قاضی صیب (قسط-8)۔

441

’’میر ی بات پر ان کی ہنسی نکل گئی

ممتاز کالم نگار جاوید چودھری نے ان کی وفات پر اپنے منفرد اسلوب میں کچھ سوال اٹھائے تھے۔ ’’مجھے قاضی حسین احمد کو قریب سے دیکھنے کا موقع 2003ء میں ملا، میں ان دنوں ’’سیلف میڈ‘‘ کے نام سے دستاویزی فلمیں بنا رہا تھا، ہم نے ملک سے ایسے 38 لوگ منتخب کیے جن کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا مگر یہ نامساعد حالات کے باوجود آگے بھی آئے اور یہ اپنے اپنے شعبے کے لیڈر بھی بن گئے، ہم اس شخصیت کو اس کی جائے پیدائش پر لے کر جاتے تھے اور یہ وہاں سے جہاں جہاں گیا، جہاں جہاں رہا اور اس نے جہاں جہاں کام کیا ہم اسے وہاں ٹریول کراتے تھے، اس کی شوٹنگ بھی ہوتی تھی اور اس کی آواز میں اس کی کہانی بھی ریکارڈ کی جاتی تھی، یہ مہنگا اور بڑا منصوبہ تھا۔ میرے پاس سرمایہ بھی کم تھا اور تجربہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ یہ منصوبہ راستے ہی میں دم توڑ گیا۔ یہ میری ساری جمع پونجی بھی کھا گیا۔ قاضی حسین احمد بھی ان 38 لیڈنگ پاکستانیوں میں شامل تھے۔ ہم نے قاضی صاحب کے آبائی گاؤں زیارت کاکا صاحب میں تین شوٹنگز کیں۔ ایک شوٹنگ میں قاضی صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم نے منصورہ میں بھی شوٹنگ کی اور اسلام آباد میں ان کے آفس کم گھر میں بھی۔ ہماری ٹیم میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ یہ خاتون شکل و شباہت اور لباس سے انگریز لگتی تھی لیکن یہ خالصتاً پنجابی تھی، ہم ریکارڈنگ کے لیے منصورہ گئے۔ قاضی صاحب کے سامنے کیمرے لگائے لیکن ریکارڈنگ سے قبل قاضی صاحب اٹھ کر اپنی سٹڈی میں چلے گئے۔ ہم لوگ پریشان ہو گئے کیونکہ اس چھوٹی سی ریکارڈنگ پر ہمارا ٹھیک ٹھاک سرمایہ لگا ہوا تھا۔ میں قاضی صاحب کو منانے اندر گیا، قاضی صاحب ناراض بیٹھے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو وہ ناراض لہجے میں بولے ’’آپ اپنے ساتھ ایسی انگریز عورت کو لے آئے ہیں جسے لباس تک پہننے کی تمیز نہیں‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کون سی انگریز عورت اور کون سا لباس‘‘ قاضی حسین صاحب نے فرمایا ’’ وہ نوجوان لڑکی جو آپ کے ساتھ ہے، اس کے بازو ننگے ہیں، مجھے اسے دیکھ کر شرم آ رہی ہے۔‘‘ میں نے بڑی مشکل سے ہنسی ضبط کی اور قاضی صاحب کو بتایا ’’یہ لڑکی انگریز نہیں خالص پنجابی ہے۔‘‘ قاضی صاحب مزید ناراض ہو گئے اور انھوں نے فرمایا ’’پھر اسے شرم آنی چاہیے یہ کس قسم کا لباس پہن کر منصوبرہ آ گئی۔‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’قاضی صاحب یہ لڑکی پچھلے ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ پھر رہی ہے لیکن ہم میں سے کسی نے نوٹ نہیں کیا اس کے بازو ننگے ہیں مگر آپ ایک ہی نظر میں برائی کی جڑ تک پہنچ گئے، میں آپ کی باریک بینی کی داد دیتا ہوں۔‘‘ قاضی صاحب نہایت سنجیدہ انسان تھے لیکن میری بات پر ان کی ہنسی نکل گئی، انھوں نے علامہ اقبال کا ایک غیر معروف سا شعر پڑھا۔ مجھے وہ شعر تو یاد نہیں مگر اس کا لب لباب ابھی تک ذہن میں ہے۔ اس شعر کا مطلب تھا نگاہ مرد مومن سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہ سکتی، قاضی صاحب نے اس کے بعد اپنے گھر سے چادر منگوائی، ہم نے وہ چادر خاتون کو دی، خاتون نے اس چادر کی بکل ماری اور قاضی صاحب اس کے بعد ریکارڈنگ کے لیے باہر آئے۔ یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ تھا لیکن اس واقعے میں میری نسل کے لیے بے شمار سبق چھپے ہیں، یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے انسان کو اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنے اصولوں پر شرمندہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور حالات کسی بھی قسم کے ہوں آپ کو اپنی بات منوانی چاہیے۔
ہم لوگ زیارت کاکا صاحب کے اس چھوٹے سے گھر میں بھی گئے جہاں قاضی حسین احمد پیدا ہوئے تھے۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا پرانا گھر تھا۔ ہم نے ان چھوٹی چھوٹی گلیوں کی شوٹنگ بھی کی جن میں قاضی صاحب کا بچپن گزرا تھا اور ہم نے اس قدیم مسجد کے شارٹس بھی لیے جس میں قاضی صاحب نعتیں پڑھتے تھے۔ ہم پشاور میں ان کے اس گھر بھی گئے جہاں ان کی جوانی گزری اور ہم نے ان جگہوں کے شارٹس بھی لیے جہاں قاضی صاحب کا چھوٹا سا میڈیکل سٹور ہوتا تھا۔ یہ ناکام منصوبہ اور اس منصوبے کی ناکام شوٹنگ قاضی صاحب اور میرے درمیان تعلق کا مضبوط ذریعہ بن گئی۔ میں جب بھی قاضی صاحب سے ملتا۔ قاضی صاحب اس ڈاکومنٹری کا ذکر کرتے، ہماری محنت کی تعریف کرتے اور لوگوں کو بتاتے۔ اس نے چھوٹے چھوٹے شارٹ کے لیے بڑی محنت کی، یہ دس دس بار سائیٹس پر گیا اور میں نے کسی کو اتنی محنت کرتے نہیں دیکھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ اپنی محفلوں میں بھی اس ڈاکومنٹری کا ذکر کرتے تھے۔ میں پچھلے دس برسوں میں اس کا ناکام پراجیکٹ کو بھول گیا مگر قاضی صاحب نہیں بھولے، وہ 2012ء کے آخر تک اس کا ذکر کرتے رہے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا، انسان اپنی بڑی بڑی عادتوں سے بڑا نہیں ہوتا، یہ چھوٹے چھوٹے واقعات پر اپنے بڑے پن سے بڑا بنتا ہے اور قاضی کا دل اس معاملے میں واقعی بہت بڑا تھا۔
اقتدار کے قریب پہنچ کر جماعت کی ہنسی کیوں نکل جاتی ہے
قاضی حسین احمد آج ہم میں نہیں ہیں۔ لیکن ان کی اچھائیاں ہمیشہ قائم رہیں گی، ہم سب انسان عارضی ہیں، ہم موسیٰ ہوں یا فرعون، ہم بادشاہ ہوں یا غلام اور ہم کامیاب ہوں یا ناکام، ہم سب اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس دنیا کو خدائی کا دعویٰ کرنے والا فرعون بھی چھوڑ جاتا ہے اور سچے خدا کی سچائی ثابت کرنے والے حضرت موسیٰؑ بھی لیکن ہمارا کنٹری بیوشن، ہماری خدمات دنیا میں مدت تک زندہ رہتی ہیں، فرعون مر گیا لیکن فرعونیت ہمیشہ قائم رہے گی اور کوئی فانی شخص جب بھی غیر فانی دعوے کرے گا فرعونیت کا تاج خودبخود اس کے سرپر رکھ دیا جائے گا۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن کلیمی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا میں رہ گئی، دنیا کا کوئی شخص جب بھی بے سروسامانی کے باوجود فرعون وقت کے سامنے کلمہ حق کہے گا، حضرت موسیٰؑ کا عصا خود بخود اس کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اسی طرح یزید بھی دنیا سے چلا گیا اور حضرت امام حسینؓ بھی شہادت پا گئے۔ لیکن جب بھی آمر وقت کے سامنے کوئی کھڑا ہو گا لوگ اس کا نام بے اختیار شبیری فہرست میں درج کر دیں گے اور جب بھی کوئی شخص اقتدار کے نشے میں مظلوموں کے خیموں کا محاصرہ کرے گا لوگ اسے شمر، ابن زیاد اور یزیدی ضرور قرار دیں گے۔ یہ وہ کنٹری بیوشن ہے جو ہمارے مرنے کے بعد بھی قائم ہے اور قائم رہے گا۔ قاضی حسین احمد کا کنٹری بیوشن بھی زیارت کاکا صاحب کے قبرستان سے باہر مدت تک زندہ رہے گا۔ یہ جماعت اسلامی کو مدارس اور مساجد سے نکال کر اس دوراہے پر لے آئے جہاں سے سیاست اور مدرسہ دونوں ایک ایک ہاتھ کے فاصلے پر ہیں۔ قاضی صاحب نے موسیقی، ادب، فلم اور تھیٹر کو حلال قرار نہیں دیا تو انھوں نے اسے حرام بھی نہیں رہنے دیا۔ یہ اسے کھینچ کر جماعت اسلامی کے قریب لے آئے یا پھر جماعت اسلامی کو دھکیل کر اس کے قریب لے گئے۔ قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کی سیاسی کنفیوژن دور کرنے میں بھی اہم کردار اداکیا۔ جماعت اقتدار چاہتی تھی لیکن اقتدار کے قریب پہنچ کر اس کی ہنسی نکل جاتی تھی۔ مگر قاضی صاحب نے یہ کنفیوژن دور کر دی۔
مقبولیت کی انتہا پر بھی سادگی
پانچ سال تک صوبہ سرحد (خیبرپختوانخواہ) میں ایم ایم اے کے ساتھ اقتدار میں رہی، قاضی صاحب نے اقتداری سیاست کے ساتھ ساتھ اقداری سیاست بھی کی۔ انھوں نے 2007ء میں الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو یہ اس پر قائم بھی رہے۔ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی طرح اپنے وعدے سے منحرف نہیں ہوئے، قاضی صاحب اکثر کہتے تھے چودھری نثار علی اور جاوید ہاشمی نے 2007ء میں اعلان کیا تھا اگر میاں نواز شریف نے بائیکاٹ کا وعدہ توڑا تو ہم پارٹی چھوڑ دیں گے۔ یہ اپنا وعدہ پورا کریں، قاضی صاحب ملک کے ان چند لیڈروں میں بھی شمار ہوتے تھے جنھوں نے مقبولیت کی انتہا پر پہنچ بھی سادگی نہیں چھوڑی۔ یہ پوری زندگی منصورہ کے دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہے، یہ پشتون تھے اور پشتونوں کے بارے میں کہا جاتا ہے، یہ اگر ولی بھی ہوں تو بھی یہ ہوائی فائرنگ سے باز نہیں رہ سکتے۔ قاضی صاحب بھی جلد ناراض ہو جاتے تھے لیکن یہ اس سے کہیں جلدی راضی بھی ہو جاتے تھے۔ ان کے اندر بچوں جیسی سادگی اور بزرگوں جیسی شفقت تھی اور اس کے استعمال کا ڈھنگ بھی جانتے تھے۔ یہ اختلاف کو دشمنی اور دشمنی کو خاندانی دشمنی نہیں بننے دیتے تھے۔ یہ کڑی سے کڑی مخالفت کے باوجود مخالفوں کی شادی غمی میں شریک ہوتے تھے اور انھیں اپنی اخلاقی مدد کا تعین بھی دلاتے تھے اور یہ ان کی وہ عادتیں تھیں جو مرنے کے بعد بھی ان کی یاد کو زندہ رکھیں گی۔ قاضی چلے گئے لیکن ان کی شفقت اور ان کی کلمہ گوئی کی عادت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ یہ کبھی نہیں مرے گی کیونکہ مرتے صرف لوگ ہیں، ان کی اچھی عادتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور قاضی صاحب کی عادتیں انھیں ہماری ذات میں ہمیشہ قائم رکھیں گی۔

 

حصہ