شبانہ کی اگلے مہینے شادی تھی، لہٰذا تمام کزن اور سہیلیاں اسے طرح طرح کے مشوروں سے نواز رہی تھیں۔ شبانہ نے سامنے بیٹھی اپنی کزن راحیلہ سے پوچھا کہ تم نے مجھے کوئی مشورہ نہیں دیا؟ اس کی 30 سالہ کزن نے ہنس کر کہا کہ یہ سب اپنے اپنے حالات اور تجربات کے مطابق تمہیں مشورے دے رہی ہیں، ضروری نہیں کہ ان کے مشورے تمہارے حالات کے مطابق فٹ بیٹھیں اور کام آئیں، لہٰذا صبر کرو، تمہارے سامنے جو حالات اور صورتِ حال ہو اُس کے مطابق عمل کرنا۔۔۔ مثلاً کسی نے تمہیں کہا کہ شوہر کو پہلے ہی دن سے قابو میں رکھنا، لیکن اگر وہ بندہ دوسرے مزاج کا ہو اور اُسے تمہارا یہ طریقہ پسند نہ آئے تو اختلافات جنم لیں گے۔ اس لیے پہلے تم سامنے والوں کو پرکھو اور دیکھو، پھر کوئی فیصلہ کرنا کہ تمہیں کیا طریقہ اپنانا ہے۔
مجھے اس بچی راحیلہ کی بات نے بڑا متاثر کیا اور یہ بات میں نے بھی اپنی گرہ میں باندھ لی۔
***
بندے کو زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہر بندے کا ان مسائل سے نمٹنے کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ بعض اوقات بندہ بہت پریشان ہوجاتا ہے اور عجلت میں معاملہ اور بھی بگاڑ دیتا ہے۔ لیکن اگر افہام و تفہیم سے بندہ کام لے تو گمبھیر مسائل سے بھی پُرسکون ہوکر نمٹ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنی بیٹی کا طریقہ کار مجھے بہت پسند ہے، اور اسے میں نے اپنایا بھی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو یا پریشانی، میری بیٹی کہتی ہے: مما اِس وقت اسے چھوڑ دیں۔ آرام اور سکون سے ہم دونوں مل کر اسے حل کرنے کی کوشش کریں گے، آپ ڈپریس نہ ہوں، ہمیں اس دوران اس مسئلے پر سوچنے کا موقع مل جائے گا اور اس طرح بہتر طریقے سے ہم اس سے نمٹ سکیں گے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ میں آرام سے سوچ سمجھ کر اس کے لیے قدم اٹھاتی ہوں اور الحمدللہ، اللہ کامیابی عطا کرتا ہے اور مدد کرتا ہے۔
***
میری ایک عادت ہے کہ کہیں بھی کسی بھی بندے سے، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا میری اولاد میں سے ہو، کچھ اچھا سیکھنے کا موقع ملتا ہے تو اسے بڑی فراخ دلی سے نہ صرف اپنا لیتی ہوں بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کرتی ہوں کہ یہ چیز میں نے اس سے سیکھی یا اسے دیکھ کر اپنائی ہے۔ مثلاً میں نے بہت سی سنتیں اور حدیثیں اپنے بیٹے فرحت سے سیکھی اور اپنائی ہیں، کیونکہ وہ مسجد میں عشاء کی نماز کے بعد درس سن کر آتا اور اسے گھر آکر سب سے شیئر کرتا، خصوصاً مجھ سے۔ اور میں اکثر کہتی ہوں کہ یہ سنت میں نے فرحت (بیٹے) سے سن کر اپنائی ہے۔
بندے کی یہ ایک اچھی اور بہترین خصلت ہے کہ وہ اچھی باتیں دوسروں سے سیکھے، اس کا اظہار بھی کرے اور اس بندے کو اس وجہ سے عزت اور پیار بھی دے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے قول کا مفہوم ہے کہ جو مجھے ایک لفظ بھی سکھائے وہ میرے لیے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی وہ عزت و توقیر کے لائق ہے۔
ہر بندے کے اطراف اچھے اور برے لوگ موجود ہیں۔ ان سے اگر اچھائیاں اپنانے اور سیکھنے کا موقع ملے تو ضرور سیکھیں۔ لوگ دوسروں سے غلط اور غیر شرعی، غیر اسلامی باتیں سنتے اور سیکھتے ہیں اور ان کی اندھی تقلید سے اپنے آپ کو معتبر سمجھتے ہیں۔ مثلاً شادی بیاہ وغیرہ کی فرسودہ اور بے ہودہ رسمیں جس میں صرف اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہوتا ہے۔ بحیثیت ایک مسلمان، ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ایسی سوچ، عمل، طریقہ لوگوں سے اپنائیں جو ہمارے معاشرے اور ہمارے اپنے لیے نہ صرف اِس دنیا میں کارآمد ثابت ہو بلکہ رب کی رضا کا باعث بھی بنے، اور پھر یہ بھی اعلیٰ ظرفی ہے کہ سامنے والے، جس سے یہ سیکھا، کے مشکور رہیں اور اسے عزت دیں، یعنی اگر کوئی آپ کو اچھی سوچ اور عمل سکھاتا ہے یا کسی موقع پر آپ کا ساتھ دیتا ہے، مدد کرتا ہے، یا آپ کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے، یا آپ کی ذہنی آسودگی کا ذریعہ بنتا ہے تو اُس کے اس حسنِ سلوک کی وجہ سے آپ اُس کا شکریہ ادا نہ بھی کریں تو کم از کم اس کا اظہار تو کرلیں کہ آپ کی وجہ سے میرا یہ کام بن گیا، وغیرہ۔ آپ کے یہ چند الفاظ اُس کے دل میں آپ کی عزت اور محبت پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ بعض لوگ اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ اُس چیز کو بیان کرنے میں بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ میں نے تمہاری بات یا تمہارا طریقہ اپنایا ہے۔ یہ تکبر اور غرور کی علامات میں سے ہے۔ خصوصاً لوگ اپنے چھوٹوں اور ماتحتوں وغیرہ کی کوئی اچھی بات اپنانے سے گریز کرتے ہیں، اگر اپنا بھی لیتے ہیں تو اظہار کرنا اپنی انا کا مسئلہ اور توہین سمجھتے ہیں۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر احسان کرنے والوں کے احسان کا بدلہ نہ بھی اتار سکو تو اس کا شکریہ ادا کرنا یا پھر اس کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ یہ عمل آپ کو چھوٹا نہیں کرتا بلکہ اور معتبر کرتا ہے۔ یعنی یہ عمل بھی حسنِ اخلاق و حسنِ سلوک میں شامل ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ آپ کا یہ عمل رشتوں، بندھنوں اور دوستیوں میں مزید پختگی اور محبتوں کا باعث بنتا ہے۔
میری بڑی بھابھی کی چھوٹی عمر میں شادی ہوگئی، لہٰذا انہیں میری والدہ اور بڑی بہن نے گھر، گھرداری، طور طریقے، کھانا بنانا وغیرہ سکھایا۔ آج بھی بھابھی اکثر و بیشتر سب کے سامنے اس چیز کا برملا اظہار کرنے سے نہیں ہچکچاتیں کہ یہ سب تو میں نے اپنی ساس اور بڑی نند سے سیکھا ہے۔ اُن کے اس طرح اظہار کرنے سے ہم سب کے دل میں اُن کی عزت، احترام اور محبت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی اس قسم کا عمل دوسروں کے لیے خوشی کا باعث بھی بنتا ہے۔
اس سلسلے میں دورانِ درس و تدریس مجھے اور میرے ساتھیوں کو پیش آنے والے واقعات آپ سے شیئر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جس سے مزید واضح ہوجائے گا کہ یہ بات کس طرح تعلقات میں محبت اور عزت کا ذریعہ بنتی ہے۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب شادی کے بعد میں نے اپنی تعلیم مکمل کرکے پہلی مرتبہ ایک اسکول جوائن کیا۔ ملازمت کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ بے شک میں ایک ذہین طالبہ رہی لیکن اس فیلڈ میں میرا تجربہ صفر تھا، سونے پہ سہاگہ مجھے میرے مضمون کے علاوہ ’’اردو‘‘ بھی پڑھانے کے لیے دیا گیا۔ اردو ہماری ’’قومی زبان‘‘ ہے لیکن بولنے اور پڑھانے میں بہت فرق ہے۔ خصوصاً سیکنڈری جماعتوں کے لیے استاد کا قواعد اور لغت پر عبور حاصل کرنا لازمی ہے، لہٰذا پوری محنت اور دلچسپی سے میں ’’سبق‘‘ کے لیے گھر سے تیاری کرکے صبح اسکول پہنچتی، اس کے باوجود ایک سینئر استانی (مسز رفیق، اللہ انہیں خوش رکھے) سے صبح آکر ضرور ڈسکس کرتی کہ آج کے سبق کے لیے میری یہ تیاری ہے۔ وہ مجھے سراہتیں، اور اگر کوئی کمی بیشی نظر آتی تو بڑی ایمان داری سے میری رہنمائی کرتیں اور تصحیح بھی کرتیں۔ اس طرح ہم دونوں کے درمیان ایک خوبصورت تعلق پیدا ہوگیا۔ میں انہیں اپنے ایک استاد کی طرح احترام و عزت سے نوازتی، جس کے جواب میں وہ بھی مجھے پیار اور عزت دیتیں۔ میں نے اُن کی اس بات کی تعریف سب کے سامنے بھی کی اور اُن کا اکثر شکریہ بھی ادا کرتی تھی۔ دوسرے کیمپس میں جانے کے بعد بھی جب اُن سے میٹنگ وغیرہ میں ملاقات ہوتی تو انہیں میں اپنے ایک استاد کی طرح عزت و احترام دیتی تھی۔ اور وہ بھی مجھے پیار و محبت دیتیں۔
***
شوہر کی کراچی میں ملازمت کے بعد مجھے پہلی مرتبہ اکیلا رہنا پڑا، ساتھ میں ملازمت، پھر بچے۔ ان سب سے انصاف کرنا ایک عورت کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ بہت سی مشکلات اور مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں اپنی چند کولیگز اور دوستوں کی رائے اور طریقوں کو اپنانے سے مجھے بڑی مدد ملی۔ مثلاً میری ایک کولیگ نے کہا کہ بڑھتی ہوئی عمر کے بچوں کے لیے بہت سارے اور قیمتی لباس بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ چند مہینوں کے بعد ہی ان کے لیے بیکار یعنی چھوٹے ہوجاتے ہیں جس سے بجٹ پر بوجھ پڑتا ہے۔ اسی طرح کسی نے کہا کہ رات میں کھانا اتنا زیادہ بنا لو کہ دوپہر میں گھر آکر پریشانی نہ ہو اور رات والا بچا ہوا کھانا کام آسکے (دوپہر کے لیے)۔ یہاں میں اپنی پرنسپل کا ذکر بھی ضرور کروں گی جن کی حوصلہ افزائی نے مجھے آگے بڑھنے میں مدد دی۔ اُن سے میں نے بہت کچھ سیکھا، میں نے ہی نہیں بلکہ ہم بہت سوں نے، اور ہم برملا اُن کے سامنے اس بات کا اظہار کرتے اور وہ خود بھی بلا جھجھک ہم سے کہتیں کہ آپ لوگوں میں سیکھنے کی قابلیت ہے اسی لیے آپ سب میری بہترین استانیاں ہیں۔ ہمارے درمیان یہ خوشگوار تعلق تھا جس کی وجہ سے ہم اکثر استانیاں ایک لمبے عرصے تک ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے اور بہترین تعلقات کے ساتھ کام کرتی رہیں۔
ہمارا تعلیمی ادارہ چونکہ ایک پرائیویٹ ادارہ تھا، اور پرائیویٹ اداروں کی کامیابی کی ضمانت ہی وہاں کے کارکنوں کی سخت محنت، خلوص اور افسرانِ بالا کے سخت اصول ہوتے ہیں، لہٰذا یہاں بھی یہی معاملہ تھا جس کی وجہ سے نئے بھرتی ہونے والے استاد جلد اکتا جاتے، بیزار ہوجاتے اور نالاں رہتے۔ مثلاً ایک مرتبہ ایک نئی استانی بھرتی ہوئی جو پہلے کسی چھوٹے اسکول میں کام کرچکی تھی۔ وہ یہاں کے طور طریقوں سے بیزار ہوگئی۔ ایک دن جب اسے معلوم ہوا کہ ہم میں سے کچھ استانیاں 18/17 سال سے یہاں کام کررہی ہیں تو بڑی حیران ہوئی کہ آپ کس طرح یہاں ٹک گئی ہیں! میں نے اُس کی بات سن کر کہا کہ آپ اس ادارے میں اپنے کام سے مخلص اور ایمان دار ہوجائیں تو نہ صرف آپ کا بھی یہاں ٹکنا آسان ہوجائے گا بلکہ یہاں آپ کی اس محنت اور کوشش کو سراہا جائے گا اور قدر کی جائے گی، پھر آپ کے لیے یہاں رہنا مشکل نہ لگے گا، اور تمام استانیاں آپ کی رہنمائی کریں گی۔ اس نے میری بات کو گرہ میں باندھ لیا اور اس ادارے میں عزت سے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ اکثر میرے سامنے اس بات کو دہراتی کہ آپ نے صحیح طریقے سے میری رہنمائی کی۔ اب بھی وہ مجھ سے کہیں ملتی ہے تو بڑی عزت دیتی ہے کہ مس میں نے اپنے پیشے کے سلسلے میں آپ سے بہت کچھ سیکھا جو مجھے آج بھی کام آرہا ہے۔
لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ آپ اُن کے ساتھ کیسی بھی بھلائی کریں، اچھا برتاؤ کریں، وہ کبھی خوشی کا اظہار نہیں کرتے۔ احسان ماننا تو دور کی بات، وہ آپ کی بات اور عمل سے ’’کیڑے‘‘ نکالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں چاہے آپ کے ’’اس عمل‘‘ کی وجہ سے انہیں کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچا ہو۔
میری ایک ’’دوست‘‘ نے جو دوسرے اسکول میں پڑھاتی تھی، مجھے یہ بات بتائی کہ میں نہم اور دہم کلاس کو پڑھاتی تھی، مجھے بچوں کو دینے کے لیے نوٹس بنانے پڑھتے جن کے لیے میں مختلف کتابوں، اور نیٹ سے مدد لیتی جس کے لیے مجھے خاصا وقت درکار ہوتا، خیر میں بڑی محنت سے اپنا کام کرتی، نہم اور دہم کے دوسرے سیکشن کو پڑھانے والی مس فائزہ مجھ سے میرے نوٹس لے کر اپنی کلاس میں لکھواتی اور اپنے طالب علموں سے کہتی کہ یہ میرے تیار کیے ہوئے نوٹس ہیں، دوسری استانیاں بھی مجھ سے لیتی ہیں (یہ بات ان کی کلاس کے بچوں نے مجھے بتائی)۔ یہیں تک بات محدود رہتی تو درگزر کرلی جاتی، لیکن جب بھی وہ مجھے نوٹس لوٹانے لگتی، یہ ضرور کہتی کہ نوٹس۔۔۔ زیادہ اچھے نہیں ہیں، یوں لگتا ہے کہ کوئی کمی رہ گئی ہے۔ میں مروت میں اسے کچھ نہ کہتی جبکہ میرا دل بڑا دُکھتا تھا اور کبھی تو بڑا غصہ آتا اور سوچتی کہ اسے نوٹس نہ دوں۔ ایک دن مجھے میری کولیگز نے کہا کہ یہ تمہارے حسنِ اخلاق اور مروت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے، ایسے احسان فراموش بندے کی مدد کرنا فضول ہے جو الٹا آپ کو سب کے سامنے بے عزت کرے اور آپ کے کام میں کیڑے نکالے۔ لہٰذا ایک دن میں نے دل پر جبر کرکے کہا ’’بی بی اگر میرے نوٹس صحیح نہیں ہیں تو تم خود محنت کرو اور نوٹس بناؤ، اور ہوسکے تو کبھی کبھار مجھے بھی دینا۔‘‘
یہ بھی کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بجائے سراہنے یا تعریف کرنے کے، اعتراضات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں جس کی وجہ سے سامنے والے بندے کا دل نہ صرف دُکھتا ہے بلکہ وہ آپ سے دور بھی ہوجاتا ہے۔ تعلقات میں بدمزگی اور دوری آجاتی ہے۔
ایک خاتون نے اس سلسلے میں بتایا کہ میرے شوہر کی یہ عادت ہے کہ میرے ہر کام، ہر فیصلے، ہر بات میں کیڑے نکالیں اور اعتراض کریں، حالانکہ دل میں اُن کے یہ احساس ہوتا بھی ہو کہ میری بیوی صحیح ہے، لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ جب بعد میں اس بات کے مفید اور صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں اور لوگ تعریف کرتے ہیں تو اُس وقت بھی وہ بڑی ڈھٹائی سے تمام کریڈٹ اپنے سر لے لیتے ہیں اور میں دیکھتی رہ جاتی ہوں کہ اب اسے میں کیا کہوں۔ آج تک اس بندے نے یہ اعتراف نہیں کیا کہ میرے فیصلے یا میرے طریقۂ عمل یا میری سوچ کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔ بلکہ ہر دوسرے عمل پر پہلے والے عمل سے بھی زیادہ اعتراضات کی بارش ہوجاتی ہے، جس سے نہ صرف دل دُکھتا ہے بلکہ اکثر جی چاہتا ہے کہ کسی بات میں حصہ نہ لوں۔
***
حاصلِ بحث یہ ہے کہ زندگی میں صرف والدین، اساتذہ کرام اور بزرگ ہی زندگی کے اسرار و رموزسکھانے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اگر کہیں بھی کسی سے بھی چاہے ماتحت ہوں یا چھوٹے بڑے ہوں، ان میں کوئی اچھا عمل، کوئی اچھی سوچ، کوئی اچھا طور طریقہ ہو تو اسے اپنانے اور عمل کرنے میں نہ جھجھکیں، اس سے یقیناًآپ کو فائدہ ہی پہنچے گا، اور اگلی بات یہ کہ سامنے والے کے روبرو اس کا اظہار بھی کریں یا انہیں عزت اور حسنِ سلوک سے نوازیں کہ آپ کے ذریعے ہم تک یہ اچھی بات پہنچی۔ اس طرح تعلقات میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ لوگ نہ صرف خوش دلی سے آپ کو آگے بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے، بلکہ آپ کی اس اعلیٰ ظرفی کو قدر اور عزت کی نگاہ سے بھی دیکھیں گے۔
nn