خاندان میں شادی ہو یا موت، افراد جمع ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی غمی وخوشی میں سہارا بنتے ہیں۔ سماجیات کے پیرائے میں یہ معاشرہ بندی کے مظاہر کہلاتے ہیں اور انسانی زندگی میں روح کی تسکین کے لمحات فراہم کرتے ہیں۔ لیکن آج ہمارا معاشرہ اس جمع تفریق کے حاصل سے محروم نظر آنے لگا ہے۔
افراد کی زندگی میں موبائل فون ایسا نشہ بن کر ابھر رہا ہے جس کے سائے میں دوسرے کی خوشی اور دوسرے کے غم کی اہمیت بس ایک اسٹیٹس ڈال کر لائکس جمع کرنے کی دھن میں کہیں کھو گئی ہے۔ دلجوئی کے پیرائے نہیں بدل رہے بلکہ خلوص و ہمدردی، قربت و محبت کے موتی جیسے جذبے بکھر رہے ہیں۔ اجنبیت ایک آسیب کی طرح انسانی جذبوں کی جڑوں تک کو اپنی گرفت میں لیتی جارہی ہے۔ اجنبیت کا یہ حملہ گھروں کو ہی نہیں معاشرتی اداروں کو بھی گرفت میں لے چکا ہے۔ استاد اور شاگرد کی دلی وابستگی میں جو فاصلے نظر آرہے ہیں وہی مریض و معالج کے درمیان عود کر آئے ہیں۔ ہسپتال اب شفا خانے نہیں بلکہ تجارت کی منڈی کی مانند مریضوں کے دام لگاتے نظر آرہے ہیں۔ اسکول تعلیم کے بجائے اسٹیٹس بیچنے والی منڈی بن گئے ہیں۔ ان تمام امراض اور محرومیوں کا ذکر تو سب خاص و عام کی زبان پر نظر آتا ہے مگر علاج۔۔۔؟
ماضی میں بھی معاشرتی اور معاشی برائیوں میں جکڑے معاشرے کی اصلاح، ترتیب و تنظیم کرنے والی دوا بس ایک تھی۔۔۔ وہ تھی دل کی خوشی فراہم کرنے والی دوا یعنی قرآن۔۔۔ اور اس طرح قرآن کی تلاوت کہ جو دل کا سکون اور خوشی بنے۔ یہ جب ہی ہوگا جب قرآن کے منہ سے نکلنے والے تمام حروف اپنی معنویت کے ساتھ دل تک پہنچیں اور دل میں بسے انسانی معاشرتی امراض حرص، لالچ، بے ایمانی کو آخرت میں جواب دہی کے احساس کے مرہم سے مندمل کردیں۔ پھر اس پاک دل میں پھوٹنے والی رضائے رب کے حصول کی بوٹی میں کھلنے والے شگفتہ خلوص و محبت کے پھول دل کو گلشن ہی نہیں بلکہ دنیا کو جنت نظیر بنادیں گے۔۔۔ اور پھر دل سے اٹھنے والی صدا دل کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو بھی خوشی سے لبریز پھولوں کی سیج بنادے گی۔ دیر بس تمہاری طرف سے ہے۔