مورخہ 29 جنوری کو روزنامہ جسارت میں اس ناچیز کی تالیف کردہ کتاب ’’رسول اعظمؐ‘‘ پر تبصرہ نظر سے گزرا جو تنقید سے زیادہ تنقیص کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ آپ کی ’’اٹھان‘‘ سے ہی مترشح ہے کہ آپ کو بہر صورت نقص نکالنا ہے کیونکہ آپ کے نزدیک اسی کو تنقید کہتے ہیں جیسا کہ اس دور میں آزادئ رائے کو ’’عیب چینی‘‘ کے بطور استعمال کیا جارہا ہے۔ یقیناًآپ میری اس تلخ نوائی پر اظہار ناراضی اپنا حق سمجھیں گے‘ لیکن کیا کروں آپ کی باتوں نے مجبور کردیا کہ یہ لب و لہجہ اختیار کرنا پڑا‘ ورنہ نہ میرا یہ مزاج ہے اور نہ ہی ایسی باتوں کے لیے میرے پاس وقت ہے۔ ایسا لگتا ہے آپ نے مذکورہ کتاب کو اردو کا قاعدہ یا لغت کی کوئی کتاب سمجھ کر شمشیر تنقید کو بے نیام کرلیا اور کتاب پر بس نہ چلا تو اس غریب اور میرے ایک مخلص رفیق کو نشانہ بنا ڈالا‘ دانت پیس پیس کر ’’جیدّ پروفیسر‘‘ کو چبایا اور ان سب باتوں کو جو عام طور پر کتابوں پر رائے زنی کے بعد آخر میں اور ضمناً کہی جاتی ہیں‘ انہی کو تنقید کا مرکزی خیال بنا لیا۔ املا اور زیر و زبر کے چکر میں پڑ گئے‘ لسانیت کی مہارت دکھانے میں اس قدر آگے بڑھے کہ میرے والد بزرگوار تک پہنچنے کی جسارت کر ڈالی۔ میرے رفیق نے کچھ تعریفی کلمات اس حقیر کے لیے لکھ دیئے ہیں‘ وہ بھی آپ سے ہضم نہ ہوسکے اور اسے میری خود ستائی کے کھاتے میں ڈال دیا حالانکہ آپ کی تحریر کی پیشانی پر آپ کا عکس جمال دیکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اس میں تشہیر اور خود نمائی اپنا وجود نہیں رکھتی؟ آپ نے حضرت مہر علی شاہ کے شعر پر بھی اعتراض کیا جب کہ میں نے شاہ صاحب کے مزار پر حاضری کے دوران وہاں کئی ’’مدح سراؤں‘‘ کو اسی طرح یہ نعت پڑھتے سنی اور گولڑہ شریف میں حاضری کے دوران کئی بار سماعت کی ہے‘ سو میں نے ویسے ہی اسے رقم کردیا اور یوں بھی ’’انکھیں‘‘ اور ’’اکھیاں‘‘ کے ٰفرق سے روح شعر پر کوئی ضرب کاری نہیں پڑتی‘ اور پھر یہ ایسی بات بھی نہ تھی کہ اصل مقصد سے ہٹ کر ان فروعی باتوں پر ’’سوموٹو‘‘ لے لیا جاتا۔ تعقید کا عیب بھی ڈھونڈ لیا‘ یقیناًیہ شعر کی جان نکال دیتا ہے‘ لیکن روز مرہ میں کبھی کبھی تعقید عیب کی بجائے خوبی بن جاتی ہے‘ بلکہ ہمارا تو دینی نصاب ہی تعقید کے انداز میں نہایت پُر زور اور مزیدار بنا ہوا ہے ’’نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ۔۔۔‘‘ ’’نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘ چہرہ اٹھانے کی بجائے سر اٹھانے کا مشورہ دیا ہے‘ مجھے حیرت ہے زبان دانی کا اس قدر آپ کو دعویٰ ہے اور نہیں جانتے کہ سر اٹھانا (سرکشی) غرور‘ تکبر اور بغاوت کا مفہوم رکھتا ہے‘ سر جھکانا اطاعت اور شرمندی کے معنی میں آتا ہے جب کہ چہرہ جھکانا بھی شرمساری کے معنی دیتا ہے‘ لیکن چہرہ اٹھا کر دیکھنا محبت‘ آس‘ امید اور شفقت اور توجہ کا مفہوم دیتا ہے‘ خود آپ کے پیشوا سید مودودیؒ کی تحریروں سے ایسی دسیوں مثالیں دے سکتا ہوں‘ وہی کیا اُم الکتاب میں اللہ اپنے نبی سے مخاطب ہیں ’’قد نریٰ تقلبّ وجھک فی السماء‘‘ ’’یہ تمہارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (القرآن)
نون غنّہ کو بھی نہایت اہتمام کے ساتھ قابل ذکر فرمایا‘ حالانکہ شعر کا ذوق رکھنے والا عام قاری بھی کمپوزنگ کی اس غلطی کو محسوس کرلیتا ہے اور یہ عام ’’مطبوعات‘‘ میں دیکھی جاتی ہیں‘ جیسا کہ خود اسی شمارے میں صفحہ 29 کے ایک مضمون کے پہلے ہی شذرہ میں مسلسل ایسی غلطیاں موجود ہیں آپ کا تو پورا ادارہ ہے‘ ہر طرح کے لوگ ہیں‘ آپ ایسی ماہر لسانیات اور ’’خبردار‘‘ شخصیت موجود ہے پھر یہ غلطیاں کیوں؟ جب کہ میں تو محض لکھنے والا ہوں‘ اکیلا ہوں کچھ دوسرے ہی رفقا نے یہ کام انجام دیے ہیں‘ سو اگر (سہواً) ’’ہوس اور حوس‘‘ کے معاملات سامنے آگئے ہیں تو یہ ایسی بات نہ تھی کہ اصل کتاب پر گفتگو کرنے کے بجائے تمام تر توجہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کو چننے میں لگا دی گئی۔ کسی مسجد کا مقصد تعمیر نماز کا اہتمام ہوتا ہے‘ اذان دینے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو قیام صلوٰۃ کے لیے بلایا جائے‘ ناکہ اس کی طرز تعمیر‘ در ودیوار اور کھڑکی‘ دروازہ پر غور فرمائی کے لیے خود کو وقف کر دیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان عوام‘ خصوصاً نوجوان طبقہ کو اس کوشش کی طرف متوجہ کرتے تاکہ وہ اپنے نبیؐ کی حیاتِ مبارکہ سے واقف ہوسکیں۔ کیونکہ یہ تمثیل کا دور ہے‘ یہی سوچ کر کہ ممکن ہے یہ طلبا اور دیگر پڑھے لکھے نوجوان اسی بہانے جیسا کہ یہ قصہ کہانیوں کو دلچسپی اور شوق سے پڑھتے ہیں‘ اس کتاب کو بھی پڑھیں اور اس بات سے آگاہ ہوسکیں کہ جو دین ہمیں گھر بیٹھے مل گیا ہے اس کے قیام اور ابلاغ میں پیغمبر اسلام کو کتنی کٹھنائیوں اور کن مشکلات کا سامنا رہا اور کس طرح تحریک اسلامی منزل مراد پا سکی‘ لیکن آپ نے سارا دانشورانہ زور ان باتوں پر لگا دیا اور اس ’’خوف‘‘ کے سبب کہ کہیں پڑھنے والے زبان کی ان غلطیوں کو سند نہ بنالیں‘ یہ فریضہ انجام دیا۔ ظاہر ہے اس طرح لوگوں کے ایمان خراب ہونے کا احتمال ہے اور کل جب ہم سے قبر میں نکیرین ’’پوچھ گچھ‘‘ کریں گے اور ہم نے درست زبان استعمال نہ کی تو اس وقت وہ ہمیں فیل قرار دے کر دوزخ کا پروانہ ہمارے گلے میں لٹکا دیں گے۔ ایک بار مولانا مودودیؒ کے ایک لفظ ’’تہمت‘‘ پر ماہر القادری مرحوم نے انہیں لکھا کہ آپ نے ’’تہہ بند‘‘ کو تہمت کیوں لکھ دیا کہ اس میں ذم کا پہلو ہے‘ تو مولانا نے جواب میں لکھا‘ میں نے وہی لکھا ہے جو عام لوگ بولتے ہیں۔
محترم! آپ کو زبان کی ایسی ہی پاسداری کا خیال ہے تو آج میڈیا میں آپ کی قومی زبان کا جو حلیہ بگاڑا جارہا ہے زرا اس پر بھی قلم فرسائی فرمایئے‘ عوام کو مونث بنا دیا ہے اور دوسرے مجروحین کی تو طویل فہرست ہے۔ دراصل ہمارے نام نہاد شرفا نے برصغیر میں اس زبان کی بنیاد پر عامۃ الناس کا استحصال کیا۔ خود کو شریف اور دوسروں کو ذلیل سمجھ کر شرفاء کی زبان اور رذیلوں کی زبان قرار دیتے رہے‘ بیگماتی اور قلعہ معلیٰ کی زبان کے نخرے الگ تھے۔ محترم میری یہ تحریر ایک ایسا احتجاج ہے جسے آپ شکوہ بھی کہہ سکتے ہیں جو اپنوں سے کیا جاتا ہے۔ رخصت ہونے سے قبل دانائے راز کی آواز آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
صراّف کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
اور آخر میں ایک دعا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں