کہتے ہیں کہ حادثات زندگی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں تو لگتا ہے کہ جیسے حادثات کے درمیان کا وقفہ ہی زندگی ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ گنجان آبادی والا شہر بھی ہے۔ ہمارا یہ شہر روشنیوں کا شہر کہلانے کے ساتھ اب حادثات کی آماجگاہ بھی کہلانے لگا ہے۔ یہاں آئے دن بہت سے واقعات ہماری سماعتوں سے یا کبھی کبھار ہماری نظروں سے بھی گزرتے ہیں ۔۔کبھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ، کبھی ڈکیتی یا چوری کی واردات، توکبھی کوئی ٹریفک حادثہ۔
کچھ دن پہلے یونیورسٹی روڈ پر بس الٹ گئی تھی جسکے نتیجے میں4افراد جاں بحق اور 11افراد زخمی ہو گئے۔۔ ڈی آئی جی ٹریفک نے اس حادثے کو ڈرائیور کی غفلت اور تیز رفتاری کا نتیجہ بتایا ، اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح لوگوں کو بھر لیا جاتا ہے تو یہ اوور لوڈنگ بھی حادثات کا باعث بنتی ہے۔
ناں یہ کوئی پہلا حادثہ تھا ناں ہی اس کے بعد حادثات تھم گئے بلکہ آج دوپہر کراچی کے علاقے قیوم آباد میں ایک کنٹینر فٹ پاتھ پر کھڑے مسافروں پر الٹنے کے باعث ایک خاتون سمیت تین افراد کی ہلاکت ہوئی۔۔ اب یہ کنٹینر کا معاملہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ شہری حدود میں مال بردار گاڑیوں، ٹرالرز، ڈمپرز، ٹرک وغیرہ کے داخلوں کے اوقات مقرر ہیں جن کی پابندی نہ ٹرانسپورٹرز کرتے ہیں، نہ متعلقہ اداروں کی طرف سے مانیٹرنگ پر توجہ دی جاتی ہے۔اور یہ دیو قامت کنٹینر دن کے اوقات میں بھی شہر میں کھلے عام گردش کرتے ہیں، تو اگر ایسے میں کوئی حادثہ در پیش آجائے تو ذمہ دار کون ہوگا؟
وہ ڈرائیور جو تنخواہوں کے عوض کنٹینر چلا رہے ہیں۔ وہ مالکان جو اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے ٹریفک قوانین کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں یا پھر ہماری ٹریفک پولیس جو دن کے اوقات میں بھی ان کنٹینروں کو شہر میں چلنے دیتے ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائیں ملنا نا ملنا ایک الگ موضوع ہے لیکن جو ان حادثات میں جان سے جاتے ہیں اُنکے خاندان اور جولوگ بد قسمتی سے ان حادثات میں زندہ بچ جاتے ہیں وہ کیسے اپنی ساری زندگی معذوری میں گزار دیتے ہیں ان کی اذیت کو سمجھنا تو دورکی بات بلکہ یہ ذمہ داران محسوس بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ تو ہر حادثے کے بعد ایک ایف آئی آردرج کرتے ہیں۔ کچھ گرفتاریاں عمل میں لاتے ہیں،پھرایک کمیٹی بناتے ہیں اور کیس کی فائل کو سالوں سال گرد میں اٹنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ قوانین پر عمل درآمد ہمارے ہاں کا شیوہ نہیں تو اس طرح حادثات کی وجوہات قائم رہتی ہیں اورمسائل اپنی جگہ جوں کے توں رہتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 60فیصد سے زائد ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، شاہراہوں پر قائم مختلف چوراہوں پر 38 لاکھ گاڑیوں کی نقل و حرکت کو سنبھالنے کے لیے صرف 3 ہزار 200 ٹریفک پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔شہر میں اوسطاً ایک ٹریفک پولیس اہلکار کو 1031 گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، جن میں سے 54.87 فیصد موٹر سائیکلیں ، گاڑیاں 32.6 فیصد اور رکشہ 5.5 فیصد ہوتے ہیں۔کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میں یومیہ 908 گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔ سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، کورنگی انڈسٹریل ایریا، مین کورنگی روڈ، شارع فیصل اور ماڑی پور روڈ پر سب سے زیادہ حادثات ہوئے ہیں اسی لیے ان علاقوں کو ’’بلیک اسپاٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔
آپ کبھی کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کی حالت زار دیکھیں تو کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے کیونکہ ٹریفک کے اس اژدھام میں کنٹینر، بسیں، کاریں،رکشے اور ایک بڑی تعداد میں موٹر سائیکلیں کس طرح ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں لگی ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے کسی کو اپنی اور دوسروں کی جان کی پرواہ نہیں بس جلدی کہیں پہنچنے کی فکر ہے اور ان ہی وجوہات کی بناء پر ایسے حادثات آئے دن خبروں کا حصہ بنتے رہتے ہیں اور اب تو لگتا ہے کہ ہم ان سب حادثات و واقعات کے عادی ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی خدارڈرائیور حضرات اپنی اور سڑک پر چلتے مسافروں کی زندگی کا کچھ خیال کریں اور ایسے حادثات کی وجہ نا بنیں۔
nn