(میرا ہاسٹل میں پہلا دن(طیبہ عبید

351

میرا ہاسٹل میں پہلا دن طیبہ عبید
(جامعۃالمحصنات کراچی )
پڑھنے کا شوق عموماًً لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ ہم بھی انھی لڑکیوں میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن پھر بھی امتحان کا مرحلہ ہر کسی کو بہت سخت لگتا ہے۔ ان ہی تھکا دینے والے میٹرک کے امتحانات کے بعد ہم طویل چھٹیوں اور اس کے حوالے سے منصوبہ بندی کررہے تھے اور نت نئے تانے بانے بُن رہے تھے لیکن۔۔۔ حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔۔۔ ابھی میٹرک کا امتحان دیا اور رزلٹ آنے سے پہلے ہی گھر والوں نے خوش خبری سنا دی کہ اب تعلیم کا زینہ جامعۃ المحصنات کراچی کے ہوسٹل میں رہ کر چڑھنا ہے۔ جامعہ کا سن کر تو بے انتہا خوشی ہوئی لیکن جب یہ سنا کہ ہم تو ہاسٹل میں ہی رہیں گے، گھر والوں سے دور، بہن بھائیوں سے دور جن کے بغیر رہنے کا کبھی تصوربھی نہیں کیا۔ وہ بہن بھائی جن کے ساتھ لڑائیوں سے زندگی میں رونق ہے، ان سے دور ہوجانے کے تصور سے سانس اوپر کی اوپر، نیچے کی نیچے رہ گئی۔
خیر، پڑھائی کے شوقین تو تھے ہی، بس اسی شوق کے لیے قربانی کا تصور کرتے ہوئے ہم نے سانس کو دوبارہ بحال کیا اور اپنا بوریا بستر سمیٹ کر گھر والوں کے ہمراہ جامعہ آگئے۔ ایڈمیشن کروانے کے بعد گھر والے بہت سی دعاؤں اور آنسوؤں میں ہم سے الگ ہوگئے، اب ہم رہ گئے ۔۔۔ اور جامعہ۔۔۔ پھر ہاسٹل۔
جس وقت ہم جامعہ آئے وہ کالج کا اکیڈمک ٹائم تھا۔ ہمارا ایڈمیشن ہونے کے بعد ہمیں عامہ اول کی کلاس میں بٹھایا گیا۔ چھٹی ہونے میں ابھی وقت تھا۔ میں پہلے ہی بہت تھکی ہوئی تھی اور گرمی سے برا حال ہورہا تھا، پھر لائٹ بھی چلی گئی اور پھر سونے پر سہاگہ پیاس بہت لگ رہی تھی۔ جب پانی کے لیے کلاس سے باہر نکلی تو کلاس ہیڈ نے واپس بلا کر پوچھا ’’بغیر اجازت کہاں جارہی ہیں؟‘‘ پر وجہ بتانے پر انھوں نے تھوڑا انتظار کا کہا کہ چھٹی بس ہونے ہی والی ہے۔
پھر جب چھٹی ہوئی تو واٹر کولر سے پانی بھرنے پر محسوس ہوا کہ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے پانی گرم تھا۔ میں اپنی کلاس والوں کے ساتھ ہاسٹل کی طرف آرہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ جاکر آرام سے بیڈ پر لیٹ جاؤں گی۔ خیر ہو بیج والوں کی، جنھوں نے بتایا کہ یہ کمرے تو باجیوں کے ہیں۔ ابھی اوپر پہنچی ہی تھی کہ نماز کے لیے بلایا گیا۔۔۔ نمازِ ظہر اجتماعی پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے کہ ٹن ٹن ٹن کی آواز نے پریشان کردیا۔ اب نہ جانے کیا کرنا ہو! پتا چلا یہ کھانے کی بیل ہے۔ میں نے سوچا کہ لائٹ کے آنے پر کھانا کھالوں گی۔ میری اس بات پر ساتھی طالبات مسکراتے ہوئے گویا ہوئیں: آپ کا پہلا دن ہے، جلد سمجھ جائیں گی۔۔۔ بعد میں پتا چلا وقت پر کھانے کے لیے نہ آنے پر بھی ’’تاریخی کارروائی‘‘ ہوتی ہے۔
کچھ ہی دیر میں اندازہ ہوا کہ یہاں تو اپنا ہر کام خود کرنا پڑے گا، گھر کے ناز نخرے نہیں چلیں گے۔ ایسے میں گھر والے خوب یاد آئے۔ مینو دیکھ کر پتا چلا کہ دالیں، سبزیاں، گوشت، چاول سب ہی باری باری بنتے ہیں۔ اس وقت گھر میں اپنے نخرے بہت یاد آئے۔ جب لابی میں آئی تو سب کھانے کے بعد سونے کی تیاری کررہے تھے۔ پھر عصر کی نماز کے لیے اٹھی۔ پھر بیل کی آواز آئی۔۔۔ ٹن ٹن ٹن ن ن ن۔۔۔ یااللہ اب کس چیز کی بیل ہے۔۔۔! خیر یہ گیم ٹائم کی بیل تھی جس کے لیے ہمیں گراؤنڈ میں جانا تھا۔ جیسے ہی میں گراؤنڈ میںآئی تو سب کو مختلف کھیلوں میں مگن پایا۔ پہلے کچھ جھجھک ہوئی مگر پھر کچھ ساتھیوں سے دوستی ہوگئی اور میں بھی کھیل میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر کھیل کر تھک گئی اور سر میں درد ہورہا تھا تو سوچا ٹی ٹائم ہوگا۔ میرے پاس تو ٹی کا سامان نہیں، سوچا اگلی بار لے آؤں گی۔ اسی طرح کبھی ہنستے مسکراتے اور کبھی گھر والوں کی یاد میں اداس ہوتے سارا دن گزر گیا۔ یہ تھا پہلا دن میرا ہاسٹل میں۔۔۔ سچی بات ہے پہلے دن تو بہت مشکل لگا یہاں۔ گھر بہت یاد آیا۔ مگر چند دنوں میں اس روٹین سے محبت ہوگئی اور پھر سب اچھا ہوتا چلا گیا۔ اب تو ’’ٹن ٹن ن ن ن۔۔۔‘‘ کی آواز کے بغیر دن نہیں گزرتا اور یہ سوچتی ہوں کہ جب واپس گھر جاؤں گی تو یہ سب بہت یاد آئے گا۔
nn

حصہ