(روداد عمرہ(صائمہ بدر

461

صائمہ بدرروداد عمرہ
جامعۃالمحصنات کراچی
(دوسرا اور آخری حصہ)
آہستہ آہستہ ہم مدینہ کے قریب پہنچنے لگے اور ہمیں سڑک پر لگی رہنما تختی سے پتا چلتا رہا کہ مدینہ تقریباً 50 کلومیٹر دور ہے۔ اتنی دور سے بھی مدینہ کے انوار وبرکات واضح طور پر محسوس ہورہے تھے۔ میرے موبائل پر سدا بہار نعت ’’فاصلوں کو تکلّف ہے۔۔۔‘‘ چل رہی تھی، اور بخدا آج اس نعت کا ہر مصرع دل کی گہرائیوں میں اتر کر عملی نمونہ پیش کررہا تھا۔ اسی سرور میں ہم مدینہ میں داخل ہوگئے تو چند ساعتوں کے بعد ہی مسجدِ نبوی کے بلند وبالا مینار ہماری نظروں کے سامنے تھے۔ ہماری رہائش گاہ اُحد پہاڑ کی جانب تھی۔ اپنی رہائش گاہ میں پہنچ کر غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر اور خوشبو لگا کر انتہائی عقیدت اور پُرنم آنکھوں کے ساتھ مسجدِ نبوی کی جانب بڑھنے لگے اور جنت البقیع کی طرف سے ہوتے ہوئے بابِ جبریل کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ بابِ جبریل وہ مقام ہے جہاں سے داخل ہونا سب سے افضل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت جبریلؑ بھی اسی دروازے سے داخل ہوتے تھے، اسی وجہ سے اس دروازے کا نام بابِ جبریل ہے۔ بابِ جبریل کے سامنے گنبدِ خضرا کا خوبصورت اور ایمان افروز نظارہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم جوں ہی یہاں پہنچے تو ہماری گناہ گار آنکھوں کے سامنے (رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم) کے روضۂ اطہر کا گنبد نظر آنے لگا۔
رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں
گنبدِ خضرا کا دیدار ہر مسلمان کی دائمی آرزو ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب بندۂ مومن کا ہر عضو ایمان سے سرشار ہوکر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے لگتا ہے۔ اس لمحے کی روداد الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو بنفسِ نفیس اس کے مشاہدے کی سعادت نصیب فرمائے (آمین)۔
اس پُرکیف نظارے کی سعادت کے بعد ہم نے مسجدِ نبوی میں اپنی پہلی نماز ادا کی۔ یہ نماز مغرب کی تھی جس میں شیخ و امامِ مسجد نبوی کی امامت نے چار چاند لگا دئیے تھے۔ عربوں کو قرآن پڑھنے کا جو وصف اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے وہ شاید ہی کسی قوم کو نصیب ہوا ہو۔ نمازِ مغرب سے فراغت کے بعد ہم نے روضہ اطہر میں حاضری کا ارادہ کیا۔
روضۂ پاک کی حاضری کے لیے تمام حاضرین ’’بابِ اسلام‘‘ سے داخل ہوتے ہیں اور پیش قدمی کرتے ہوئے ریاض الجنۃ تک پہنچ جاتے ہیں۔ ریاض الجنۃ کے فوراً بعد وہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے بالکل سامنے پہنچ جاتے ہیں جہاں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور اسی طرح درود وسلام بھیجتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔
مردوں کے لیے حاضری کا وقت عشاء سے رات 12 بجے تک کے سوا سارا دن ہوتا ہے، اور خواتین کے لیے عشاء سے رات 12 بجے تک درود وسلام کا انتظام ہوتا ہے تاکہ اس اعلیٰ و ارفع مقام پر پردہ اور باقی اخلاقی ضوابط کو ملحوظِ خاطر رکھا جاسکے۔ بہرکیف اللہ کے فضل وکرم سے ہم نے بھی اپنی زندگی کی بہت ہی عزیز خواہش کو پورا کیا۔
اس مقام پر پہنچ کر انسان اپنی ذات کو بالکل ہی بھول جاتا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بندہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آ بیٹھا ہے۔ دنیا کا ایک اصول ہے کہ کوئی عزیز اپنے پیاروں سے ملاقات کے وقت کچھ تحائف بھی لے کے جاتا ہے، لیکن ایک گناہ گار اپنے گناہوں کے بوجھ کے سوا اور کیا لے جاسکتا ہے!
الغرض درود وسلام اور نمازِ عشاء سے فراغت کے بعد ہم واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچ کر اللہ کا بے حد شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں یہاں حاضری کا موقع دیا، اور بعد ازاں رات کے کھانے سے فراغت اور پاکستان میں اپنے اہل وعیال سے بات چیت کرنے کے بعد ہم آرام کرنے کی غرض سے سو گئے۔
مدینہ میں ہمارا قیام تقریباً 10 دن تھا، اس دوران ہم نے مدینہ کے کئی مقامات کی زیارت کی۔ ہمارے ایک عزیز جو مدینہ کے قریب واقع ایک فرم میں میکینکل انجیئنر ہیں، وہ بھی ہم سے ملنے آگئے اور خود اپنی گاڑی میں ہمیں مدینہ کے تمام مقامات کی زیارت کروائی۔ اللہ پاک ان کو مہمان نوازی کی بھرپور جزا عطا فرمائے۔ (آمین)
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور مدینہ میں ہمارے قیام کا آخری دن آپہنچا۔ اس دن ہم صبح سے ہی مسجد پہنچ گئے۔ ہم خواتین نے ایک رات قبل ہی الوداعی درود و سلام پیش کردیا تھا، البتہ مرد حضرات کو دوبارہ موقع ملا۔ ہم سب نے ایک دوسرے سے واپسی کا وقت اور جگہ متعین کرکے انفرادی اعتبار سے عبادت کا ارادہ کیا تاکہ جس کا دل جہاں چاہے اور مسجد کے جس حصے میں چاہے عبادت کرے اور اپنے دل کی حسرت پوری کرلے۔
بہرکیف ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا، اور اس سے فراغت کے بعد ہم سب انتہائی عقیدت، محبت اور شدید غم و کرب میں مبتلا ہوکر حسرت بھری نگاہوں سے گنبدِ خضرا کا نظارہ کرتے ہوئے مسجدِ نبوی سے رخصت ہوگئے۔
اپنے شیڈول کے مطابق اب ہمیں دوبارہ مکہ روانہ ہونا تھا، لہٰذا ہوٹل پہنچ کر فوراً احرام باندھا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر میں مدینہ کی گلیوں اور سڑکوں سے رخصت ہوتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر آگئے اور اب ہم تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ کی جانب رواں تھے۔ عصر اور مغرب کی نماز راستے میں ادا کرتے ہوئے ہم بعد نماز عشاء مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ اِس بار مکہ میں ہمارا قیام 4 دن کا تھا اور ہماری رہائش کا بندوبست مکہ کے ہوٹل ’’فندق الزھرۃ ‘‘ میں تھا۔ ہوٹل پہنچ کر وضو اور نوافل سے فراغت کے بعد ہم تلبیہ پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی جانب روانہ ہوگئے اور تقریباً رات 12 بجے حرم میں داخل ہوئے، مطاف میں ایک کنارے پر کھڑے ہوکر خوب دعا مانگی اور مطاف میں اترکر طواف شروع کردیا۔ طواف، نوافل، سعی اور حلق سے فراغت کے بعد بحمداللہ ہمارا عمرہ مکمل ہوا۔ یہ تہجد کا وقت تھا۔ بیت اللہ میں تہجد کی بھی اذان ہوتی ہے۔ یہ اذان اتنی خوش الحانی سے ہوتی ہے کہ قرب و جوار کا ہر ذرہ سمٹ کر اللہ کی بڑائی بیان کرتا محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی نمازِ تہجد ادا کی اور رب کی بارگاہ میں شکر ادا کیا کہ اس نے ایک بار پھر ہم گناہ گاروں کو اپنے گھر آنے اور عمرہ ادا کرنے کی سعادت عنایت فرمائی۔
تھوڑی ہی دیر بعد فجر کا وقت ہوگیا، چنانچہ ہم نے فجر کی نماز سے فارغ ہوکر اپنے ہوٹل کا رُخ کیا۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ حرم شریف میں عام دنوں کی نسبت جمعہ کے دن خاصا رش ہوتا ہے اور جمعہ کی نماز میں بیت اللہ کے قریب جگہ حاصل کرنے کے لیے بہت پہلے آنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ہم نے اس غرض سے ناشتے اور بہت مختصر آرام کے بعد جمعہ کی تیاری کی اور بیت اللہ جا پہنچے۔
جمعہ کی نماز سے فراغت کے بعد ہمیں مکہ کے مقدس مقامات کی زیارت کرنا تھی۔ ہمارے اسی عزیز نے اپنے ایک دوست کو ہمیں زیارت کرانے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ چنانچہ نماز سے فراغت کے بعد انھوں نے ہم سے ملاقات کی، بعد ازاں ہم اُن کی گاڑی میں سوار ہوکر زیارت کو روانہ ہوگئے۔ زیارت کے دوران اُن کی مہمان نوازی قابلِِ ستائش تھی جس کے سبب ہم نے تمام مقامات کی زیارت انتہائی اطمینان اور دل جمعی کے ساتھ کی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ انھیں اس مہمان نوازی کی بھرپور جزا عطا کرے، (آمین)۔
یہ پُرکیف دن گزرتے گئے اور آخری دن آپہنچا۔ ہمیں مغرب کے بعد ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونا تھا۔ چنانچہ صبح سے وقت کا تعین کرکے بیت اللہ میں داخل ہوگئے تاکہ حسرتوں کو پورا کرسکیں۔ اس دن ہم نے کئی نفلی طواف کیے اور بار بار خانہ کعبہ سے جا چمٹے اور اسے بوسہ دیتے رہے۔ رب کا بڑا ہی شکر ہے کہ اس نے ہمیں بار بار خانہ کعبہ کو چھونے کا موقع عنایت فرمایا۔ عبادت و ریاضت کرتے کرتے اب عصر کا وقت ہوگیا۔ ہمیں عصر پڑھتے ہی ہوٹل کے لیے روانہ ہونا تھا، چنانچہ ہم نے آخری بار کعبہ کو بوسہ دیا اور بعد از نماز پُرنم آنکھوں کے ساتھ ہم حرم شریف سے روانہ ہوئے اور بار بار مڑ کر بیت اللہ کو دیکھتے اور دعا کرتے رہے کہ یااللہ ! پھر یہاں آنا نصیب فرما۔(آمین)
پُرنم آنکھوں کے ساتھ ہم ہوٹل آگئے اور فوراً تیاری کرکے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ مکہ سے جدہ تک کے سفر کے دوران ہم بار بار اللہ کے حضور دعا کرتے رہے کہ یااللہ ہم تیرے ان مقدس مقامات کا حق ادا نہ کرسکے۔ اے رب تُو ہماری غلطیوں سے ناراض ہوکر ہمیں محروم نہ فرما اور ہماری ان ٹوٹی پھوٹی کوششوں کو قبول فرماکر اسے ہمارے لیے توشۂ آخرت بنا۔(آمین)
ان خیالوں میں گم ہم جدہ ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ ہماری فلائٹ تین گھنٹے تاخیر کا شکار تھی، چنانچہ کسٹم وغیرہ کے مراحل سے فارغ ہوکر ہم لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ تقریباً صبح 5.45 پر طیارے میں سوار ہوئے اور دن 12 بجے کراچی ایئر پورٹ اتر گئے۔ گھر واپس آکر بس یہی دعا ہے کہ اے اللہ ہمیں بار بار اپنے حرم کے دیدار کی سعادت عطا فرما۔
nn

حصہ