دل اور دماغ کا فاصلہ بڑھ جائے تو طبعیت کچھ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی، کیفیت یہ ہے کہ دل جو چاہتا ہے دماغ اُس کی اجازت نہیں دیتا اور دماغ جو مطالبہ کرتا ہے ہے دل اُس پر آمادہ نہیں ہوتا لیکن سیانے کہتے ہیں کہ اس کش مکش کا ہی نام زندگی ہے، زندگی کا متعین وقت گُزارنا اور اُسے اپنے اور اپنے اہل خانہ اور معاشرے کے لیے مفید بنانے میں ہی اللہ کی رضا ہے کیوں کہ یہ زندگی تو ہر حال میں گُزر ہی جائے گی لیکن اس عارضی دُنیا کے بعد کی جو ابدی زندگی ہے وہ ہر حال میں نہیں گُزرے گی بلکہ وہاں کے لیے بہت سا زادِ راہ لے کرجانا ہے اس امید کے ساتھ بہت سے زادِ راہ میں سے کچھ تو کھرا اور سچا نکلے گا اس کے بعد اللہ کی رحمت کے سوا کچھ نہیں۔
مگر ہمارے ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں کہ ذمہ داری کو دل و دماغ کی کش مکش اورکیفیات سے دور رکھیں کیوں کہ انتظام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اگر ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو کچھ ٹھکانے پر نہیں رہتا لہٰذا حکمِ حاکم کو پورا کرنے میں ہی عافیت جان کر لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ہے اس کوشش میں ناکامی کا خمیازہ بہر حال پڑھنے والوں کو بھگتنا پڑے گا۔
میری ہوش کی تما م زندگی کراچی میں گُزری ہے یہاں دیکھا کہ پہلے اوروں کے رویے اور ناانصافی پر اہلِ کراچی احتجاج کرتے تھے اور 1988ء کے بعد سے آج تک اپنوں کے دیے اندھیروں سے اُجالا برآمد ہونے کی امید لگائے بیٹھے ہیں، دل بہت چاہتا ہے کہ خود بڑھ کر روشنی بن جائیں لیکن اکثر لوگ ہیں کہ ہر در پرجابیھٹتے ہیں ہر گُمراہ سے راہ پوچھتے ہیں ہر سنگ دل سے دلداری کی آس لگاتے ہیں لیکن اپنے ہمدردوں کو نہیں پہچانتے نہ معلوم کمی کہاں ہے! ہمدردی میں یا پہچاننے میں؟
کراچی کی روداد بیان کرتے کرتے عرصہ بیت گیا لیکن کہیں داد رسی نہیں ہوتی، پھر بھی جب تک درد نہیں جاتا علاج کی کوشش کرتے رہنا ہماری ذمہ داری ہے جسے پورا کرتے رہیں گے۔
پڑھنے والوں کو یہ باتیں عجیب محسوس ہوں گی خصوصاً کراچی سے باہر رہنے والے سمجھیں گے کہ لکھنے والاچھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑا بناکر پیش کررہا ہے لیکن درد کو وہی جانتا ہے جو درد میں مبتلا ہو دیکھنے اور سُننے والا سمجھتا ہے کہ اس نے بلا وجہ شور مچا رکھا ہے۔
کراچی کے اتنے مسائل ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہ کون سا مسئلہ بڑا ہے کس کا مداوا پہلے ہونا چاہیے، ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ٹریفک کا ہے۔
کراچی کے ٹریفک کو دُنیا کے کسی بڑے شہر، کسی بُرے ٹریفک سے تشبہہ نہیں دی جاسکتی یہاں ٹریفک کے اپنے ہی مسائل ہیں جسے حل کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔
تہران ٹریفک کی زیادتی کا شکار ہوا تو وہاں کے حکومتی منتظمین نے جفت نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو ہفتے میں تین دن روڈ پر لانے کی اجازت دی اور بقیہ تین دن طاق نمبر پلیٹ کی گاڑیوں کو اجازت دی، اسی طرح لندن میں گنجان کاروباری اور تفریحی مقامات پر چھوٹی گاڑیوں کا داخلہ بند کردیا گیا، غرض ذمہ داروں نے ٹریفک کے مسئلے کو اپنی اپنی صورتحال کے مطابق حل کیا لیکن پاکستان اور خصوصاً کراچی کے ٹریفک کا مسئلہ ایسا ہے کہ جو حل ہوتے یا کم ہوتے نظر نہیں آرہا۔
گزشتہ دنوں ایک نوجوان ڈی آئی جی ٹریفک نے شہر کی مصروف شاہراہوں پر ٹی وی کیمرے کے ساتھ ناکا لگایا اور رانگ سائیڈ گاڑی چلانے والوں کو ہھتکڑیاں لگوادیں اس دوران وہ اپنی تفریح طبع کے لیے جملے بازی بھی کرتے رہے، ڈی آئی جی صاحب نے ٹریفک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بس اتنا ہی کرنا کافی سمجھا اور اپنے دفتر میں جاکر بیٹھ گئے تب سے وہ گمشدہ ہیں۔
کالی اور سفید ودری والی پولیس کا موازنہ کیا جائے تو سفید وردی والے اوپر کے آمدنی کے آسرے کے بغیر بھی کام کرتے ہیں لیکن اُنھیں بھی جب ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے دفتر سے باہر نکالا جائے تو وہ سب سے پہلے ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کو پکڑتے ہیں اوربعض پولیس والے توقانون پسندی کی اتنی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں کہ سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر چالان کا کاغذ پکڑا دیتے ہیں،
ٹریفک کا عملہ ناکے لگا کر گاڑی کے کاغذات چیک کرنے لگتا ہے غالباً اُن کے خیال میں کاغذ کا نہ ہونا ٹریفک جام کی اصل وجہ ہوتی ہے۔ ٹریفک نے یہاں کے شہریوں کے اخلاق، معاملات صحت اور جیب پر گہرا اثر ڈالا ہے۔
’’جب‘‘ کا لفظ تحریر کی ضرورت کی بنا پر استعمال کر رہا ہوں آپ جب کو ’’ہمیشہ‘‘ پڑھیں۔
جب کبھی کراچی میں ٹریفک جام ہوتا ہے تو موٹرسائیکل والے پیدل چلنے والوں کے راستے پرگاڑی دوڑانا شروع کردیتے ہیں پیدل چلنے والے اپنی اس حق تلفی کا بدلہ اپنے ذوق کے مطابق گالیاں دے کر لیتے ہیں یعنی ٹریفک جام معاشرے میں فحش گوئی کو بڑھا رہا ہے۔
آپ کسی تقریب یا پروگرام میں جانے کے لیے گھر سے نکلیں اور آپ کا اندازہ ہو کہ راستہ ایک گھنٹے کا ہے اور آپ احیتاط کرتے ہوئے دو گھنٹے پہلے گھر سے نکل جاتے ہیں تو بھی یقینی نہیں کہ آپ وقت پر اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے یعنی کراچی کی اکثریت کو وقت پر نہ پہچنے والوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ کراچی کی بڑی آبادی سانس کے مرض میں مبتلا ہے گاڑیوں کے بے پناہ دھوئیں کی وجہ سے یہ مرض عام ہوتا جارہا ہے، جب کہ دیگر امراض اس کے سوا ہیں، جناب نواز شریف اورنج بس کا افتتاح کر گئے تھے یہ منصوبہ بھی دوسرے منصوبوں کی طرح یتیم نظر آتا ہے کوئی اس کا پُرسان حال نہیں ہے اس منصوبے کے راستے میں آنے والے تجارتی مراکز پر ویرانی نے اپنا ڈیرہ ڈال لیا ہے اوراس راستے میں اتنی زیادہ دھول اڑتی ہے کہ اس پر چند منٹ کا سفر بھی مسافر پر مٹی کی موٹی تہہ جما دیتا ہے۔
ٹریفک جام کی وجہ سے تقریباً دوگُنا فیول خرچ ہوتا ہے جو ملک اور فرد دونوں کی معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے۔
ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے عوام میں چڑچڑا پن پیدا ہورہا ہے، لوگ بات بات پر ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے نظر آتے ہیں۔
ماضی میں لائسنس کی تجدید کے وقت ہر لائسنس ہولڈر کو ٹریفک کوڈ بُک دی جاتی تھی جس میں ٹریفک کے قوانین لکھے ہوتے تھے یہ کتاب کچھ لوگ ضرور پڑھ لیتے تھے اور کچھ نہ کچھ عمل بھی کرلیتے تھے لیکن اب کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے والے، ڈرائیور سے زیادہ کسی بلا کی طرح ہوگئے ہیں جو کسی طرف سے بھی حملہ آور ہوسکتی ہے۔
سیدھے ہاتھ پر چلنے والے ٹریفک کو سیدھے ہاتھ سے اورٹیک کرنا چاہیے لیکن یہاں گاڑی چلانے والے ننانوے فیصد ڈرائیورز اس قاعدے سے لاعلم ہیں ہمارے ٹی وی پر آسکر ایواڈ سے لے کر چھوٹے سے شہر میں ہونے والی کیٹ واک دکھائی جاتی ہے لیکن روڈ کے قوانین کا ایک قاعدہ بھی نہیں بتایا جاتا۔
غرض کراچی کا ٹریفک یہاں کے عوام کے اخلاق، کردار، معاملات اور معیشت کو بُری طرح برباد کررہا ہے حکمران کراچی کے ٹریفک کے مسئلے کو حل یا کم کردیں تو عوام ان کے اس احسان کبھی نہ بُھلا پائیں گے۔ حکمرانوں کے لیے شیرشاہ سوری کی طرح امر ہوجانے کا یہ نادر موقع ہے۔
nn