(اصلاح معاشرہ مہم(افشاں نوید

485

سوچیے! بھلا ہم مسلمان عورتوں کے لیے اس ہستی کے ماسوا کون رول ماڈل ہوسکتا ہے جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ جنت کے سوا بھی کوئی گوہرِ مقصود ہوسکتا ہے! سیدہ فاطمہؓ نے رہتی دنیا تک مسلمان عورتوں کے مسائل کی ساری گرہیں سلجھا دیں۔ ہم نہ سمجھنا چاہیں، ہماری اور چودہ سو برس پرانی تاریخ کے درمیان حجاب حائل رہیں تو اور بات ہے۔ درس تو قیامت تک کی مسلمان عورتوں کے لیے کافی شافی تھا کہ مسلمان عورت جس طرح حالتِ بیماری میں نماز چھوڑنے کا تصور نہیں کرسکتی اس لیے کہ وہ اللہ کا حق ہے اُس پر۔۔۔ اسی طرح جو حقوق اللہ رب کریم نے عائد کردئیے ہیں وہ ان سے بھی غافل نہیں ہوسکتی۔ جس طرح ٹھنڈے پانی سے وضو اللہ پر معاذ اللہ کوئی احسان نہیں ہے اسی طرح شوہر اور بچوں کی خدمت ان لوگوں پر احسان نہیں ہے بلکہ عین اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ نماز کی ادائیگی کا مقصد اگر رب کی رضا ہے
سب کچھ تیرا، میرا ہے کیا
دل میرا یہ جاں میری
یہ جان جو اسی کی عطا کردہ ہے اگر اس کے راستے میں خرچ ہو تو یہ سعادت ہے۔ اس کی بندگی کا بھی کوئی حق ادا کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے بھلا! احسان تو اس ذات کا ہے جس نے ہمیں اسلام جیسی قیمتی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ ہمیں اس خوش نصیب گروہ میں شامل فرمایا جس سے اس کے جنت کے وعدے ہیں۔ شوہر اور اولاد کے حقوق ایک مسلمان عورت اس لیے ادا نہیں کرتی کہ وہ مجبور ہے، بلکہ عین اللہ کے عائد کردہ فرائض سمجھ کر نبھاتی ہے۔ ایسی عورت کے لیے آسمان پر جنتیں ہی اس کی منتظر نہیں ہیں بلکہ زمین پر خود اس کا گھر اس کے لیے جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ کتنے پیارے ہیں یہ الفاظ کہ ’’اگر اس راستے میں موت بھی آجائے تو کوئی پروا نہیں‘‘۔ کسی ریاست کو اس کی ایف آئی آر کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ عورتوں کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اس کو پورا تحفظ شریعت مہیا کرچکی ہے اس کو خاندان کی ملکہ بناکر اور اس کے قدموں کے نیچے جنت بسا کر۔ یہاں تو عورت الحمدللہ مکمل تحفظ کے حصار میں ہے۔ باپ اور شوہر کے، بیٹے اور بھائی کے۔۔۔ اور گھر اور گھر والوں کی خدمت زبردستی کی چاکری نہیں بلکہ عین عبادت ہے، رب کی رضا کا ذریعہ ہے۔ جس ہستی کا لقب ’’بتول‘‘ ہو اس کا وژن ہی یہاں تک جاسکتا ہے، کہ اس کو امت کی عورتوں کے لیے مثال جو بننا تھا۔
گواہی
سیدنا حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ گھر کے تمام کام کاج، کھانا پکانا، چکی پیسنا، جھاڑو دینا وغیرہ سب کام ہماری ماں خود اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔ روایات میں ہے کہ امورِ خانہ داری کی انجام دہی کے لیے کبھی رشتہ دار یا ہمسایہ کو مدد تک کے لیے نہیں بلاتی تھیں۔ نہ مشقت سے گھبراتی تھیں۔ جب تک شوہر اور بچوں کو کھانا نہ کھلادیتیں خود بھوکی رہتیں چاہے کتنے ہی وقت کے فاقے سے کیوں نہ ہوں۔۔۔!
روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ سر پر گھاس کا گٹھا اٹھا کے گھر میں تشریف لائے اور سیدہ کی مدد چاہی، ان کو آواز دی۔ وہ کسی کام میں مصروف تھیں، آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ حضرت علیؓ نے گٹھا زمین پر دے مارا اورپوچھا کہ گٹھا اتارنے میں مدد کرنے میں وہ کیوں اپنی سبکی محسوس کررہی تھیں؟ حضرت فاطمہؓ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں کام میں مصروفیت کی وجہ سے جلدی نہ آسکی، میں جس باپ کی بیٹی ہوں وہ اپنے دستِ مبارک سے کوئی بھی کام کرنے میں کبھی بھی اپنی سبکی محسوس نہ کرتے تھے۔‘‘ حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم باپؐ کے ہر درس کو حرزِ جاں بنا لیا تھا اور ایک پیغمبر کی بیٹی ہونے کے شرف کو روح کی گہرائی سے محسوس کیا تھا کہ جو جو کام میرے بابا جان نے کیے ہیں وہی امت کے لیے مثال ہیں، اور یہ ساری عملی مثالیں اہلِ بیتِ رسولؐ ہی سے منتقل ہونا تھیں۔ خود سیرتِ مطہرہؐ کا درس بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ہمراہ گھر کے کسی بھی کام کو کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔ بالوں میں کنگھی سے لے کر جوتے تک خود گانٹھ لیتے تھے اور ازواج مطہرات کا خانگی امور میں ہاتھ بٹا کر فرحت محسوس کرتے تھے کہ ’’میں تم میں سب سے اچھا ہوں اپنے گھر والوں کے لیے۔‘‘ (متفق علیہ)
تسبیح فاطمہ
مسلمانوں نے ایک طویل وقت آزمائشوں کا گزار کر وہ وقت بھی دیکھا جب وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا(سورۃ النصر آیت 2) فوج در فوج لوگ اسلام قبول کررہے تھے، فتوحاتِ اسلام روز بروز وسعت پذیر ہورہی تھیں۔ مدینہ میں بکثرت مالِ غنیمت آنا شروع ہوگیا تھا۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت میں کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بھی علم میں آیا۔ انہوں نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا: ’’چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا ہے، آج مالِ غنیمت میں لونڈیاں بھی آئی ہیں، جاؤ جاکر اپنے والد سے ایک لونڈی مانگ لاؤ۔‘‘
سیدہ فاطمہؓ شوہر کا کہنا ٹال تو نہ سکتی تھیں، لیکن مقام تفکر یہ ہے کہ گٹے تو ان کے اپنے ہاتھوں میں پڑے تھے جس کی تکلیف بھی محسوس کرتی ہوں گی اور پھونکنی کے دھویں سے رنگ ان کا متغیر ہوا تھا، محسوس تو انہوں نے بھی کیا ہوگا اور اس دنیا میں کوئی عورت نہیں ہوسکتی جس کو اپنے رنگ وروپ کی پروا نہ ہو۔ کوئی عورت اپنا رنگ وروپ یوں تج دینے پر تو آماد نہیں ہوجاتی، اس لیے ہر عورت ’’بتول‘‘ تو نہیں ہوسکتی ہے۔ ’’بتول‘‘ تو بس وہی ہیں جو سب سے کٹ کر رب کی ہورہی تھیں۔ اپنے روز و شب، اپنی خدمت گاری، اپنی صحت، اپنا رنگ روپ سب کچھ اس گھر اور گھر والوں پر وار کر اُمت کی عورتوں کو یہ سبق جو سکھانا تھا کہ ایک مسلمان عورت اپنے خاندان کے استحکام کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دے سکتی ہے۔ اس کے رنگ وروپ کی قربانی اگر رشتوں میں رنگ بھرسکتی ہے تو یہی ’’صبغۃ اللہ‘‘ ہے۔
ہاں تو سیدہ فاطمہؓ شوہر کے کہنے سے محض اُن کی رضا کی خاطر جھجکتی ہوئی خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوئیں۔ حضرت علیؓ کی درخواست کو کیسے بیان کریں باپ کے سامنے؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ یقیناًہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا ہوگا اور ممکن ہے ہاتھوں کے گٹوں پر نظر چند لمحوں کے لیے ٹھیر بھی گئی ہو۔ مگر بے سبب تو نہیں تھے یہ گٹے۔ ان کی قدروقیمت بھی خوب جانتی تھیں اور اس ابدی جنت کے خزانوں پر بھی نظر تھی۔ بس سوچ کر رہ گئیں، زبان تک آہی نہ سکا حرفِ مدعا۔ واپس چلی آئیں۔ بولیں ’’مجھے تو کنیز مانگنے کی ہمت ہی نہ ہوئی، کل آپ بھی ساتھ چلیں۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن امتِ محمدیؐ کا یہ عظیم ترین جوڑا ایک چھوٹی سی عرضداشت لے کر خدمتِ نبویؐ میں حاضر ہوتا ہے۔ سیدہؓ کو تو زبان ہی نہ ملی تھی پریشانیوں کو بیان کرنے والی۔ یوں بھی دل اور زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس دل میں شکر ہی شکر ہو اس پر شکوہ آنا پتھروں کو پسینہ آنے کے مترادف ہے۔ الغرض حضرت علیؓ نے فاطمہؓ کو درپیش تکالیف بیان کیں اور لونڈی کی درخواست کردی۔ وہ نورالعین، وہ لختِ جگر، باپ کی پیاری لاڈلی مع شوہر کے سامنے موجود ہیں، کوئی قیصر وکسریٰ کے خزانے بھی طلب نہیں کیے۔ کوئی اور باپ ہوتا تو اپنی ساری دولت ڈھیر کردیتا بیٹی کے سُکھ کی خاطر۔ مگر یہاں باپ وہ ہستی ہیں جن کو قیامت تک کے لیے اپنا ہر عمل ثبت کردینا تھا۔ جن کو اپنے ہر عمل سے اُمت کو درس دے کر جانا تھا کہ قابل عمل ہے تو یہی اسوہؐ۔ دل میں جو بھی مدوجزر ہوں، دل کی حالت کون دیکھ سکتا ہے! سامنے سوالی پیاری فاطمہ اور اس کے عزیز جان شوہر تھے۔ مگر فاطمہؓ کو تو جنت کی عورتوں کی سرداری کے منصب پر فائز ہونا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک یہ جملے ادا کرتی ہے: ’’تمہیں خدمت کے لیے لونڈی تو نہیں دے سکتا، ابھی اصحابِ صفہ کے خور و نوش کا تسلی بخش انتظام بھی مجھے کرنا ہے۔ ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر فقروفاقہ اختیار کیاہے۔‘‘ اتنا عظیم اسوہ اور کوئی ہستی پیش کرسکی ہے دنیا میں۔۔۔!!! لَقَدْ کاَنَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃ، یہی اسوہ حسنہ ہے کہ جذبات اصولوں پر غالب نہ آسکے۔ اولاد کی محبت برحق، مگر مشن کی صداقت کی گواہی پیش کی۔ اصحابِ صفہ ترجیح اوّل ہوں گے اس لیے کہ تم بہرحال اپنے گھر میں ہو، وہ تو گھر بار چھوڑ چکے ہیں دین کی خاطر۔ باپ صرف باپ ہی نہیں، ریاست کا والی بھی ہے۔ اور ترجیحات سورج کی طرح روشن اور عیاں ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بیٹی بدر کے شہیدوں کے یتیم تم سے پہلے مدد کے حقدار ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’تم جس چیز (یعنی مدد) کی خواہش مند ہو اس سے بہتر ایک چیز تمہیں بتاتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ اور الحمدللہ اور34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو، یہ عمل تمہارے لیے لونڈی اور غلام سے بڑھ کر ثابت ہوگا۔‘‘ سیدہ فاطمہؓ نے دل کی پوری رضامندی کو لفظوں کی زبان دے دی کہ ’’میں اللہ اور اللہ کے رسولؐ سے اسی حال میں راضی ہوں۔‘‘
قناعت کی اعلیٰ ترین مثال
بحیثیت مسلمان ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہماری تاریخ اعلیٰ ترین انسانوں کی مثالیں پیش کرتی ہے جن کے اسوہ پر ہم صرف غور ہی کرلیں تو ہماری بہت سی الجھنیں اور مسائل کم ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے جو اعلیٰ ترین اقدار دنیا سے متعارف کرائیں ان کے تذکرے کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ ہمارے دلوں میں ان کا احترام ہے اور ہم ان کے اس اعلیٰ کردار پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ بلکہ اس کا مقصد ایک آئینہ ہمیں خود کو دکھانا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہم تو گنہگار ہیں، ایسے طرزِعمل کا ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کرداروں نے ہمیں دعوت ہی سوچنے کی دی ہے۔ اور کامل ترین نمونے اسی لیے پیش کیے کہ ہم کتنا قریب ہوسکتے ہیں اس کردار سے؟ حضرت فاطمہؓ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ تھیں، لیکن قربان اس اسوہ کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو کیا، کہ دنیا کو دکھا سکیں کہ پیغمبر خیر الانام کی جو تعلیمات ہیں وہ قابلِ عمل ہیں اور ان کو روبہ عمل لانے سے آخرت میں مقام تو اپنی جگہ، خود دنیا کتنی آسان ہوجاتی ہے۔ بتول جیسے عظیم الشان لقب کی مالک سیدہ فاطمہؓ نے دنیا سے کٹ کر اور کم سے کم دنیا پر قناعت کرکے مسلمان عورتوں کو عملی طور پر سبق دیا کہ وہ دنیا کی حریص نہ بنیں۔ اپنے گھر کو اپنی بہترین صلاحیتوں کا مرکز بنائیں۔ اپنی اولاد کی پرورش کو ترجیح اول رکھیں اور شوہر اور اس کے گھر کی کسی طرح کی خدمت کو عار نہ سمجھیں۔ ذیل میں کچھ مثالیں اسی غرض سے پیش کی جارہی ہیں کہ ہم دیکھیں کہ اگر اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے دنیا کی لذتوں کو اہمیت نہیں دی اور ان کو صبر اور قناعت کا درس دیا تو ان کے توسط سے وہ درس امت کی سب بیٹیوں کے لیے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔۔۔!!
ایک دفعہ سیدہ فاطمہؓ مسجد نبوی میں تشریف لائیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا خدمتِ اقدس میں پیش کیا۔ آپؐ نے پوچھا: ’’یہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’بابا جان تھوڑے سے جَومیسر آئے، پیس کر روٹی پکائی، بچوں کو کھلاتے ہوئے خیال آیا کہ تھوڑی سی آپ کے لیے بھی لے جاؤں، نہ معلوم آپ کس حال میں ہوں، ہمیں یہ روٹی تیسرے وقت نصیب ہوئی ہے۔‘‘ آپؐ نے روٹی تناول کرتے ہوئے فرمایا: ’’جانِ پدر! تیرے باپ کو چار وقت کے بعد یہ لقمہ نصیب ہوا ہے۔‘‘
روایت میں ہے کہ گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ آٹھ وقتوں سے بھوکے تھے۔ دن ڈھلے ایک تاجر کے اونٹ آئے۔ اونٹوں سے سامان اتارنے کے لیے اس کو مزدور کی ضرورت تھی۔ حضرت علیؓ نے خود کو پیش کیا اور شام سے رات تک اس کے اونٹوں سے سامان اتارا۔ تاجر نے معاوضے میں ایک درہم دیا۔ اس ایک درہم سے جَو خرید کر گھر میں داخل ہوئے تو شریکِ حیات کو منتظر پایا۔ انہوں نے جَو اُن سے لے کر پیسے، ان کو گوندھا، آگ جلائی، روٹی پکائی اور شوہر کے سامنے لاکر رکھ دی۔ جب انہوں نے کھالی تو خود کھانے بیٹھیں۔ شیرِ خدا فرط جذبات سے فرماتے ہیں: ’’مجھے اس وقت سیدالبشرؐ کا یہ قولِ مبارک یاد آگیا کہ ’’فاطمہؓ دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ہے۔‘‘ باپ اور شوہر کی اس گواہی نے سیدہ فاطمہؓ کے کردار کو کتنا لازوال بنادیا کہ تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
روایات میں ہے کہ ایک دن رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لاتے ہیں، سوال کرتے ہیں کہ ’’میرے بچے حسنؓ اور حسینؓ کہاں ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’بابا جان گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، بچے باپ کے ساتھ ہیں، وہ کسی یہودی کے پاس مزدوری کی تلاش میں نکلے ہیں‘‘۔ آپؐ ان کو تلاش کرنے نکلے، دیکھا بچے حوض کے پاس کھیل رہے ہیں، قریب ہی کچھ کھجوریں رکھی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دھوپ تیز ہوجائے گی، علیؓ بچوں کو گھر لے جاؤ‘‘۔ انہوں نے فرمایا: ’’کچھ کھانے کو نہیں ہے اس وقت گھر میں، تھوڑا سا رکیں تو میں درخت سے گری ہوئی کھجوریں چن لوں‘‘۔ حضرت علیؓ نے کپڑے میں کھجوریں ڈال لیں۔ ایک بچے کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھالیا، ایک کو شیرِ خدا رضی اللہ عنہ نے، اور گھر پہنچے۔
ایک اور واقعہ روایت میں درج ہے کہ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام بھوک کی حالت میں گھر سے نکلے۔ حضرت ابوبکر صدیق،ؓ پھر حضرت عمرؓ سے راستے میں ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے اُس روز ان کے گھروں میں بھی فاقہ تھا۔ تینوں حضرات کرام حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ اس وقت ابوایوبؓ گھر سے ملحق اپنے کھجوروں کے باغ میں تھے۔ اطلاع پاتے ہی کھجوروں کا گچھا توڑ کر بے تابانہ دوڑتے ہوئے گھر پہنچے۔ فوراً ان عظیم مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا۔ بکری ذبح کی، سالن پکوایا۔ جب کھانا سامنے آیا تو سرکارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روٹی پر گوشت رکھ کر فرمایا: ’’یہ فاطمہؓ کو دے آؤ، اس کے گھر میں کئی وقتوں سے فاقہ ہے۔‘‘
یہاں ٹھیر کر سوچنے کا مقام ہے کہ باپ بیٹی دونوں کے گھروں میں فاقہ۔ اس میں امت کے لیے کیا سبق ہے؟ یہی کہ شام وسحر کے یہ سلسلے لذتِ کام و دہن کے لیے وقف کرنا زندگی کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے۔ کسی بڑے مقصد کے لیے جو جیتے ہیں وہ درویشانہ طرزِ زندگی اختیار کرتے ہیں۔ مادی لذتوں کے پیچھے بھاگنا ایک مسلمان کو زیبا نہیں ہے۔ آپؐ چاہتے تو اپنی لختِ جگر کو بہترین اسبابِ دنیا مہیا کرسکتے تھے۔ لیکن آپؐ امت کے لیے یہ سبق چھوڑ کر گئے کہ کم سے کم لذتِ دنیا پر تکیہ کریں کہ یہ دنیا دھوکے کی جگہ ہے اور سامانِ دنیا کا حصول ایک مومن کا مقصدِ حیات نہیں ہونا چاہیے۔ سوچیں آج ساڑھے چودہ سو برس سے یہ الفاظ تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں جو ہمیں جھنجھوڑ رہے ہیں کہ ’’اے میری بچی صبر کر۔ میں آج تین دن سے بھوکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے میں جو کچھ مانگتا ہوں وہ مجھے ضرور عطا کرتا ہے، مگر میں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دے دی ہے۔‘‘ (جاری ہے)

حصہ