتا ہے؟ یہ ردعمل ایک خاص اضطراب، بے قراری اور بے تابی کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ مبالغے اور اوور ڈوز کو ردعمل پیدا کرنا چاہیے۔ پیغام، دعوت اور پالیسی ایشوز کی بجائے تصویری قیادت عام الناس کے ہاتھوں اب تک قبولیت کی سیڑھی پر نہیں چڑھایا جاسکا، کچھ برسوں بعد نیا لیڈر، نئی قیادت لازماً سامنے ہوتی ہے۔ یہ تنظیمی اور ادارہ جاتی مضبوطی کا اظہار ہوتا ہے، مگر پھر پچھلی قیادت کی تقریریں، تصویریں ماضی کاحصہ بناتے ہوئے رُودادوں کے صفحات سے تو مٹائے جا سکتے ہیں مگر عوامی حافظے سے نہیں۔ وہاں نئی تصویر، نئے فریم میں لگتے لگتے بڑا وقت لے جاتی ہے۔
1938 میں پیدا ہونے والے قاضی حسین احمد جو زندگی بھر مضبوط قدموں سے چلے، نوجوانوں کو ساتھ لے کر، اپنا ہم نوا بنا کر چلے۔ 1987 میں پہلی بار امیر جماعت منتخب ہوئے تو تین برس کے اندر جماعت ایک انتخابی اتحاد آئی جے آئی کا حصہ بن کر قومی اسمبلی میں پہلی بار دس سیٹیں لے کر سیاسی منظر نامے کا ایک خوش گوار حصہ بنی۔ دیکھا جائے تو قیام پاکستان سے اب تک پارلیمنٹ میں یہ جماعت کی سب سے بڑی عوامی نمائندگی ہے۔ کیا آنے والے برسوں میں کسی اتحاد کے بغیر، خالی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے جماعت پارلیمنٹ میں بہتر نمائندگی پا سکے گی؟ اس کے اپنے نمائندے سیاسی منظر نامے میں اپنے ناموں اور کاموں سے الگ پہچان پا سکیں گے؟؟
ملکی سرحدوں کے اندر کوئی ناانصافی پر مبنی واقعہ رونما ہوتا یا سرحدوں کے پار کوئی کسی ظلم اور ریاستی زیادتی کا نشان ملتا۔ قاضی حسین احمد اس پر ردعمل دیے بنا نہیں رہتے تھے۔ وہ تبدیلی کا نشان بنے، انہوں نے تیز رفتاری کے باعث جماعت اسلامی کا گوربا چوف ہونے کی دل آرار پھبتی بھی سہی مگر عوامی پسند کا تاج اور اعزاز ان کو اس عالم میں حاصل ہوا کہ ان کی جماعت ایک صوبے کے اقتدار کا حصہ بنی اور انھیں سیاسی طور پر اس قدر پذیرائی ملی کہ ان کا طے کردہ 5 فروری ملک بھر میں کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کا دن ایک قومی دن قرار پاگیا۔ کیا آنے والے برسوں میں ان کی جماعت عوامی حمایت سے کسی مکمل، پائیداراور بھرپور اختیار و اقتدار والی حکومت کا حصہ بن سکے گی یا پھر یہ خواب ایک خیال محض بن کر رہے گا اور کسی روز تاریخ کے اوراق کا رزق ٹھہرے گا۔ ہر گزرتے لمحے میں کئی سوال ہوتے ہیں اور ہر سوال اپنا جواب ضرور مانگتا ہے۔
یہ ایک شخص کا تذکرہ نہیں ہے
یہ تحریر نامکمل رہتی، اگر اس میں یہ وضاحت شامل نہ ہوتی کہ قاضی صاحب کا تذکرہ ایک دن یا ایک برس کا تذکرہ نہیں ہے، یہ صرف ایک سابق امیر، قائد، باپ اور شوہر کا ذکر بھی نہیں ہے، ایک ایسے انسان سے جڑی یادیں ہیں، جس نے بلاشبہ پوری عمر ایک ایسے مقصد اور مشن کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی کہ جس پر اس کا پورا یقین تھا اور آخری سانس تک وہ اپنی دعوت، سوچ اور جماعت کے ساتھ جُڑا رہا۔
چمکتی اور مسکراتی آنکھوں والے قاضی حسین احمد کی شخصیت کی کئی پرتیں بھی ہوں تو جو چیز ہر پرت میں نمایاں تھی، وہ ان کا پورے وجود سے اپنے مخاطب کی طرف متوجہ ہونا، پورے دل سے اس سے بات کرنا، اس کا اکرام کرنا، دوسروں کی غیر موجودگی میں ان کا احسن انداز میں ذکر کرنا، اپنے بڑوں کی دل سے عزّت اور چھوٹوں پہ پوری محبت اور شفقت نچھاور کرنا، دوسروں کو آسانی سے معاف کر دینا، چھوٹی بڑی غلطیوں سے درگزر کرنا، اقبالؒ سے اظہار محبت کرنا اور ہر محفل میں اللہ اور اس کے پیغام کو یاد دلانا شامل تھا۔
آنحضورﷺ کی سنت مصافحہ اور معانقہ کو انہوں نے بہت ہی یک سوئی کے ساتھ آخری سانس تک اپنی ذات کا نمایاں حصہ بنائے رکھا۔ ان سے ہاتھ ملانے والے کو وہ گرم جوشی اور اپنا پن بھلانا آسان نہ ہوتا۔
مولانا عبدالرب کے دس بیٹوں بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹے، ملن سار اور وسعت قلب کے مالک قاضی حسین احمد کا نام جمعیت العلمائے ہند کے قائد حسین احمد مدنی کے نام پر رکھا گیا۔ اس خاندان کے کسی بڑے چھوٹے نے کب سوچا ہو گا کہ تحریک دیوبند سے متعلق اس خاندان کا فرزند دلبند کل مولانا مودودیؒ کو پیارا ہو جائے گا اورپھر ایک دن آئے گا افغانستان سے بوسنیا تک، مصر سے تیونس تک، سوڈان سے کشمیر تک اس کے چاہنے والے بیٹے اور بیٹیاں دیوانہ وار قاضی صاحب کے نعرے لگاتے نظر آئیں گے۔ سوڈان کی اسلامی تحریک کے قائد ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر عمر البشر کے درمیان اختلاف ساری حدوں کو عبور کرگیا تو انہیں دنیا میں واحد قاضی حسین احمد ہی نظر آئے جو ان کے ثالث بن کر مسئلہ نمٹا سکتے تھے۔ ترکی میں جشن فتح ہوا تو قاضی صاحب واحد قائد تھے، جنہیں کسی اور ملک سے اس مبارک لمحے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ وفات پر افغانستان اور سوڈان کے صدر سے لے کر ترکی کے صدر و وزیراعظم کے ذاتی دستخطوں سے تعزیت نامے بھجوانے والوں کے سامنے ان کی عالم اسلام کے لیے خدمات اور کاوشیں تھیں جو بھلائے نہ بھلائی جا سکیں گی۔
کون جانے منصورہ کی جامع مسجد میں جب وہ اپنے مہمانوں کو پورے اکرام اور احترام سے امامت پر فائز کرتے تو مہمانوں کے دلوں پر کیا بیتتی تھی؟ وہ مولانا اکرام اعوان ہوں، مفتی محمد حسین نعیمی، مولانا شاہ احمد نورانی یا سیف الاسلام۔ جو مہمان کسی دینی جماعت سے آیا، قاضی صاحب نے دل و جان سے اس کا احترام کیا اور اپنے کارکنان کو اپنے عمل سے اس کا درس دیا۔
قاضی حسین احمد، جِسے زیادہ لوگ ’’قاضی صیب‘‘ کہا کرتے تھے، وہ اپنی زندگی کی ساری توانائیاں اپنے مقصدِحیات کی سربَلندی اور جماعت اسلامی کی سرفرازی کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو ایک ملّت بنانے، اختلافات کم کرانے، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق سکھاتے، پڑھاتے اپنی منزل پہ جا پہنچے۔
قاضی حسین احمد نے جنہیں قدرت نے دائمی مسکراہٹ سے نوازا تھا، جماعت اسلامی کی 22 سال قیادت و امارت کی۔ ایک دو کمرے کے فلیٹ ہی میں اپنی امارت کے سارے سال بخوشی گزارنے والے قاضی صاحب کو میں نے ہمیشہ ایک مطمئن، متحرک اور متواضع آدمی پایا۔ مسکراہٹ ان کے چہرے پہ خوب سجتی تھی، انہیں اس بات کا احساس تھا یا یہ حسن اتفاق تھا۔ یہ مسکراہٹ ان کے چہرے اور شخصیت کا حصہ بن گئی تھی اور شاید ہی کوئی بتا سکے کہ انہوں نے کب محبت اور مسکراہٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
nn