کہا جاتا ہے کہ صبر کاپھل میٹھا ہوتا ہے، لیکن پاکستانی قوم کے لیے یہ صبر کا پھل پک کر ہی نہیں دے رہا اور جب پکے گا ہی نہیں تو اُن تک پہنچے گا کیسے۔۔۔اس پر مزید یہ کہ پاکستانی حکم رانوں کی طرف سے سابقہ اور موجودہ اور شاید آنے والے بھی قوم کو یہی کہہ رہے ہو ں گے کہ قوم صبر کرے۔ ہر سانحے اور ہر حادثاتی واقعے کے بعد قوم کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کا معاملہ ہو تو قوم صبر کرے، ملک کی تعمیر و ترقی کی بات ہو تو قوم صبر کرے، بجلی کی لو ڈشیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے صبر بھرے بیانات جنرل ضیاء الحق کے دور سے دیے جارہے ہیں، لیکن اب تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل اور قوم کے صبر کا امتحان ختم نہیں ہوا۔ مہنگائی کے مارے اور جرائم پیشہ عناصر کی ستائی عوام احتجاج کریں تو اسے صبر ہی سے بہلایا جاتا ہے۔ حکم رانوں کے پاس صبر کے پیار بھرے بیانات اور عوام کے پاس صبر کے سوا کو ئی چارہ نہیں۔۔۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کی ابتر صورتِ حال کے حوالے سے قوم کو خوش خبری دیتے ہو ئے کہا کہ شہری ذرا سی تکلیف صبر کے ساتھ برداشت کرلیں پھر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ یہ قوم گزشتہ 70 برسوں سے صبر ہی کر رہی ہے، لیکن آج تک اس قوم کو صبر کا پھل چکھنے تک کا موقع نہیں مل سکا۔ حیرت ہو تی ہے، جب اہم ترین عہدے پر بیٹھے لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر شہر کی ترقی کی پلاننگ کرتے اور بریفنگ لیتے ہیں، انہیں اس بات کا با لکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ شہری کس اذیت میں مبتلا ہیں؟ ایک منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد بھول جاتے ہیں کہ جس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا، اس کا کام کتنے فی صد مکمل ہو گیا ہے اور اگر منصوبے کی تکمیل میں تاخیر ہو رہی ہے تو کیوں؟؟۔۔۔لیکن اہم ترین حکومتی عہدوں پر فائز لوگوں کو عوام کی کسی بھی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ گزشتہ دس برسوں سے ملیر سٹی کا پل زیر تعمیر ہے، جس سے آنے جانے والوں کو شدید ذہنی وجسمانی تکلیف ہو تی ہے، لیکن ہمارے حکم راں اس بات کا نوٹس لینے کے بجائے کہ یہ منصوبہ کیوں تاخیر کا شکار ہے اور اس سلسلے میں کام کی رفتار تیز کر نے کے احکامات جاری کر نے کے بجائے اُلٹا ہی قوم کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ قوم صبر کرے۔۔۔ کتنے ہی ترقیاتی منصوبے ہیں جو شہر بھر میں جاری ہیں لیکن ایک بھی منصوبہ وقت پر پائے تکمیل تک پہنچتا ہوا نظر نہیں آرہا۔۔۔ساتھ ساتھ ابھی ایک منصوبہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا منصوبہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کردیا جاتا ہے، جس سے شہری مزید اذیت اور مشکلات سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ بغیر کسی منصوبہ بندی اور متبادل راستوں کی تعمیر کے بغیر شہریوں کو سب سے زیادہ ٹریفک جام کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن کیا کریں، شہری اپنے حکم رانوں کی ہدایات اور نصیحت پر عمل کرکے صبرکے گھونٹ پیتے اور اپنا قیمتی ترین وقت ٹریفک جام میں لگاکر پیٹرول کے ساتھ اپنا خون بھی جلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے بڑے حکم راں انہی خالی سڑکوں پر تیز رفتاری سے گزر کر سمجھتے ہیں کہ سب اسی طرح برق رفتاری سے سفر کرتے ہوں گے۔۔۔ کبھی وزیر اعلیٰ ٹریفک جام میں پھنس کر دیکھیں تو مو صوف کو اندازہ ہوکہ ٹریفک جام کتنا بڑا عذاب ہے۔۔۔ اگر ٹریفک کے مسائل حل ہوجائیں تو یقیناً قوم اور حکومت کا یہ سرمایہ بھی بچے گا۔ اچھا تو یہ ہے کہ حکومت بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے شہریوں کی سہولت کے لیے شروع کیے جانے والے منصوبوں کا آغاز کرے اور وقت پر ان منصوبوں کو تکمیل تک پہنچائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم صبر نہ کرے۔
ترقیاتی کاموں میں تا خیر ہو نے کے بعد حکومتی ادارے ایک دوسرے پر اختیارات نہ ہو نے کا بہا نہ بنا کر اپنے حصے کی کوتاہی بھی دوسرے کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے میئر کراچی وسیم اختر سندھ حکومت سے اختیارات مانگ رہے ہیں اور ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ سے بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ اختیارات بھی دلائے۔ بے شک، شہر کی تعمیر اور ترقی اور منصوبہ بندی کا اختیار میئر کراچی کو ہے، لیکن یہ بات سب کو معلوم تھی کہ میئر کے پاس اور بلد یاتی عوامی نمائندوں کے پاس کتنے اختیارات ہیں؟ یہ اختیارات کی بات تو الیکشن سے پہلے کرنے کی تھی، جب میئر صاحب کی پارٹی سندھ حکومت کے مزے لے رہی تھی اور ذرا ذرا سی بات پر ان کے نمائندے حکومت سے باہر آجاتے تھے، لیکن جب شہری نمائندوں کے اختیارات کم کیے جارہے تھے سب خاموش تھے۔ اُس وقت کوئی دھمکی دے کر حکومت سے یہ کہتے ہوئے باہر نہیں آیا تھا کہ ہم شہری انتظامیہ کے اختیارات حکومت کو سلب کر نے نہیں دیں گے، اب میئر شپ گلے کی ہڈی بن گئی ہے تو اختیارات کا رونا رویا جارہا ہے اور شکوہ کیا جارہا ہے کہ آئینی حدود سے تجاوز کر کے کہ وزیر اعلیٰ کراچی کے میئر بھی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر وزیر اعلی ٰ کا کہنا ہے کہ کو ئی ہمیں آئین پڑھانے کی کوشش نہ کرے، کیا آئینی ہے کیا غیر آئینی، ہمیں معلوم ہے۔ اس پر دیگر سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر میئر کراچی کام نہیں کرسکتے تو اختیارات حاصل نہ ہو نے کا رونا چھوڑ کر مستعفی ہوجائیں۔ اس بات پر جماعت اسلامی، کراچی کے امیر حافظ نعیم کا کہنا بھی بالکل صحیح ہے کہ جب نعمت اللہ خان نے کراچی کی نظامت سنبھالی تھی تو ان کے پاس نہ بجٹ تھا اور نہ ہی اختیارات کے ساتھ وسائل، لیکن انہوں نے ایمان داری سے شہر کی ترقی کے لیے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح وسائل بھی پیدا ہوئے اور اختیارات بھی ملتے چلے گئے۔ انہوں نے اپنے دور میں شہر کراچی کی بلدیہ کا بجٹ چھ ارب سے لے کر چوالیس ارب تک پہنچا دیا تھا، جب کہ صوبائی اور وفاقی حکومت میں جماعت اسلامی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت اور اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن اختیارات شہر کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ اپنی ترقی کے لیے مانگ رہی ہے۔ اگر میئر کراچی اپنے اختیارات کے حوالے سے واقعی بے بس ہیں تو اپنی جماعت سے وہ کیوں نہیں کہتے کہ وہ اس معا ملے پر احتجاج کرے۔ بات بات پر ہڑتالیں اور احتجاج کی کال دینے والے اب کیوں خا موش بیٹھے ہیں یا پھر میئر کراچی بھی صبر سے کام لے رہے ہیں کہ اس کے سوا اب ان کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔۔۔ شاید، یہ اختیارات کی آنکھ مچولی والی جنگ صبر کے ساتھ آخری وقت تک جاری رہے گی۔
وزیر اعلی ٰ سندھ اور میئر کراچی کے درمیان اختیارات کی یہ جنگ نقلی ہے یا اصلی، لیکن عوام یہ جا نتی ہے کہ ’’کے الیکڑک‘‘ بجلی کی آنکھ مچولی اور اوور بِلنگ کے ذریعے عوام سے کھیل رہی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر کو پاکستان کی ’’اقتصادی شہہ رگ‘‘ کہا جاتا ہے، عوام سڑکوں کی خراب صورتِ حال اور ٹریفک جام کی اذیت برداشت کرکے جب گھر میں داخل ہوتی ہے تو بجلی کی طویل بندش لوڈشیڈنگ کی صورت میں مزید پریشانی کا باعث بنتی ہے اور یہ پر یشانی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب مہینے کے اختتام پر کے الیکڑک کی طرف سے ہوش اُڑا دینے والا بل موصول ہوتا ہے۔ جب لوگ استعمال ہو نے والی میٹر ریڈنگ لے کرکے الیکٹرک کے دفتر جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں تو کاونٹر پر بیٹھے ربوٹ، جنہیں چند جملے سِکھا کر بٹھادیا گیا ہے، رٹّو طوطے کی طرح ایک ہی جملہ دہراتے ہیں کہ یہ بل بھردیں، آئندہ اس معاملے کو دیکھ لیا جائے گا۔۔۔اگر بل زیادہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ آپ قسطیں کرالیں۔۔۔ہمارے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہوا، جب میٹر ریڈر 365 یونٹ نوٹ کر کے لے گیا، لیکن جب بل آیا تو 665 یونٹ کا۔۔۔کرتے کیا نہ کرتے کے مصداق، کے الیکٹرک کے آفس پہنچے اور مسئلہ بیان کیا تو وہی رٹے رٹائے جملے سُننے کو ملے، جس پر ہم نے کہا کہ 300 یونٹ کا بل اور600 یونٹ کے بل کا ٹیرف الگ الگ ہے، جو ہم نے زیادہ رقم ادا کی ہے، وہ کس کھاتے میں جائے گی تو جواب ملا کہ صبر کریں۔ بھتہ خوری کو ئی سیاسی جماعت کرے تو حکومت ایکشن لیتی ہے، لیکن کے الیکٹرک کی اووربلنگ کے ذریعے بھتہ خوری اور بدمعاشی پر حکم راں خاموش ہیں، جس پر سیاسی جماعتیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں کہ عدالت ہی انصاف کرے، لیکن عدالت کو بھی معلوم ہے کہ اگر ہم نے کو ئی فیصلہ دے دیا تو عمل دارآمد تو حکومت نے ہی کرنا ہے، اس لیے سب صبر کے ساتھ اس بد معاشی کو برداشت کررہے ہیں۔
کراچی کے شہریوں میں قوت برداشت اور صبر کا مادہ بہت زیادہ ہے، اسی لیے دہشت گردی کو 30 برس بڑے صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ اللہ اللہ کرکے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے اہل کراچی کو کسی حد تک نجات ملی تو اندونی اور بیرونی ملک دشمن عناصراس ملک کو کم زور کر نے کے لیے ایک بار پھر دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے۔ یقیناًدہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی طرح انسان کہلانے کے لائق ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں نے کراچی میں ہو نے والی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا بلکہ پکڑے جانے والے ’’را‘‘ کے ایجنٹ‘ جو بیان حلفی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، ہمارے یہ بڑے لوگ سہولت کار تھے، ہم نے ان کے کہنے پر یہ سارے کام کیے،انہیں آج تک سزائیں نہیں ہوئیں۔ اگر ان دہشت گردوں کو سزائیں ہوجاتیں تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، اب بیانات دے کر دہشت گردی کے تانے بانے سرحد پار سے ملائے جارہے ہیں۔ ہمارے حکم رانوں کو اور کس قسم کا ثبوت چاہیے یا یہاں بھی حکم راں صبر کررہے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے، جب بھی دہشت گرد پاکستانی قوم کو خون میں نہلادیتے ہیں تو حکم راں عوام کو صبر سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عوام صبر ہی کرتے ہیں، لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے، جب دہشت گردی کی کارروائی اندورن سندھ میں ہو اور ان زخمیوں کو کراچی لایاجائے تو یہ زخمی بے یہاں بھی چارے علاج ومعالجے کی ابتر صورتِ حال سے اندازہ لگالیتے ہیں کہ حکومت سندھ کو عوام کی جان و مال اور ان کی بھلائی کی کوئی پروا نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحت کا بجٹ کہاں جاتا ہے؟ حیرت ہو تی ہے جو پارٹی چار دفعہ وزارت اعظمیٰ اور متعدد بار سندھ کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ حکومت حاصل کرچکی ہو، کسی ایک شہر اور شعبے کو بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں بنا سکی۔ اگر ترقی کی شرح کہیں نظر آتی ہے تو وہ کرپشن کا شعبہ ہے، جس نے ہر محکمے میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔ سندھ کے حکم رانوں کی عوام سے دل چسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو حکم راں دہشت گردی کی شکار عوام کو صحت کی سہولتیں اپنے شہر میں فراہم نہ کرسکیں، وہ دیگر بنیادی سہولتیں، جو ہر شہری کا حق ہیں، وہ کیا فراہم کریں گے؟ جو حکم راں شہر کراچی میں پانی، سیورج کے مسائل حل نہ کرسکیں، وہ شہر کو کیسے ترقی یا فتہ بنانے کے لیے کوشش کریں گے؟؟ ایم کیو ایم نے 30 برس تک شہر کراچی اور پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ میں بلا شرکت غیرے حکم رانی کی، لیکن دونوں پارٹیاں عوام کو نہ بہتر طرز حکم رانی دے سکیں اور نہ ہی بہتر سہولتیں۔۔۔ہاں البتہ دہشت گردی، بھتہ خوری، کرپش اور اداروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ محرومیوں کے تحفے ضرور دیے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے وزارت اعلی ٰکا حلف اُٹھانے کے بعد بڑی پھرتی دکھائی تھی اور روازنہ کسی جگہ کا دورہ کرکے مسائل کے حل کی کو ششوں کا تاثر دیا تھا۔ ان میں قابل ذکر صفائی کی صو رت حال کو بہتر بنانے اور جاری ترقیاتی کا موں کی سُست رفتاری کو تیز کر نے کے اقدامات شامل تھے۔ سندھ، بالخصوص شہر کراچی کے لوگوں کو اُمید ہو چلی تھی کہ اب متحرک وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ترقیاتی کام ہو ں گے، لیکن وزیر اعلی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کی طرح افسر شاہی کا شکار ہوگئے اور ایک بار پھر منی پاکستان کہلانے والا شہر کراچی سیاسی یتیم نظر آنے لگا۔ اس شہر کے باسی حکم رانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ شاید وفاقی اور صو بائی حکو متیں مل کر شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں گی، لیکن نہ وفاق میں بیٹھے حکم رانوں اور نہ ہی سندھ کے حکم رانوں کو اس شہر کے لوگوں کے دل جیتنا ہیں اور نہ ہی ان سے ووٹ ما نگنا ہے، کیو ں کہ دو نوں پارٹیوں کو معلوم ہے کہ ہم نے کہاں سے جیت کر دوبارہ حکومت میں آنا ہے، لہذا جو عوام نعروں اور تقریریوں سے خوش ہوجائیں،ان کے حصے میں صبر ہی آتا ہے۔۔۔اس لیے عوام ’’کرپشن سے پاک قیادت‘‘ کے آنے تک صبر کرے!!