معاہدۂ لکھنؤ کی صورت میں مسلم لیگ اور مسلمانوں کے رہنما قائداعظم محمد علی جناح نے کانگریسی رہنماؤں کو مجبور کردیا کہ وہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم کی حیثیت سے تسلیم کریں۔ ہندو سوچ کی پروردہ آل انڈیا کانگریس کو بہت جلد اس بات کا احساس ہوگیا کہ انہوں نے میثاقِ لکھنؤ کی شرائط پر دستخط کرکے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرنے کی غلطی کرلی ہے۔ چنانچہ اس کے فوراً بعد سے ہی ہندوؤں کی جانب سے میثاقِ لکھنؤ سے جان چھڑانے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔
حالات ایسے بنتے چلے گئے کہ خلافت تحریک میں بھی کچھ مدت کے لیے تو گاندھی جی ساتھ رہے، مگر ایک واقعے کو بنیاد بناکر تحریکِ خلافت سے علیحدگی اختیار کرلی۔
اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ تحریکِ خلافت کے نتیجے میں جو عوامی بیداری اور شعور پیدا ہوا، اس نے انگریز حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ گاندھی جو تحریکِ عدم اعتماد چلا رہے تھے، مسلمان رہنماؤں کو بتائے بغیر اس تحریک کے عروج پر اچانک تحریک ختم کرنے کا اعلان کربیٹھے۔ ہندو رہنماؤں کی اس بے وفائی نے مسلمانوں کو بیچ منجدھار میں کھڑا کردیا تھا۔ اس طرح تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ ادھر ترکی میں انگریز ایجنٹ کمال اتاترک نے ازخود خلافت کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا۔
اس تمام تر سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ خطے میں کانگریس اور ہندو مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کر ہی نہیں سکتے۔
تحریکِ خلافت کے خاتمے کے بعد ہندو مسلم اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ خونریز فسادات نے بہت سے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ان حالات میں 1927ء میں حکومتِ برطانیہ نے شاہی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ہندوستان کے لیے سائمن کمیشن کا تقرر کیا، جس کا مقصد آئینی اصلاحات کا جائزہ لینا تھا۔
ہندوستان بھر میں اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا گیا اور اس کے خلاف جلسے جلوس ہوئے۔ اس کمیشن کی سفارشات کو بھی یکسر مسترد کردیا گیا۔
سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کے بعد 19 مئی 1928ء کو مقامی سیاسی پارٹیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس میں موتی لعل نہرو کی سربراہی میں ایک 9 رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ دیگر اراکین میں سر علی امام، شعیب قریشی، ایم۔ ایس۔ این، ایم۔ آر۔ جے کار، جی۔ آر۔ پرتان، سردار مینگل سنگھ، سرتیج بہادر سپرو اور ایم جوشی کے نام شامل ہیں۔ کمیٹی کا مقصد ہندوستان کے لیے ہندوستانیوں کے ذریعے ایک ایسے آئینی ڈھانچہ تشکیل دینا تھا جو ہندوستان میں آباد تمام قومیتوں کے لیے قابلِ قبول ہو، یا جس کو کم از کم کانفرنس میں شریک تمام پارٹیوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس کمیٹی نے جو آئینی رپورٹ تیار کی ہے، ہندوستان کی تاریخ میں اسے نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ اگست 1928ء میں شائع ہوئی۔ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی مسلمان ہکا بکا رہ گئے۔ ہندو جو عرصے سے اس موقع کی تلاش میں تھے کہ میثاقِ لکھنؤ کی صورت میں جو غلطی ہوئی تھی اس سے جان چھڑائیں، اُن کے لیے اس سے بہتر موقع اور کیا ہوسکتا تھا!
رپورٹ میں جداگانہ انتخاب کے اصول کو ختم کردیا گیا تھا، اور مسلمانوں کے تحفظات کو یکسر نظرانداز کرکے کانگریس اور ہندو مفادات کا خیال رکھا گیا تھا۔
نہرو رپورٹ کی تجویز کے مطابق اس رپورٹ میں
1۔ جداگانہ طریقہ انتخابات کو منسوخ کرنے کے لیے کہا گیا۔
2۔ ہندوستان کے لیے وفاقی طرزِ حکومت کے بجائے وحدانی طرزِ حکومت کی سفارش کی گئی۔
3۔ مکمل آزادی کے بجائے نوآبادیاتی طرز آزادی کو تجویز کیا گیا۔
4۔ ہندی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
مندرجہ بالا سفارشات کو دیکھتے ہوئے کمیٹی کے جانب دارانہ رویّے کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ معاہدۂ لکھنؤ 1916ء میں کانگریس نے مسلم لیگ کے جن مطالبات کو منظور کیا تھا، نہرو رپورٹ میں ان ہی سے انحراف کیا گیا۔
دسمبر 1928ء میں نہرو رپورٹ کی باقاعدہ اور باضابطہ منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک آل پارٹیز کنونشن دہلی میں طلب کیا گیا۔ مسلم لیگ نے 23 اراکین پر مشتمل ایک نمائندہ کمیٹی قائداعظم کی سربراہی میں اس مقصد کے لیے قائم کردی، تاکہ مجوزہ کنونشن میں شامل سیاسی جماعتوں کو مسلم لیگ کے مؤقف سے آگاہ کیا جائے۔ قائداعظم نے مذکورہ کنونشن میں نہرو رپورٹ کو مسلم لیگ کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے ایک تین نکاتی فارمولا پیش کیا، جسے کنونشن میں شامل تمام سیاسی پارٹیوں نے یکسر مسترد کردیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
147 This is nothing but parting of the ways148
اس کے فوراً بعد 31 دسمبر 1928ء کو سر آغا خان کی زیر صدارت دہلی میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی، جس میں ’’نہرو رپورٹ‘‘ کو باضابطہ طور پر مسترد کردیا گیا۔
اس سراسر بددیانتی اور ہندو مکارانہ سازش کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے مارچ 1929ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں 14 نکات تجویز کیے۔
ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہرو رپورٹ کو خصوصی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہوئی کہ اس کے بہت دوررس اثرات اور تاریخی نتائج برآمد ہوئے۔ اس رپورٹ کے ذریعے مجموعی اعتبار سے ہندو سوچ کھل کر سامنے آگئی۔ہندوؤں نے اپنے عزائم کا برملا اظہار کیا۔ اور پھر اس کے ذریعے مسلمانوں کے سیاسی اور آئینی حقوق کو پامال کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔
اسی بنیاد پر مسلمانوں کو ہندوؤں کے مقابلے میں کامل یکسوئی میسر آئی۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے سخت الفاظ میں نہرو رپورٹ کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا رشتہ توڑ دیا۔
ڈاکٹر سر محمد علامہ اقبال نے ہندوؤں کی ذہنیت، سوچ اور سیاست کے جواب میں خطبہ الہٰ آباد صادر فرمایا اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پہلی بار آپ نے ہندوستان کی تقسیم کی پیش گوئی کردی۔
1930ء میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس الہٰ آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سر محمد اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں بڑی وضاحت سے ہندوستان کے حالات، مسلمانوں کی مشکلات، ان کے مستقبل اور مسلمانانِ ہند کی منزل کی نشان دہی کی۔
ڈاکٹر سر محمد اقبال نے واشگاف انداز میں فرمایا:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کا آخری مقدر یہ ہوگا کہ وہ اپنے لیے ایک علیحدہ مملکت کا قیام عمل میں لائیں گے۔‘‘
خطبہ الہٰ آباد کے اہم نکات اس طرح تھے:
* اسلام ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، دستورِ حیات ہے اور ایک نظام ہے۔
* یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے، ریاست اور کلیسا جدا ہیں، خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اسلام ایک وحدت ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسلام چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
* ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن، ثقافت اور اسلام کی وجہ سے یہاں کی دوسری قوموں سے مختلف ہیں۔ ان کی تعداد برعظیم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے دوسرے باشندوں کی نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدید ترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔
* مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہوسکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے۔
* ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندانِ توحید کی جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہوگا۔
* میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب، صوبہ شمال مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی شکل دی جائے۔ یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومتِ خوداختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے نہرو رپورٹ کے جواب میں مشہور زمانہ 14 نکات پیش کیے، جن کے ذریعے مسلمانوں کے مطالبات کا احاطہ احسن طریقے سے کیا گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ایک آئینی تعطل پیدا ہوا۔ یہ تعطل 1947ء تک برقرار رہا، جس کے نتیجے میں بالآخر ہندوستان تقسیم ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ نے ہندو مسلم اتحاد کے تابوت میں نہ صرف آخری کیل کا کردار ادا کیا، بلکہ مسلمانوں کی غالب اکثریت اس سراب اور نعرے سے بھی باہر نکل آئی جو ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کی صورت میں لگایا جارہا تھا۔
( جاری ہے )