سوال: مبین طاہرہ صاحبہ سب سے پہلے اپنے بارے میں بتائیں، نیز جامعہ سے وابستگی کو کتنے ماہ و سال ہوگئے؟
جواب۔2006 سے نائب نگران کی حیثیت سے جامعات المحصنات پاکستان سے وابستہ ہوں۔ اُس وقت عابدہ حسام الدین نگران تھیں۔ 2013 میں محترمہ طلعت ظہیر کے بعد مجھے ذمے داری سونپی گئی۔ اس سے قبل جماعت اسلامی میں نظم کی مختلف ذمے داریوں پر رہی۔ 1996 میں رکنیت کا حلف اٹھایا تھا۔ کچھ عرصہ ضلع میں نیابت کی ذمے داری بھی ادا کی۔ کراچی شوریٰ میں دو بار منتخب ہوئی۔ اس دوران ہی نعمت اللہ خان صاحب کے دور میں سٹی گورنمنٹ میں کونسلر منتخب ہوئی۔ وہاں لٹریسی کمیٹی کی ذمے داری تھی۔ یہ لٹریسی کمیٹی پہلے سے قائم تھی، لیکن جب ہم نے اس کمیٹی میں کام کرنا شروع کیا اور علاقوں کا دورہ کیا تو اندازہ ہوا کہ اس ضمن میں کوئی کام نہیں ہوا ہے، سب صرف کاغذات میں ہے، عمل کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ جب ہم وزٹ کرنے جاتے تو صاف محسوس ہوتا کہ سارے انتظامات صرف دکھاوے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس سے قبل لٹریسی کے لیے مختص بجٹ کہاں جاتا ہوگا؟
سوال: جامعات المحصنات کے پس منظر کے بارے میں بتائیں، نیز یہاں کا نظام دوسرے مدارس سے کس طرح مختلف ہے؟
جواب: معاشرے کی درستی کے لیے سب سے اہم کردار عورت کو ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کی تربیت نوعمری سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سوچ کے تحت جامعات المحصنات کی شکل میں ہاسٹل کے ساتھ طالبات کے تعلیمی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا کہ جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل بھی ہو۔ 1990 میں اس منصوبے نے عملی شکل اختیار کی اور سب سے پہلی جامعہ لاہور میں قائم ہوئی، جو پائلٹ پروگرام تھا۔ اس کی کام یابی کے بعد دیگر جامعات کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس طرح کراچی میں 1994، سنجھورو، خیرآباد اور کوئٹہ میں1996، مانسہرہ اور اسلام آباد میں 1998، پشاور اور لاڑکانہ 1999، جھنگ 2002، ایبٹ آباد اور سکھر2005، حب 2006، ملتان 2012، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور منصورہ سندھ 2013، اٹک 2014 جب کہ واہ اور چترال جامعہ کا الحاق 2017 میں ہوا۔
سوال: اب تک کتنی جامعات کا جامعات المحصنات پاکستان سے الحاق ہوچکا ہے؟
جواب: 2017 تک 19 جامعات کا الحاق ہوچکا ہے اور 5 کی جانب سے درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، لیکن انھیں مطلوبہ معیار پر لانے کے بعد ہی الحاق کا عمل ہوگا۔ اس سال جامعہ چترال کا الحاق ہوا ہے، جس کے بعد صورت حال یہ ہے کہ پنجاب میں7، خیبر پختون خواہ میں 5، سندھ 5 اور بلوچستان میں 2۔۔۔ اس طرح ہماری کل 19جامعات ہیں۔
سوال: جامعات المحصنات پاکستان کا الحاق کس بورڈ سے ہے؟
جواب: جامعات المحصنات پاکستان کا الحاق رابطہ المدارس سے ہے۔ اس کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے اور اس کے صدر مولانا عبدالمالک ہیں۔ جامعات المحصنات میں عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں، لہٰذا ہمارے ادارے میں تمام اسکولوں اور کالجوں کا الحاق بھی مقامی بورڈ سے ہے، تاکہ طالبات عصری علوم کا بھی باقاعدہ امتحان دے سکیں۔
سوال: جامعہ کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے؟
جواب: بنیادی طور پر تو مضامین میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا، وہی مضامین ہوتے ہیں جو درسِ نظامی کے دیگر مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اصل فرق اس کے طریقِ تدریس اور اس پر عمل درآمد کا ہے۔ اس کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہمارا باقاعدہ شعبۂ نصاب ہے جو اس پر ہمہ وقتی کام کررہا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ تحقیق بھی قائم ہے جو طالبات میں تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مصروف ہے۔ طالبات کو موجودہ حالات اور جو کچھ وہ علم حاصل کررہی ہیں، اُس کا فہم دینے کے لیے خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اساتذہ کی خصوصی تربیت کے لیے تدریب المعلمات کا 2012 سے با قاعدہ آغاز ہوا ہے اور پورے پاکستان کی تمام اساتذہ کو ایک مقام پر جمع کرکے 12 سے 15 دن تک ٹریننگ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ہماری جامعات کی قریباً90 فی صد اساتذہ اس ٹریننگ سے گزرچکی ہیں۔ اس سے قبل BTMT لازماً کروایا جاتا ہے۔ جوBasic Training Module For Teachers ہے۔ اس کے بعد تدریب المعلمات کا پروگرام ہے جس میں مضامین کی تدریس کا طریقۂ کار، عربی گرامر، عربی بول چال اورفہم کے ساتھ قرآنی عربی، نیز فقہ اور حدیث سیکھنے اور سکھانے کی آسان اور جدید تیکنیک سے آشنا کیا جاتا ہے۔ ہماری طالبات شھادۃ الخاصہ کے ساتھ انٹر، عالیہ کے ساتھ بی اے اور عالمیہ کے ساتھ ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کرتی ہیں اور ان کی اس تربیت اور تعلیم کا جامعات میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میںAcademic hours کے علاوہ ہاسٹل میں رہائش بھی ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ تربیت کے ضمن میں دیگر اداروں سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں موجودہ دور کی ضرورت کے لحا ظ سے IT کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ جامعات کی قریباً تمام اساتذہ کمپیوٹر اور ملٹی میڈیا کے استعمال سے واقف ہیں اور ان تمام ذرائع کو استعمال بھی کررہی ہوتی ہیں اور اس سلسلے میں تمام مرکزی شعبہ جات سے ای میل، اسکائپ اور واٹس ایپ وغیرہ پر رابطہ بھی رہتا ہے۔
سوال: طالبات کی حالاتِ حاضرہ سے آگاہی کے لیے کن ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے، نیز نصاب کے علاوہ کن غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے؟
جواب: حالاتِ حاضرہ سے آگاہی کے لیے اخبارات و جرائد کا مطالعہ جامعہ کے نصاب کا لازمی جزو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی نگرانی میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی طالبات کو مہیا کی جاتی ہے۔ حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ماہانہ لیکچر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں تک ہم نصابی سرگرمیوں کا تعلق ہے، شعبۂ نصاب کے تحت اس کا باقاعدہ سالانہ کلینڈر ترتیب دیا جاتا ہے، جس کے تحت طالبات کو لکھنے، بولنے اور اظہارِ خیال کے بنیادی امور کی واقفیت دینے کے لیے تقریر اور مضمون نویسی کے مقابلہ جات منعقد ہوتے ہیں۔ امورِ خانہ داری کی باقاعدہ کلاسز اور ہفتۂ طالبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اسلام میں دی گئی جائز حدود میں تمام Physical activities اور اسپورٹس مثلاً ٹیبل ٹینس، کرکٹ، بیڈمنٹن کی سہولت دی جاتی ہے۔ طالبات کے مابین حسنِ قرأت، نعت اور خطاطی کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات ہمارے لیے باعثِ مسرت ہے کہ ہمارا سال 2017 کا کلینڈر جامعہ کی طالبات کی خطاطی کے نمونوں سے مزیّن ہے جو ہماری طالبات کی صلاحیت و مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔
سوال: جامعات المحصنات میں دورانِ تعلیم ہاسٹل میں قیام طالبات کی تعلیم و تربیت پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے؟
جواب: ہاسٹل میں طالبات کو مکمل گھر کا ماحول مہیا کیا جاتا ہے جہاں ان کے معمولات کا جائزہ، صفائی ستھرائی اور سلیقے پر توجہ دی جاتی ہے اور جو کچھ تعلیم و تربیت انہیں جامعہ سے ملی ہے، روزانہ کی بنیاد پر اس کے استعمال کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ ہاسٹل کے قیام سے طالبات میں خوداعتمادی، مضبوطی، باہمی تعاون اور اجتماعیت کے ساتھ مل جل کر رہنے کا جذبہ اور اپنے مزاج سے متصادم معاملات و صورت حال پر صبر کے ساتھ بہتر حل تلاش کرنا آجاتا ہے، جو ایک عورت کا طرّہ امتیاز ہے۔
سوال: جامعات المحصنات پاکستان کے مرکزی دفتر کے سسٹم اور جامعات میں اس کے کردارکے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب: جامعات المحصنات میں سسٹم ڈیولپمنٹ کو ہم دو فیز میں تقسیم کرتے ہیں۔ 1990 سے لے کر 2005 تک 11 جامعات کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ الحمدُلِلہ، بانیانِِ جامعات المحصنات نے بہت زیادہ محنت و لگن سے اس پودے کی آب یاری کی۔ جامعات کا نظام منظم کرنے اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے کمیٹیوں کی باقاعدہ تشکیل کی گئی اور ترقی کا عمل جاری رہا، لیکن جیسے جیسے جامعات کی تعداد میں اضافہ ہوا، اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ جامعہ کے نظام کو باقاعدہ جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ملکی قوانین کے مطابق دستاویزات کی تکمیل ہو، لہٰذا ایک ادارے PIHD (Pakistan institute of human development)کے تعاون سے سسٹم ڈیولپمنٹ کا آغاز ہوا اور ایک بڑی ٹیم کو تربیت دی گئی۔ گزشتہ دور کے کیے گئے سارے کاموں کو واضح ترتیب میں لانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ ابتدائی طور پر تین کمیٹیاں تھیں: تعلیمی کمیٹی، مالیاتی کمیٹی، انتظامی کمیٹی۔ بعد ازاں وقت اور حالات اور کاموں میں اضافے کی بنا پر کمیٹیوں کو باقاعدہ شعبوں کی شکل دی گئی اور کاموں میں اضافے کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ اِس وقت آٹھ سے دس شعبہ جات مرکز میں موجود ہیں۔ ہر شعبے کا صدر اور ارکان انتہائی قابل، محنتی اور اپنے شعبے کی خصوصی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ مشن سے وابستہ ہیں۔ ہر شعبے کی JDs(Job discription) باقاعدہ دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ ان شعبہ جات میں کوالٹی ایشورنس : (Q.A)طے شدہ معیارات کی جانچ کے لیے اپنا کردار بخوبی ادا کررہا ہے۔ شعبہ تربیت ہر سطح پر جامعات کی طالبات، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تربیت کا باقاعدہ نظام ترتیب دیتا ہے۔ شعبہ تربیت کے علاوہ محصنات ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ جامعات کے علاوہ کمیونٹی میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ورکشاپ اور پروگرام ترتیب دیتا ہے جن میںVBM ، مدرسات کے لیے پروگرام، عربی کلاسز اور طالبات کے لیے خصوصی ورکشاپ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جب کہ نظم کے تحت مختلف مہمات اور الیکشن میں تربیتی ورکشاپس کی ترتیب کے ذریعے یہ شعبہ اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ شعبہ انتظامی امور مرکز سے لے کر جامعات تک کے تمام نظام کی نگرانی اور بہتری کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے ہوئے کام کے انضباط کی اہم ضرورت پوری کرتا ہے۔ شعبہ تحقیق کے تحت افراد کو مقالہ نگاری کی تربیت کے ذریعے اچھے محققین کی تیاری کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے تحت پہلا بیج فارغ ہوچکا ہے۔ شعبہ نصاب تدریب المعلمات کا انعقاد کرتا ہے اور دینی و عصری علوم پر عبور اور جامعات میں بتدریج بہتری کی طرف گام زن نصاب اس شعبے کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شعبہ امتحان سالِ اول کے امتحانات کا انعقاد کرتا ہے۔ ہمارے شعبہ امتحان سے دیگر جامعات بھی امتحان کے انعقاد اور پرچوں کی تیاری میں مدد اور تربیت لیتی ہیں۔ شعبہ مالیات ہے جو مرکز اور جامعات کا باقاعدہ آڈٹ، بہترین بجٹ اور شفاف نظام ترتیب دینے کا ذمے دار ہے۔ شعبہ تشہیرو ترویج معاشرے میں جامعات کو متعارف کرانے کے لیے تشہیری مواد اور خبروں کا اہتمام کرتا ہے، جب کہ شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی مرکز اور جامعات میں بذریعہ ای میل رابطے کا نظام ترتیب دینے اور ویب سائٹ اپ ڈیٹ کرنے کا ذمے دار ہے۔ شعبہ جات کے علاوہ ہمارا ایک فہم دین پروجیکٹ ہے، جس کا سن 2012 سے آغاز ہوا۔ تین ماڈیولز پر مشتمل اس کورس کو جید علما اور ماہرین نے بہت عرق ریزی کے ساتھ تیار کیا ہے، جس میں قرآن و حدیث، فقہ و آدابِ زندگی، تجوید اور صحت و صفائی پر لیکچرز شامل ہیں۔ پاکستان اور اس سے باہر سیکڑوں طالبات اور خواتین اس سے استفادہ کرچکی ہیں۔ رابطہ المدارس سے اس کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا ایڈوانس کورس بھی تیار ہوچکا ہے، جو جامعات میں ایک سالہ کورس کی صورت میں متعارف کرایا جاچکا ہے اور 2017 ہی میں اس کا آغاز ہوگا۔
سوال: جامعات المحصنات پاکستان اپنے مقاصد کے حصول میں کس حد تک کام یاب ہے؟
جواب: جامعات المحصنات کا فوکس معاشرے کے اس جزو پر ہے جو معاشرے میں بناؤ اور بگاڑ کا ذمہ دار ہے یعنی عورت۔ جب عورت اپنے کردار کو صحیح طور ادا نہیں کر پا رہی، ایسے میں اگر ہماری طالبات تعلیم و تربیت اور ہنر سے لیس ہوکر معاشرے میں ہر سطح پر اپنا کردار ادا کررہی ہیں تو ہمارے لیے یہ بات باعثِ اطمینان ہے اور ہم اپنے اس مقصد میں الحمدُلِلہ کام یاب ہیں اور اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں۔
سوال: اگر دیگر جامعات آپ سے الحاق کرنا چاہیں تو اس کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
جواب: جامعات المحصنات پاکستان سے الحاق کے لیے باقاعدہ ترتیب ہے۔ خواہش مند مراکز اور مدارس ہمارے سسٹم کو دیکھنے کے بعد ہم سے رابطہ کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم نے ایک سوالنامہ تیار کیا ہے، اس کو دیکھنے اور پروفارم پُر کروانے کے بعد ہم جائزہ لیتے ہیں، وہاں کا دورہ کرتے ہیں۔ جامعہ اگر ہمارے طے شدہ معیار کے مطابق ہوتی ہے تو ہم اس کو اپنے سسٹم میں لے لیتے ہیں۔ پھر ان کی تربیت کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے بعد سال ڈیڑھ سال کا وقت ہوتا ہے جس کے بعد ان جامعات کو الحاق کا سرٹیفکیٹ دے دیا جاتا ہے۔
سوال: محصنات اسکول سسٹم کے بارے میں بتائیں، نیز ابھی تک کتنی جگہ یہ اسکول سسٹم قائم ہے؟
جواب: ہماری بہت ساری جامعات کیوں کہ ایسے علاقوں میں ہیں، جہاں بڑی طالبات کے داخلے کے لحاظ سے کچھ مشکلات ہیں، لیکن ان مقامات پر بچوں کے داخلوں کی صورت حال اچھی ہونے کی وجہ سے ہم نے اسکول سسٹم کا آغاز کیا۔ تین مقامات حب، لاڑکانہ، اور کوئٹہ میں باقاعدہ اسکول سسٹم قائم ہے۔ اس میں بچوں کی اچھی تعداد ہے۔ محصنات اسکول سسٹم میں آفاق کا کورس پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ Activity based learning، عصری معیار کے مطابق کلاس رومز، اور دیگر جدید طریقِ تعلیم سے مدد لی جاتی ہے۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے باقاعدہ کلینڈر کی ترتیب اور اساتذہ کی تربیت کا مربوط انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ تمام تر جدید ذرائع کے استعمال کے باوجود اپنے مشن تعلیم و تربیت کے ذریعے ایک صالح فرد کی تیاری کو ہم نہیں بھولتے۔ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والی بچیوں کو بعد میں جامعات میں سمو لیا جاتا ہے۔
سوال: جامعات کے استحکام میں کن مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
جواب: جامعات کے استحکام میں مسائل بہت سے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ لڑکیوں کو اپنے گھر سے دور رہنا پڑتا ہے۔ ان کی اس حوالے سے نفسیاتی اور دیگر امور میں تربیت، اس کے ساتھ ساتھ مالی مسائل۔ مالی لحاظ سے ڈونرز ہی ہماری جامعات کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں۔ ہم طالبات سے تعلیم کی مد میں کچھ نہیں لیتے، صرف ہاسٹل میں رہائش کی معمولی رقم لی جاتی ہے، وہ بھی بیش تر طالبات ادا نہیں کرسکتیں۔ لہٰذا مخیر حضرات کی طرف سے ڈونیشن باقاعدہ صدقۂ جاریہ ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری جامعات خود سے بھی earning کی تھوڑی بہت کوشش کرتی ہیں۔ دست کاری، سستے بازار یا اس طرح کے چھوٹے بڑے کام۔۔۔ لیکن یہ مالی لحاظ سے انتہائی ناکافی ہیں۔
سوال: جامعہ سے فارغ التحصیل طالبات کس طرح سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں؟ نیز ان کو نظم جماعتِ اسلامی سے جوڑنے کا کیا انتظام کیا جاتا ہے؟
جواب: جامعہ سے فارغ التحصیل طالبات دورانِ تعلیم ہی معاشرے میں اپنا کردار شروع کردیتی ہیں اور ان کی تربیت بحیثیت درس گاہ اور مدرسے کے ہوچکی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ دورانِ تعلیم ہی مختلف رسائل و جرائد میں لکھنے اور مختلف جگہوں پر درس وتدریس کا آغاز کردیتی ہیں۔ دوران تعلیم چھٹیوں میں اپنے گھر جاتی ہیں تو اس وقت بھی وہاں پر دعوتی کام کرتی ہیں۔ فارغ ہونے سے پہلے ہی، کیوں کہ باقاعدہ نظم کے پروگرام رکھوائے جاتے ہیں، اس لیے نظم سے ان کے رابطے، واقفیت اور نظم کو ان کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ ان کے رحجانات، طالبات کی سہولت اور کاموں کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے نظم ان کو اپنے ساتھ شامل کرلیتا ہے، بلکہ بہت سارے مقامات پر نظم قائم ہی ہماری طالبات کے ذریعے ہوا۔ اس کے علاوہ کیوں کہ ہماری فارغ ہونے والی طالبات تربیت یافتہ ہوتی ہیں اور علمی حوالے سے بھی ایک اچھا تجربہ اور تربیت رکھتی ہیں اور ساتھ ساتھ کمپیوٹر پر بھی عبور رکھتی ہیں، لہٰذا مختلف اداروں میں وہ خدمات انجام دیتی ہیں۔ ہماری جامعات کی جو اساتذہ ہیں، وہ قریباً 95 فی صد ہماری جامعات ہی کی فارغ التحصیل طالبات ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑا کام جو ہماری فارغ التحصیل طالبات کے ذریعے ہوتا ہے، وہ ہماری ذیلی جامعات کا نیٹ ورک ہے، جو جامعات کے اردگرد بھی ہے اور جن مقامات سے طالبات آتی ہیں، اُن مقامات پر بھی ایک ذیلی جامعہ کا قیام ان طالبات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں ذیلی جامعات کی بڑی تعداد موجود ہے جو نچلی سطح پر شعبۂ دیہات کے ساتھ مل کر دین کے پھیلاؤ کا بہترین انداز سے کام کررہی ہیں۔ ایک طرف فہم دین والا کورس نچلی سطح تک دین کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف ذیلی جامعات کے ذریعے کام جاری ہے۔ اس طرح ہماری طالبات ہر دو طرح سے معاشرے میں خیر پھیلانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ بسا اوقات اُن علاقوں میں جہاں خواتین کے نکلنے کا رواج بھی نہیں ہوتا، وہ ایک کمرے میں بیٹھ کر بچیوں کو تعلیم دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو جہالت سے دور کرتی ہیں۔
س: جامعات المحصنات کے تحت کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی کیا کوئی کام کیے جاتے ہیں؟
ج: مرکزی سطح پر فہم دین کورس اور محصنات ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے تحت مختلف کورس کروائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ جامعات کی طالبات اور اساتذہ کے ذریعے اردگرد کے ماحول کو علم سے بارآور اور مہارتوں سے لیس کرنے کے لیے مختلف پروگراموں کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان کے اچھے مقام کی وجہ سے معاشرہ اور علاقے کا مؤثر طبقہ ان کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ اس وقت جب کہ ہماری بیش تر جامعات پس ماندہ علاقوں میں ہیں تو قرب و جوار کے لوگوں کو علم سے روشناس کروانے کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ جامعات پیما کے تعاون سے میڈیکل کیمپ اور الخدمت کے تعاون سے سستے بازار کا انعقاد کرکے معاشرے کی فلاح میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
س: مالی طور پر جامعہ کی ضرورت کیسے پوری ہوتی ہے؟
جواب: مالیاتی کمیٹیاں مرکز اور جامعہ کی سطح پر موجود ہیں۔ مخیّر خواتین وحضرات ہماری ضروریات کو پورا کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ HHRD اور یوکے اسلامک مشن کی طرف سے بھی کچھ تقویت حاصل ہونی شروع ہوئی ہے۔ FBR کا سرٹیفکیٹ حاصل ہونے کے بعد ہمیں امید ہے کہ کمپنیاں اپنے فنڈ دینے میں ان شاء اللہ مددگار ہوں گی۔ طالبات سے جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، بس واجبی اعانت وصول کی جاتی ہے، وہ بھی صرف ہاسٹل کی مد میں۔
س: آپ کا وژن اور آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟
ج: الحمدُلِلہ ہم دس سالہ منصوبۂ عمل بنا چکے ہیں۔ 2020 تک کا ہمارا ٹھوس اور جامع منصوبۂ عمل موجود ہے۔ اسی کے تحت 2012 سے تدریب المعلمات کا آغاز کیا گیا، کیوں کہ اساتذہ کی تربیت کلیدی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے سب سے زیادہ اسی پر توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 2020 تک تمام جامعات میں ہر شعبے کی مضبوطی اور استحکام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں تحقیق پر ہماری خصوصی توجہ ہے۔ مسلمانوں نے تفکر و تدبر اور تحقیق کو چھوڑ دیا اور مغلوب ہوگئے۔ ہمارا مطمحِ نظر ان افراد کی تیاری ہے جو اس کو دوبارہ حاصل کرنے کی سعی کریں۔ اس سلسلے میں جامعات المحصنات پاکستان کی جانب سے اہم پیش رفت تحقیقی مجلہ کا اجراء ہے، جس میں طالبات و اساتذہ کے تحقیقی مقالے شامل ہیں اور یہ ایک بڑی کام یابی ہے۔
س: آپ کا پیغام؟
ج: معاشرہ ہمیشہ عورتوں سے پنپتا اور تشکیل پاتا ہے اور برائی اور بھلائی کی طرف بھی عورت کے ذریعے ہی جاتا ہے۔ پیغمبر بھی عورت ہی کے ذریعے اس دنیا میں آئے اور بڑے بڑے انسان بھی۔ لہٰذا ہماری لڑکیاں اور طالبات وہ مائیں بنیں جن کی گودوں میں علماء و اولیاء آئیں اور مستقبل کے مفکر، مفسر اور محدث بھی ان گودوں سے نکلیں۔ یہ ہمارا خواب بھی ہے اور کوشش بھی۔ ہمارا یہ پیغام بھی ہے کہ ایک لڑکی کی تعلیم اور تربیت نسلوں کو تیار کرنے کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا جو کھویا ہوا مقام ہے وہ واپس لانے کے لیے ہمارے ساتھ جامعات المحصنات میں اپنی بیٹی کو ضرور علم کے زیور سے آراستہ کروائیں۔ نہ تو ہم یہاں سے مال کما رہے ہیں نہ شہرت ہماری ضرورت ہے۔ ہماری ضرورت معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق چلانے کے لیے بہترین افراد تیار کرنا ہے، جو انبیاء کی میراث کے وارث ہوں۔ اس کے لیے ماں کی تربیت بہت اہم ہے۔ یہی ہمارا مشن ہے۔
nn