(دودھ جب سفید زہرین جائے(سید عاصم محمود

570

اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں میں سے ایک دودھ بھی ہے۔ یہ سفید سیّال غذائیت کا خزانہ ہے۔ ایک گلاس دودھ انسان کو پروٹین، چکنائی، کاربوہائیڈریٹ، کیلشیم، میگنیشیم اور قیمتی وٹا من فراہم کرتا ہے۔ افسوس کہ انسان کے لالچ اور ہوس نے اس آفاقی نعمت کو بھی تنازعات اور اسکینڈلوں کا نشانہ بنا دیا۔
دودھ ایک غذائیت بخش غذا ہے، مگر جب وہ لالچی لوگوں کے ہاتھ لگی تو موت بانٹنے والی ہرکارہ بن گئی۔ غذائی شے سے مضرِ صحت بننے کی داستان عبرت ناک ہے۔کچھ عرصے قبل ممتاز وکیل بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ میں یہ درخواست دی کہ ملک بھر میں ملاوٹ شدہ یا کیمیائی مادوں سے بنا مصنوعی دودھ تیار ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ نے معاملے کی تحقیق کرانے کے لیے جناب جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں ایک بینچ بنادیا۔ اسی مقدمے کے دوران پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ بعض کمپنیوں کا تیار کردہ ڈبا بند دودھ بھی مضر صحت اور ملاوٹی ہے۔ گویا ملاوٹ کے زہر سے ڈبا بند دودھ بھی محفوظ نہیں رہے۔
پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے سربراہ بابر سلطان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہر سال 40 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دودھ تقریباً تریسٹھ لاکھ جانوروں (گائیں و بھینسوں) سے ملتا ہے۔ دودھ کے کاروبار سے دس لاکھ خاندان وابستہ ہیں۔ قومی جی ڈی پی میں اس کاروبار کا حصہ 11.30 فیصد ہے۔
جدید اعداد و شمار کی رو سے بھارت میں ہر سال ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر، امریکا میں 94 ارب لیٹر، چین میں 45 ارب لیٹر، پاکستان میں 40 ارب لیٹر، برازیل میں 36ارب لیٹر، جرمنی میں 30ارب لیٹر اور روس میں 24 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بہت سے ماہرین بھارت اور پاکستان کے اعداد و شمار پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لیٹر دودھ ملاوٹی ہوتا ہے یا پھر کیمیائی مادوں سے بنتا ہے۔ اسی لیے خصوصاً بھارت کا عدد (ایک کھرب چھیالیس ارب لیٹر) بہت غیر معمولی اور ناقابلِ یقین ہے۔ چین کی آبادی بھارت سے زیادہ ہے مگر وہاں دودھ کی پیداوارکہیں کم ہے۔
دودھ میں پانی ملانا ملاوٹ کا قدیم ترین طریقہ ہے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ دودھ کی مقدار بڑھ جائے، مگر پانی ملانے سے دودھ کی غذائیت کم ہوجاتی ہے۔ اگر پانی آلودہ ہے تو وہ دودھ کو مضر صحت بھی بنادیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کے دیہات میں بہت سے لوگ موسم گرما میں پانی اوردودھ ملا کر پیتے ہیں۔ یہ آمیزہ ’’کچی لسی‘‘ کہلاتا ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ کچی لسی سرد تاثیر رکھتی اور گرمی کو بھگا دیتی ہے۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ دودھ میں ملاوٹ کے بھی نت نئے طریقے سامنے آگئے۔ حتیٰ کہ حیوان نما انسان کیمیائی مادوں سے مصنوعی دودھ بناکر گاہکوں کو زہر پلانے لگے ہیں۔ وطن عزیز کے خصوصاً شہروں میں ایسا مضر صحت دودھ عام ملتا ہے۔ حکومتیں وقتاً فوقتاً اس لعنت کے خلاف مہم چلاتی ہیں مگر وہ اسے کلی طور پر ختم نہیں کرسکیں۔ قانون کی حکمرانی نہ ہونے کا نتیجہ خراب دودھ پی کر عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دودھ کو دیر تک محفوظ کرنے کی خاطر پہلے پہل پاکستانی گوالوں نے کیمیائی مادوں کا استعمال شروع کیا۔ دراصل گوالوں کی اکثریت علی الصبح دودھ نکالتی ہے۔ یہ دودھ پھر چند گھنٹے بعد شہروں کو سپلائی ہوتا ہے۔ چنانچہ دودھ کو خراب ہونے سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے گوالے اس میں جراثیم کُش (جراثیم مارنے والے) کیمیکل مثلاً ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، فارملین، پنسلین، بال صفا پاؤڈر، بوریکس وغیرہ ملانے لگے۔
ٹھنڈا دودھ جلد خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ دودھ تادیر ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس میں برف، یوریا کھاد، ایمونیم سلفیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش ہونے لگی۔ رفتہ رفتہ گوالوں کو علم ہوا کہ کھانے کا سوڈا (بیکنگ سوڈا) اور کاسٹک سوڈا بھی دودھ کو تادیر محفوظ رکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ کیمیکل بھی ملائے جانے لگے۔ آہستہ آہستہ دودھ میں کئی اشیاء کی ملاوٹ معمول بن گئی۔
ہر گوالا چاہتا ہے کہ اس کی گائے یا بھینس زیادہ دودھ دے تاکہ آمدن بڑھ سکے۔ آمدن بڑھانے کی یہی تمنا اب تمام اخلاقی حدود پار کرچکی ہے۔ بہت سے گوالے اب جانوروں کو آکسی ٹوسین (Oxytocin) ہارمون کا ٹیکا لگاتے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں ’’50 فیصد‘‘ تک اضافہ کرسکتا ہے۔ گویا ٹیکا لگانے سے گوالے کو ایک جانور سے پانچ کلو کے بجائے نو دس کلو دودھ ملتا ہے۔
گوالے دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے حیوانوں کو ایک ہارمون بووائن سوماٹو ٹروپین(Bovine somatotropin)کا ٹیکا بھی لگاتے ہیں۔ یہ ہارمون بھی گائے بھینس میں دودھ کی مقدار بڑھاتا ہے۔ پاکستان میں گائے بھینسوں کو یہ ہارمون دینا عام ہے۔یہ دونوں ہارمون زیادہ مقدار میں انسانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
کیمیائی مادوں کی ملاوٹ جاری تھی کہ ’’ذہین موجدوں‘‘ نے مختلف اشیاء کی مدد سے مصنوعی دودھ تیار کرنے کا طریقہ ایجاد کرلیا۔ یہ مصنوعی دودھ بنانے کے کئی طریقے ہیں۔ پاکستان میں یہ طریقہ زیادہ مستعمل ہے: ایک برتن میں ایک کلو خالص دودھ، ایک کلو کھانا پکانے کے تیل میں ملایئے۔ دوسرے برتن میں ایک کلو خشک دودھ دس لیٹر پانی میں ملایئے۔ انہیں اتنا حل کیجیے کہ خشک دودھ اور پانی باہم مل جائے۔ پھر دونوں برتنوں کے محلول ملا لیں اور ا نہیں اچھی طرح حل کریں۔ بعدازاں اس آمیزے میں کاربوکسی میتھائل سیلولوز پاؤڈر ملایئے۔ یہ سفوف دودھ گاڑھا کرتا ہے۔ گاڑھا پن خالص دودھ کی پہچان سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا چالاک گوالے قدرتی اور مصنوعی، دونوں قسم کے دودھ میں مختلف اشیاء مثلاً سوڈیم کلورائیڈ، یوریا، کپڑے دھونے کا پاؤڈر، ایس این ایف (SNF) مادے، نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، پسے سنگھاڑے، کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ، سکم ملک پاؤڈر، پینٹ وغیرہ ملاتے ہیں تاکہ وہ گاڑھا ہوجائے۔
مدعا یہ بھی ہوتا ہے کہ دودھ خریدنے والی کمپنیوں کے لیکٹومیٹر ملاوٹی اجزا نہ پکڑ سکیں (لیکٹو میٹر دودھ کا گاڑھا پن چیک کرنے میں کام آتا ہے)۔ جبکہ خالص دودھ میں ملاوٹ کرنے والی اشیاء میں چینی، نمک، بینزوک ایسڈ، سیلیسائلک ایسڈ (Salicylic acid)، کاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس اورایمونیم سلفیٹ بھی شامل ہوچکے۔
مصنوعی دودھ کوئی غذا نہیں بلکہ جوتے، پنکھے اور کمپیوٹر کی طرح ایک مصنوعہ یا پراڈکٹ ہے۔ اس دودھ میں چکنائی پیدا کرنے کی خاطر کھانا پکانے کا تیل کام آتا ہے۔ ڈیٹرجنٹ یا کپڑے دھونے کا پاؤڈر پانی اور تیل کو اچھی طرح حل کردیتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اس لیے ملاتے ہیں تاکہ مصنوعی دودھ میں تیزابیت جنم نہ لے ورنہ وہ دودھ کو کھٹا کردیتی ہے۔
یوریا، دودھ میں ایس این ایف(solids- not-fat) جیسا اثر پیدا کرتی ہے۔ مصنوعی دودھ میں اصلی دودھ اس لیے شامل کیا جاتا ہے تاکہ دودھ جیسا ذائقہ آسکے۔ یہ مصنوعی دودھ بنانے کا خرچ فی لیٹر 40 روپے سے بھی کم ہے، مگر یہ مارکیٹ میں 80 روپے فی لیٹر فروخت ہوتا ہے۔ مہنگا ہونا ایک طرف، خاص بات یہ ہے کہ یہ مصنوعی دودھ انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔
مصنوعی دودھ بنانے کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے ایک بڑے برتن میں کھانا پکانے کا تیل ڈالا جاتا ہے۔ یہ عموماً گھٹیا کوالٹی کا ہوتا ہے۔ پھر اس میں ڈیٹرجنٹ ملاتے ہیں تاکہ سفید آمیزہ جنم لے سکے۔ پھر آہستہ آہستہ آمیزے میں پانی ملاتے ہیں۔ ایک آدمی ساتھ ساتھ آلے سے آمیزے کی کثافت (Density) یعنی گاڑھا پن چیک کرتا ہے۔ جب آمیزہ دودھ جیسی کثافت پالے، تو پانی انڈیلنے کا کام ختم ہوا۔
اب اس آمیزے میں مختلف اقسام کی اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ چونکہ مصنوعی دودھ بنانے کی ’’ٹیکنالوجی‘‘ ترقی پذیر ہے اور ہر سال نت نئے کیمیکل سامنے آجاتے ہیں، لہٰذا بہ مطابق تجربہ اور معلومات گوالے اس آمیزے میں من چاہی اشیاء ملاسکتے ہیں۔ ان اشیاء میں یوریا، سوڈیم، سلفیٹ، گلوکوز، مالٹوز، کھادیں، بلاٹنگ کاغذ، ہائیڈروجن پیرا آکسائیڈ وغیرہ شامل ہیں۔
اصلی دودھ سے چکنائی نکال لینا بھی ملاوٹ ہی کی قسم ہے۔ یہ کام ڈبا بند دودھ بنانے والی کمپنیاں انجام دیتی ہیں اور گوالے بھی! یہ چکنائی پھر مکھن، گھی، مارجرین وغیرہ کے طور پر الگ سے فروخت ہوتی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ یوں خریدار کو کم چکنائی و غذائیت والا دودھ ملتا ہے۔
دودھ کا ذائقہ، ظاہری حالت اور خوشبو بڑھانے کے لیے بھی اس میں مختلف اشیاء کی ملاوٹ عام ہے۔ مثلاً ڈیٹرجنٹ دودھ کو گاڑھا کرتا ہے۔ بلیچنگ پاؤڈر دودھ میں شامل کی گئی مختلف اشیاء کا رنگ دور کرتا اور قدرتی چمک بحال کردیتا ہے۔ مصنوعی رنگ دودھ کو سفید کرتے ہیں۔
پنسلین بھی دودھ گاڑھا کرتی اور خوشبو بڑھاتی ہے۔ آخر میں میٹھا کرنے والے کیمیکل دودھ میں ڈالے جاتے ہیں۔ یاد رہے، لیکٹوز (مٹھاس) کی وجہ سے اصلی دودھ کچھ زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔
انسانی صحت خطرے میں
ایک اندازے کے مطابق اصلی اور مصنوعی دودھ میں 20 سے زائد کیمیکل اور مختلف اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر شے انسانی صحت کے لیے کسی نہ کسی طرح نقصان دہ ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن پیراآکسائیڈ ہی کو لیجیے۔ گوالے یہ کیمیکل دودھ کو محفوظ کرنے کے لیے ملاتے ہیں۔ مگر یہ کیمیکل دراصل عام اشیاء کو صاف و شفاف کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر اسے زیادہ مقدار میں کھایا جائے، تو یہ آنتوں میں سوزش اور زخم پیدا کرتا ہے۔ نیز انسان کے نظام ہضم میں بھی خرابیاں پیدا کردیتا ہے۔
فارملین کا محلول 52 فیصد پانی، 40 فیصد فارمل ڈی ہائیڈ اور 8 فیصد میتھانول پر مشتمل ہوتا ہے۔ فارمل ڈی ہائیڈ ایک کیمیکل ہے۔ یہ لاشیں حنوط کرنے، عمارات بنانے اور مختلف اشیاء تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ جدید سائنس اس کیمیکل کو ’’زہر‘‘ قرار دے چکی۔
کینیڈا میں یہ کیمیکل غذاؤں میں شامل کرنا ممنوع ہے۔ لیکن پاکستان، بھارت اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے گوالے بلا روک ٹوک یہ زہر اصلی یا مصنوعی دودھ میں شامل کرتے ہیں۔ فارملین دودھ کو عرصہ دراز تک محفوظ کرنے میں کام آتا ہے۔
انسان خاص طور پر تادیر فارملین ملا دودھ نوش کرتا رہا، تو وہ کینسر جیسے ناقابلِ علاج مرض کا بھی نشانہ بن سکتا ہے۔ جب کہ یہ زہریلا دودھ انسان کو قے، پیٹ کے درد، آنتوں کی خرابیوں، الرجی، تھکن اور سستی کا شکار بھی بناتا ہے۔ یہ دودھ جگر اور گردے خراب کرتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ انسان کو موت کے منہ تک پہنچا دیتا ہے۔
فارمل ڈی ہائیڈ پھلوں اور سبزیوں پر بھی مَلا جاتا ہے تاکہ وہ تادیر تازہ رہیں۔ مگر جدید تحقیق اس کیمیکل کو نہایت مضر صحت قرار دے چکی۔ محققوں کے مطابق 30 ملی لیٹر محلول میں 37 فیصد فارمل ڈی ہائیڈ شامل ہو، تو اسے پی کر بالغ انسان چل بسے گا۔ یہ امر نہایت خوفناک ہے کہ فارمل ڈی ہائیڈ کے زہریلے پن کو خاطر میں لائے بغیر گوالے اور پھلوں و سبزیوں کے بیوپاری اسے کھلے عام استعمال کرتے ہیں۔
یوریا کھاد انسان کو قے، متلی اور پیٹ کے امراض میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ خصوصاً انسانی جسم کے اہم عضو، گردوں پر بہت دباؤ ڈالتی ہے۔ وجہ یہ کہ جسم میں یوریا بڑھ جانے سے گردوں کو اسے نکالنے کے لیے زیادہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔کیمیائی مادوں سے بنا ڈیٹرجنٹ یا واشنگ پاؤڈر بھی انسان کے نظام ہضم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ آنتوں میں سوزش پیدا کرتا اور معدے میں زخم بنا ڈالتا ہے۔
کاسٹک سوڈے کا کیمیائی نام سوڈیم ہائیڈروآکسائیڈ ہے۔ یہ ایک خطرناک کیمیکل ہے۔ بند پائپ کھولنے اور اشیاء صاف کرنے میں مستعمل ہے۔ انسانی بدن میں پہنچ کر یہ کیمیکل انسان کو امراضِ تنفس، امراضِ معدہ، حلق میں درد اور لو بلڈ پریشر کا نشانہ بنا سکتا ہے۔
یہ کیمیکل صابن کی تیاری میں عام استعمال ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ دل کی بیماریوں اورہائپر ٹینشن میں مبتلا مرد و زن کے لیے ’’سلو پوائزن‘‘ ثابت ہوتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق کوئی مرد اگر طویل عرصے تک ڈیٹرجنٹ والا دودھ استعمال کرتا رہے تو اس میں باپ بننے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
بینزونک ایسڈ اور سیلیسائلک ایسڈ سانس کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔ نیز خصوصاً بچوں میں بے چینی اور جھنجھلاہٹ (ہائپر ایکٹویٹی) کو جنم دیتے ہیں۔ ایمونیم سلفیٹ بھی مرد و زن میں بے چینی پیدا کرتا اور مثبت رویّے کو منفی میں تبدیل کردیتا ہے۔ دودھ میں شامل کاربونیٹس اور بائی کاربونیٹس کیمیائی مادے انسان میں تولیدی صلاحیت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
غرض دودھ میں شا مل کیے جانے والے تمام کیمیکل اور اشیاء مضر صحت خصوصیت ضرور رکھتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ کہ تقریباً ہر انسان روزانہ دودھ استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا دودھ میں شامل کیمیائی مادے کم مقدار میں ہوتے ہوئے بھی انسان کو رفتہ رفتہ مختلف بیماریوں کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں۔
مریض تو دودھ کو صحت بخش غذا سمجھتا ہے۔ چنانچہ اسے احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ فلاں مرض دراصل دودھ میں شامل کیمیائی مادوں کی وجہ سے اسے چمٹا ہے۔ بعض اوقات مسلسل ملاوٹ شدہ دودھ پینے کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے۔
ملاوٹ شدہ دودھ کے ذریعے انسان کو نشانہ بنانے والی بیماریوں اور طبی خرابیوں میں یہ قابل ذکر ہیں: ٹائیفائیڈ، ہیضہ، پیٹ کے امراض، ہڈیوں اور جلد کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس، ہائپر ٹینشن، تیزابیت، غنودگی طاری رہنا، ذہانت میں کمی، بال جھڑنا، بالوں کا قبل از وقت سفید ہوجانا، بچہ وقت سے پہلے پیدا ہونا، صبر و برداشت میں کمی آجانا، گردوں کی خرابیاں، گنجا پن، غم و غصے میں اضافہ، دل کی شریانوں کے امراض۔ ان سب طبی خرابیوں سے بچنے کے لیے خالص دودھ نوش کیجیے اور مصنوعی دودھ کو تو ہاتھ نہ لگایئے۔ افسوس انسانی لالچ و ہوس نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عظیم غذائی نعمت کو سفید زہر بنا دیا ہے۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ ملاوٹ شدہ دودھ بنانے اور بیچنے والوں کے خلاف سرگرم کارروائی کریں اور انہیں سخت سزائیں
(باقی صفحہ نمبر 13 پر)
دی جائیں تاکہ دوسرے عبرت پکڑ سکیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان پاکستانیوں کو ہدایت دے جو چند ٹکوں کی خاطر ملاوٹ شدہ دودھ ہم وطنوں کو بیچتے اور ان کی صحت سے کھیلتے ہیں۔ مادہ پرستی نے ایسے لوگوں کے ضمیر مُردہ کردیئے ہیں اور وہ روحانی طور پر کھوکھلے ہوچکے۔
خالص اور ناخالص دودھ کی جانچ کے طریقے
وطن عزیز میں دودھ عام استعمال کی غذا ہے۔کروڑوں لوگ روزانہ اسے کسی نہ کسی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ملاوٹ شدہ دودھ نہ صرف مالی نقصان پہنچاتا بلکہ یہ مضر صحت بھی ہے۔ خوش قسمتی سے ملاوٹ شدہ دودھ میں کیمیکل اور دیگر ملاوٹی اشیاء شناخت کرنے کی خاطر ٹیسٹ ایجاد ہوچکے ہیں۔ بعض ٹیسٹ گھر میں بھی کیے جاسکتے ہیں۔ ایسے ہی ٹیسٹوں کا بیان درج ذیل ہے:
(1) پانی۔۔۔ یہ ملاوٹی شے انسانی صحت کے لیے تو خطرناک نہیں مگر جیب پر بار ضرور بنتی ہے۔ دودھ میں پانی کی ملاوٹ جاننے کے لیے اس کا ایک قطرہ کسی ڈھلواں چکنی سطح پر گرائیے۔ اگر قطرہ پیچھے سفید لکیر چھوڑتا بہہ جائے، تو یہ خالص دودھ کی نشانی ہے۔ اگر قطرہ کوئی سفید لکیر نہ چھوڑے، تو سمجھ جائیے، دودھ میں پانی ملا ہوا ہے۔
(2) نشاستہ۔۔۔ گوالے دودھ میں چکنائی کی مقدار بڑھانے کے لیے نشاستہ ملاتے ہیں۔ اس کی ملاوٹ جاننا آسان ہے۔ بس تھوڑے سے دودھ میں آیوڈین محلول یا ٹنکچرکے چند قطرے ملائیے۔ تھوڑی دیر بعد دودھ نیلا ہوجائے، تو اس میں نشاستے کی ملاوٹ ہے۔
(3) یوریا۔۔۔ یہ کھاد فصل کی پیداوار بڑھاتی ہے، مگر لالچی گوالے اس سے دودھ گاڑھا کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ ملاوٹی دودھ کا عام جز ہے۔ اسے شناخت کرنے کی خاطر ایک چمچ دودھ کسی برتن میں ڈالیے۔ پھر اس برتن میں سویابین یا ارہر کی دال کا آدھی چمچی سفوف ڈال دیجیے۔ اب دونوں چیزوں کو اچھی طرح ملائیے۔ پانچ منٹ بعد اس آمیزے میں لٹمس کاغذ ڈالیے۔ ڈیڑھ منٹ بعد کاغذ نکال لیجیے۔ اگر سرخ لٹمس پیپر نیلا ہوجائے، تو جان لیجیے دودھ میں یوریا ملایا گیا ہے۔
(4)ڈیٹرجنٹ۔۔۔ کپڑے دھونے کا پاؤڈر بھی ملاوٹی دودھ میں ملانا عام ہے۔ اس کی شناخت خاصی آسان ہے۔ بس ایک برتن میں دس ملی لیٹر دودھ لیجیے۔ پھر اس میں اتنا ہی پانی ملائیے۔ اب دونوں کو اچھی طرح ہلائیے۔ اگر دودھ میں صابن سے بننے والا جھاگ پیدا ہوجائے، تو اس میں ڈیٹرجنٹ ملایا گیا ہے۔
(5) مصنوعی دودھ۔۔۔ غذا کے نام پر تیار ہونے والا یہ زہر پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی کروڑوں افراد کو پلایا جاتا ہے۔ اس دودھ کی خاص علامات یہ ہیں: چکھنے پر اس کا ذائقہ نہایت تلخ محسوس ہوتا ہے۔ جب اسے انگلیوں کے مابین مسلا جائے، تو صابن لگنے کی طرح چکناہٹ کا احساس ہوتا ہے۔ یہ دودھ گرم کیا جائے، تو ابلنے پر پیلا پڑجاتا ہے۔

حصہ