(پچھتاوا(کرن مجاہد

392

کتنے ماہ وسال گزرنے کے بعد میں جو لوگوں کے سامنے خوش باش، مضبوط ارادں کی مالک آج جب تنہا گوشۂ عافیت میں بیٹھی تو برداشت کے تمام پل ٹوٹ گئے اور ندامت، یاس و فریاد کے آنسو بند توڑ کر بہہ نکلے اور ماضی کی یادوں کے دھاروں میں بہہ نکلی۔ وہاں خوش باش، زندہ دل، بے فکر، بے پروا، کھلنڈری لڑکی جو ماں باپ کی شفقتیں اور لاڈ کے سائے تلے بہن بھائیوں کی محبتوں کے جھولے میں جھولتی حِرا نظر آئی۔ ہر محفل کی جان زندہ دل ’’حرا‘‘۔
جب لڑکپن کی راہداری سے گزر کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ماں باپ نے ماموں زاد سے منسوب کردیا۔ مشرقی لڑکی تھی، لہٰذا ہر سوچ اور آنے والی زندگی کا محور ’’حارث‘‘ بن گیا۔ شادی ہوئی، ازدواجی زندگی کے شروع کے اوائل بھرپور اور فکروغم سے آزاد گزرے۔ حارث بہت محبت کرنے والا تھا، اللہ نے جلد ہی دو خوب صورت پھول ہماری جھولی میں ڈال دیے غرض کہ زندگی بہت خوش و خرم گزر رہی تھی۔
ایک دور آیا کہ جس نے ہماری زندگی کو بدل ڈالا، لیکن ہم نے اس بات پر نہ غور کیا اور نہ عمل کہ ازدواجی زندگی کے کچھ تقاضے ہیں، باریکیاں ہیں اور شادی صرف لڑکا لڑکی کی شادی نہیں ہوتی بلکہ دو خاندان ملتے ہیں، اُس سے منسلک رشتوں کو نبھایا جاتا ہے ایک دوسرے کی سوچ فکر کے بارے میں جاننا ضروری ہے اور اگر کبھی کوئی ساتھی کوئی بات بگاڑ دے یا کسی مشکل میں پھنس جائے تو کس طرح اُس کا ساتھ دینا چاہیے۔ میں نے کبھی شوہر کے دل و دماغ میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کی اور انہوں نے کبھی بھی اپنا نقطۂ نظر سامنے نہیں رکھا اور نہ کبھی کوئی مسئلہ ہوا تو اُس کے متعلق کبھی کوئی بات کی بلکہ چاہا کہ میں خود آگے بڑھ کر پوچھوں اور مسئلوں کو حل کروں۔ اُوپری رویّے اور عمل سے جو کہ محبت آمیز ہوتا تھا، میں اُن کے خیالات اور جذبات نہ جان سکی، اُن سے اُمیدیں باندھتی رہی اور وہ دل میں رنجشیں پالتے رہے اور پھر جب رویّے بدلے تو بہت محسوس ہوا اور سر رکھ کر رونے کے لیے ماں باپ کا کاندھا ڈھونڈا، نہ کہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ میرا جھکاؤ میکے کی طرف بڑھنے لگا اور حارث اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں سے مسائل بانٹنے لگے۔ برتن ساتھ ہوتے ہیں، کھنکتے ضرور ہیں۔ ہمارے مسائل جب ٹکراتے تو اُن کی کھنک دور تک سنی گئی۔ لوگ محظوظ ہوئے، ہمارا اُٹھنا بیٹھنا، آنا جانا، رویّہ گویا کسی بھی محفل کا ہاٹ ٹاپک بن گیا۔ ایک وقت آیا میں دل برداشتہ ہو کر اپنے میکے چلی گئی، اس اُمید پر کہ حارث مجھے منا کر لے جائیں گے اور دوسری طرف حارث اِس اُمید میں کہ میں اُن کو مناؤں گی، مگر ہم دونوں تو شیطان کے بہکاؤں میں، جو بظاہر مختلف مخلص دوستوں کے مگر دراصل جو کہ آگ جلا کر تاپنے والے تھے، کے جالوں میں پھنس گئے اور یوں غلط فہمیوں کے جال میں دھنستے چلے گئے۔ جدائی کی دیواریں اونچی ہوتی چلی گئیں اورہم ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔
ہم نے یہ نہ سوچا کہ ہمارا یہ قدم ہمارے بچوں کی شخصیت پر کیا اثر ڈالے گا؟ اُن کے ننھے دل و دماغ کیسے اُس صورت حال کو قبول کریں گے؟؟ میں ہی سمجھ داری سے کام لیتی، مگر میں تو اتنی خود غرض ہوگئی کہ اپنے بچوں کی زندگی میں نفرت بھردی، ماں نے محبت تو بھرپور دی مگر باپ کی شفقت لاڈ پیار و خیال سے انہیں محروم کردیا۔
شوہر سے جدائی کے بعد پتا چلا کہ کس طرح ایک سائبان سے دور ہوکر زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ عورت کا شوہر کے گھر پر اُس کی ذات پر ایک حق ہوتا ہے، شوہر عورت کا غرور ہوتا ہے، چھپر چھایا ہوتا ہے۔
میکے میں رہ کر پتا چلا کہ میں کیا غلطی کر بیٹھی؟ ہر ضرورت خواہش کے لیے میں اور بچے ابو اور بھائیوں کی طرف دیکھتے تھے، کتنے احسانوں کے ساتھ ہماری ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا، مگر ہائے میری بدبختی کہ ان کے دامن کو میں نے نہ چھوڑا، اپنے آپ کو میکے والوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنالیا، بس زندگی کے دھارے کو اُن کے مطابق موڑ کر بہہ نکلی۔ جس کا بننا تھا، جس کے خاطر جینا تھا، اُس کو نظر انداز کرتی چلی گئی، جو ملا، اُس کو اللہ عزیز کرکے کھالیا جو ملا اُسے پہن لیا۔
میکے والوں نے میرا گھر تو تُڑوا دیا، مگر میرے کسی بہن بھائی نے میری طرح نا سمجھی کا ثبوت نہ دیا، سب خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں، میں نے اپنے بچوں کو کتنے موقعوں پر باپ کے لیے تڑپتا دیکھا۔ جب گھر کے بچے اپنے باپوں سے لاڈ کرواتے تو میرے بچے احساس کم تری کے احساس سے دوچار ہوتے، ایک وقت آیا کہ میں نے اپنی انا کی دیوار کو توڑ کر مصالحت کا سوچا، مگر اب تو یہ میرے میکے والوں کی انا کا مسئلہ بن گیا تھا، انہوں نے مجھے ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا اور مجھے لگا کہ اب تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی اسیر ہوں۔ میں نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا اور بے چون و چرا اُن کے مطابق چلنے لگی۔
آج میرے بچے پڑھ لکھ کر بیرون ملک اپنے اپنے جیون ساتھیوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں اور میں کرم جلی اکیلی صرف اکیلی رہ گئی ہوں۔ اب واپس جانے کے سارے راستے محدود ہوگئے ہیں، میرا وہ ساتھی، جسے میں نے ٹوٹ کر چاہا اور اُس نے مجھے ٹوٹ کر چاہا، منوں مٹی تلے سورہا ہے اور میں مردہ بہ دست زندہ کی سی زندگی گزار رہی ہوں !!
آج میں تمام بچیوں سے التماس کرتی ہوں کہ ہمیشہ اپنے ساتھی کی سوچ و فکر اور جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنا، انا جیسے موذی سانپ کو کبھی سر اٹھانے نہ دینا اور جو بھی معاملہ ہو وہ مل بانٹ کر حل کرنا زندگی کے نشیب و فراز میں اپنے ساتھی کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور کبھی بھی کسی دوسرے کو اپنے معاملات میں دخل اندازی مت کرنے دینا۔ ازدواجی زندگی کی کام یابی کے لیے پیار، محبت، خیال، اعتماد اور سمجھ داری کا دامن تھامے رکھنا۔ کہنے کو تو یہ کم زور رشتہ ہے، مگر اس کو استحکام دینے کے لیے قائم رکھنے کے لیے جو بن سکے، کرنا کیوں کہ یہ رشتہ عورت کو چہار دیواری، عزّت و تعظیم عطا کرتا ہے عورت اپنے گھر کی رانی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر بچوں کی پرورش کے لیے ماں باپ دونوں کی محبت اور شفقت یک ساں اہمیت رکھتی ہے اور یہ بچوں کا حق بھی ہے۔ میری بچیو! میری نصیحتوں کو گرہ سے باندھ لو ان شاء اللہ ایک کام یاب زندگی تمہارا نصیب بنے گی!!

حصہ