قانون کا خوف اور معاشرتی اقدار کی پابندیاں انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہیں، لیکن معاشرتی اقدار اور قانون ملکوں، شہروں اور فاصلوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ ہر انسانی معاشرے میں غلط اور صحیح کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں اور اُن کی مختلف درجے کی حساسیت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی معاشرے میں خواتین کا، اسکرٹ پہننا عام سی بات ہے اور کسی معاشرے میں عورت کا ناخن تک نظر آنا بہت خاص سمجھا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں عورت پر معاشی ذمہ داری لازمی ہوتی ہے اور اسے اچھا سمجھا جاتا ہے، لیکن کسی معاشرے میں عورت پر معاشی ذمہ داری بالکل نہیں ہوتی، بلکہ عورت کا معاش کمانا بُرا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے قریبی ممالک میں چین، تھائی لینڈ، فلپائن، سعودی عرب اور کچھ وسط ایشیائی ممالک کا اس معاملے میں تضاد بڑی مثال ہے۔
یہی معاملہ قانون کا ہے، مثلاً امریکا نے اپنی سرزمین پر موجود جیلوں میں بند قیدیوں کو جو قانونی حقوق دئیے ہیں وہ قانونی حقوق کیوبا میں موجود گوانتاناموبے کی جیل میں بند قیدیوں کو حاصل نہیں ہیں، حالانکہ ان دونوں جہگوں کی جیلیں امریکا کی بنائی ہوئی ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ قانون، رسم ورواج اور قانون پر عملدرآمد ملکوں، قوموں اور فاصلوں اور سرحدوں کی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
بعض اچھائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ہر معاشرے میں اچھی سمجھی جاتی ہیں، اسی طرح بعض برائیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہر معاشرے میں بُری سمجھی جاتی ہیں۔ ممکن ہے ان پر عمل کی کیفیت مختلف ہو اور ان کے بارے میں حسّاسیت کم یا زیادہ ہو، مثلاً جھوٹ ہر معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا ہے اوردیانت داری ہر معاشرے میں پسندیدہ ہے، جب کہ مسلمان معاشرے کے تمام اچھے اعمال دینِ اسلام کا حصہ ہیں۔ لہٰذا سچ بولنا، سچ پر قائم رہنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ سچ پر قائم رہنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو برداشت کرنے پر آخرت میں اچھے صلے کی امید بہت بڑا سہارا ہے۔
آخرت میں جواب دہی کا احساس انسان کو سیدھا رکھنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ آخرت میں حاضری مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ جب کہ دیگر مذاہب میں بھی اس کا تصور پایا جاتا ہے۔ آخرت میں جواب دہی کا خوف ایسا احساس ہے جس کی شدت اور حساسیت پر رسم ورواج، قانون، حالات اور فاصلوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
جسے آخرت میں جواب دینے کا احساس ہوگا اُسے کوئی پولیس والا نہ بھی دیکھ رہا ہو تب بھی وہ غلط کام کرنے سے باز رہے گا۔ آخرت میں جواب دینے سے ڈرنے والا امریکا میں بھی غلط کام سے باز رہے گا اور پاکستان میں بھی غلط کام سے بچے گا۔ وہ دن کی روشنی میں بھی غلط کام نہیں کرے گا اور گھپ اندھیرے میں بھی غلط کام کرنے سے دور رہے گا۔ زمین پر بھی وہ گناہ سے بچے گا اور آسمانوں میں بھی وہ بُرائی سے الگ رہے گا، اور تہہ خانوں میں بھی آخرت کی جواب دہی کا احساس اُسے غلط کاموں سے دور رکھے گا۔
جھوٹ سے بچنے کا بھی سب سے کارگر نسخہ آخرت کی جواب دہی کا احساس ہے۔ سب سے پہلے ہمیں آخرت میں اللہ کے حضور حاضری اور جواب دہی کا احساس اپنے اندر پیدا اور تازہ رکھنا چاہیے۔ یہ احساس جس قدر پختہ ہوگا اور جتنا زیادہ ہمارے دل ودماغ میں بسا رہے گا اُتنا ہی ہم جھوٹ سے بچیں گے۔ جھوٹے پر اللہ نے اپنی لعنت بھیجی ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن میں پیدائشی طور پر ساری خصلتیں ہوسکتی ہیں (خواہ وہ اچھی ہوں یا بُری) البتہ خیانت اور جھوٹ کی عادت نہیں ہوسکتی۔
جھوٹ اور آخرت کی فکر ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا آخرت کو دل میں بسا لیں، جھوٹ خودبخود آپ کے اندر سے نکل جائے گا۔ اس کے ساتھ اگر آپ چاہیں تو چند ایک تدابیر اور بھی کی جاسکتی ہیں۔
سب سے پہلے نظری اعتبار سے جھوٹ کو بُرا سمجھیں۔ آپ کو اپنے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ جھوٹ گناہ ہے، جھوٹ بولنے سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے ہیں اورجھوٹ دُنیاوی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
جھوٹ کو چھوڑنے کا ارادہ کریں۔۔۔ جھوٹ ہی پر کیا موقوف، دُنیا کا کوئی بھی کام ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جھوٹ چھوڑنے کا ارادہ کریں اور اپنے ارادے پر استقامت سے جم جائیں۔ ارادے پر جم جانا اور مسلسل جدوجہد کرنا ایسا بابرکت کام ہے کہ اس کو کرنے والوں کی مدد کے لیے اللہ آسمان سے ملائکہ کو بھیجتا ہے۔
اپنے ہر دن کا آغاز کرتے ہوئے عزم کریں کہ میں آج جھوٹ نہیں بولوں گا، میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اور ’میں آج جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں زیادہ آسان ہدف ’کبھی نہیں‘ کے بجائے ’آج نہیں‘ کا نظر آتا ہے، لہٰذا اپنے لیے چھوٹا ہدف مقرر کریں۔ ایک دن ہدف کا پورا کرلینا اگلے دن کی ہمت بھی دیتا ہے۔ لہٰذا صبح بستر چھوڑنے سے پہلے جھوٹ نہ بولنے کا ہدف مقرر کریں اور رات بستر پر لیٹنے کے بعد اپنے ہدف کے پورا ہونے اور اپنی کوشش کا جائزہ لیں، اپنے بستر کے سامنے لکھ کر لگالیں ’’مومن کا آنے والا پَل گزرے پَل سے بہتر ہونا چاہیے‘‘۔
جینز یعنی ورثے میں ملی عادات کے بعد صحبت انسان پر سب سے زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ مشہور مثالیں ہیں کہ ’’انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘، ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘، اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘۔ اس کُلیے کے مطابق اگر آپ دین دار اور سچوں کی صحبت اختیار کریں گے تو آپ میں سچائی پیدا بھی ہوگی اور نشوونما بھی پائے گی۔ صحبت اختیار کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیں، کیوں کہ کسی بھی جانب پہلا قدم اُٹھانا آپ کے اختیار میں ہوتا ہے، اس کے بعد آپ کا ہر اگلا قدم آپ کے اختیار میں کمی کرتا جاتا ہے۔ مثلاً یہ آسان ہے کہ ہم ٹی وی نہ دیکھیں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم ٹی وی دیکھیں اور لغویات سے بچے رہیں۔ جو لوگ ٹی وی پر مثبت چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں اُن کی نگاہ بھی لمحوں کے لیے ہی سہی، غلط پر پڑجاتی ہے۔ اسی طرح یہ تو ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو ٹچ موبائل نہ دیں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ٹچ موبائل دے کر اُس کے استعمال کی نگرانی کرسکیں۔ یہ ممکن ہے کہ ہم سگریٹ پینا شروع نہ کریں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم ساری زندگی دن میں صرف ایک سگریٹ ہی پیتے رہیں۔ لہٰذا اگر آپ جھوٹ سے بچنا چاہتے ہیں تو جھوٹوں کی صحبت سے بہت دور رہیں جھوٹوں کی صحبت میں بیٹھ کر جھوٹ نہ بولنا ناممکن ہے۔
جھوٹ سے بچنے کے لیے قریبی لوگوں سے مدد لیں۔ آپ کے ماں باپ اور دوست جھوٹ چھڑوانے میں آپ کی بہت مدد کرسکتے ہیں، لہٰذا ان سے ضرور مدد لیں۔
جھوٹ چھوڑنے کے لیے ڈاکٹر، استاد، مربی سے مدد لینا نہایت مؤثر ہوسکتا ہے۔ مغربی دُنیا میں ایسے ماہرین موجود ہیں جو آپ کے اندر اُتر کر آپ کی عادات، احساسات اورجذبات کو بدل سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اب کچھ ڈاکٹر یہ کام کررہے ہیں۔ اگر آپ کا دل ٹُھکتا ہو تو اس شعبے کے کسی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں۔ لیکن ڈاکٹر کے پاس جانا پیسے کا خرچ مانگتا ہے، جب کہ الحمدللہ ہمارے معاشرے میں ایسے دین دار لوگ بھی جابہ جا موجود ہیں جو اسپیچ تھراپی یا وعظ و نصحیت سے جھوٹ چھوڑنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا اور اس رابطے کو جاری رکھنا جھوٹ چھوڑنے میں آپ کا بہت مددگار ہوسکتا ہے۔
بڑبولوں سے دور رہیں، بڑھکیں مارنے کا شوق جھوٹ اور سچ کی تمیز کو ختم کردیتا ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی باتیں کرنے والوں سے، ڈینگیں مارنے والوں سے دور رہیں۔ بڑبولے بلاضرورت بغیر کسی مقصد، بغیر کسی مفاد کے جھوٹ بولتے ہیں۔
کم بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ کم بات کرنا ممکن ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ زیادہ بولا جائے اور غلط بولنے سے بچا جاسکے۔ لہٰذا جب بولنا ضروری ہو اُس وقت خاموش نہ رہیں، لیکن جب بولنا ضروری نہ ہو اُس وقت خاموش رہنا بہت اچھا ہے۔ اکثر اوقات کم بولنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان زیادہ بولنے سے ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے تقربیاً تمام ہی لوگ زیادہ بولنے کے بھی عادی ہوتے ہیں۔
جھوٹ بولنے کے اسباب سے بچیں۔ مثلاً اگر آپ چھپ کر سگریٹ پیتے ہیں اور کسی بڑے کے پوچھنے پر سگریٹ پینے سے انکار کردیتے ہیں، یا آپ اسکول جانے کے بجائے پارک میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ میں بلاناغہ اسکول جاتا ہوں، ایسے کام کرنے سے بچیں جن کی وجہ سے آپ کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔
غلطی چھپانے کے لیے بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا غلطی کا اعتراف کرنا سیکھیں۔ مثل مشہور ہے کہ انسان غلطی کا پُتلا ہے۔ غلطی کرنا اتنا بُرا نہیں جتنا اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا بُرا ہے۔ پھر ایک غلطی کو چھپانے کے لیے ایک نہیں بہت سارے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، جب کہ غلطی کا اعتراف کرنے کے لیے صرف ایک سچ ہی کافی ہوتا ہے۔
جھوٹ کے نتیجے میں اپنی زندگی میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرتے رہیں، اسی طرح سچ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا حساب بھی جوڑتے رہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جھوٹ سے ہونے والے نقصانات کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے گا۔
اپنے پچھلے جھوٹ پر اللہ سے معافی مانگیں۔ توبہ میں اللہ نے ایک خاص قوت رکھی ہے، جو بندہ اپنے سابقہ گناہوں پر نادم ہوکر اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے، اللہ نہ صرف اپنے اس بندے کے سابقہ گناہ معاف کرتے ہیں ساتھ ہی اُسے اپنی رحمت کی ڈھال بھی عطا فرماتے ہیں جو اُسے آئندہ گناہ سے بچا کر رکھتی ہے۔ لہٰذا اب تک جو جھوٹ بولا جاچکا ہے اُس پر دل سے اللہ سے مغفرت مانگیں۔ وہ ستارالعیوب ہیں، وہ معاف بھی کرتے ہیں اور پردہ بھی ڈالتے ہیں۔
بلاشبہ جو تھوڑا یا بہت خیر ہمارے اندر ہے وہ اللہ ہی کی عطا و توفیق کا نتیجہ ہے۔
nn