قدرت نے ہمیں بے شمار پھلوں کی نعمت سے نوازا ہے، جن میں بے تحاشا غذائیت اور بہت سی بیماریوں کا راز چھپا ہوا ہے۔ لہٰذا ان پھلوں کا استعمال نہ صرف ہماری صحت کے لیے بہت ضروری ہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اگر پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنا لیں تو یقیناًہم بے شمار بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔
سنگترہ اور کینو بھی موسم سرما کے ایسے پھل ہیں جو اپنے منفرد ذائقے کی بدولت پسند کیے جاتے ہیں۔ کھٹے میٹھے یہ پھل اپنے اندر بے شمار غذائیت رکھتے ہیں اور ان کا استعمال ہماری صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے۔ اسی حوالے سے ان کے چند حیرت انگیز فوائد جو یقیناًبیماریوں سے محفوظ اور صحت مند زندگی گزارنے میں انتہائی معاون ثابت ہوں گے۔
سنگترہ، مالٹا، کینو، فروٹل اور گریپ فروٹ ایسے رس دار پھل ہیں جن میں CITRIC ACID ٰپایا جاتا ہے۔ ان سب پھلوں کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ ان میں حیاتین ج (وٹامنC) خاصی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ اس حیاتین کو اسکاربک ایسڈ بھی کہتے ہیں۔ چوں کہ انسانی بدن یہ حیاتین تیار نہیں کرسکتا اس لیے ضروری ہے کہ اسے پھلوں اور کچی سبزیوں سے حاصل کیا جائے۔
سنگترے کا اصل وطن جنوبی چین ہے۔ اسے ابتدا میں جنوبی ہندوستان میں متعارف کرایا گیا، جہاں سے واسکوڈی گاما نے اسے 1498ء میں بیرونی دنیا سے روشناس کرایا۔ برصغیر میں اس کی کاشت زیادہ وسیع نہیں، البتہ موجودہ زیرکاشت آنے والی اقسام ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اسپین، برازیل، چین، جاپان، فلسطین، اٹلی، جنوبی افریقہ، مصر اور میکسیکو سے ہی بقیہ دنیا میں برآمد کی جاتی ہیں۔
سنگترے کی بہت سی قسمیں ہیں۔ سب سے اچھی اور اہم قسم کی جلد یا چھلکا بہت ڈھیلا ڈھالا ہوتا ہے۔ پھانکوں سے چپکی ہوئی جلد والے سنگترے کھٹے ہوتے ہیں۔ ڈھیلی ڈھالی جلد رکھنے والے سنگترے شیریں ہوتے ہیں اور برصغیر میں بہت مقبول ہیں۔ دوسری قسم کو یورپ میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پیوندکاری کے عمل کو بروئے کار لاتے ہوئے سنگترے کی ایک نئی قسم ایجاد کی گئی ہے۔ اس کی جلد ناگپوری سنگترے کی طرح پھولی ہوئی نہیں ہوتی۔ اس کا چھلکا قاشوں کے ساتھ پیوست نہیں ہوتا اور بآسانی اتارا جا سکتا ہے۔ اسے کینو کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ذائقے میں بہترین، خوشبودار اور شیریں ہوتا ہے۔ کینو کی بھی کئی اقسام ہیں، جن کی جسامت اور شکل مختلف ہوتی ہے۔ کچھ قسمیں قدرے کھٹاس والی ہوتی ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہ سنگترے کی اقسام ہیں اور ان میں سے تمام کی تمام شیریں ہوتی ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینو اور سنگترے کا استعمال سرطان جیسے موذی مرض سے بچاؤ میں مدد فراہم کرتا ہے، کیونکہ کینو میں شامل سٹرس لیمینائڈ جلد، پھیپھڑے، چھاتی اور معدے سمیت متعدد قسم کے سرطان سے بچاتا ہے۔
اگر روزانہ ایک گلاس کینو کا جوس پی لیا جائے تو اس سے نہ صرف گردے کی بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے بلکہ گردے میں ہونے والی پتھری سے بچاؤ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
انسان کی صحت کا زیادہ تر دارومدار اس کے دل کی فٹنس پر ہوتا ہے۔ دل جتنا صحت مند اور بیماریوں سے پاک ہوگا اتنی ہی اچھی زندگی آپ گزار سکیں گے، اور دل کو مکمل فٹ رکھنے کے لیے کینو کا استعمال کریں، کیونکہ اس میں پوٹاشیم شامل ہوتا ہے جو امراضِ قلب سمیت کولیسٹرول کو بھی قابو میں رکھتا ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ انسان کی جلد بھی ڈھلکنا شروع ہوجاتی ہے اور جھریوں کا شکار ہوجاتی ہے، لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینو میں وٹامن سی شامل ہوتا ہے جو جلد کے لیے انتہائی مفید ہے، اور اس کے علاوہ کینو بڑھتی عمر کے اثرات کو بھی روکتا ہے۔
ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی نے بلڈ پریشر کی زیادتی کو معمول بنادیا ہے جسے خاموش قاتل مرض بھی کہا جاتا ہے، اور اس کو قابو میں رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ لہٰذا کینو کا استعمال بلند فشارِ خون کو کم کرتا ہے اور اس کو قابو میں رکھتا ہے۔
جس طرح یہ پھل ظاہری زیب و زینت میں یکتائے روزگار ہے، اسی طرح یہ اپنے اندر کثیر فوائد بھی رکھتا ہے۔ سنگترے کی ترشی اور شیرینی اپنی قسم کی ایسی غذائیں ہیں کہ اگر انہیں معدے سے نہ گزاریں تو بھی کچھ مضائقہ نہیں، مگر چونکہ انسان اسے کھاتے ہیں، اس لیے انہیں معدے سے سابقہ پڑتا ہے، لیکن معدے کو یہ غذائیں ہضم کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرنی پڑتی اور فوراً یہ جزوِ بدن بن جاتی ہیں، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اگر سنگترے کی شیرینی کو صاف کرکے پچکاری کے ذریعے انسانی خون میں داخل کردیا جائے تو وہ فوراً براہِ راست اپنا عمل شروع کردیتی ہے۔ ضعیف اور لاغر افراد کے لیے اس کا رس آبِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
انسانی صحت اور تندرستی کے لیے سنگترے کی افادیت مسلمہ ہے۔ یہ دل اور معدے کو تقویت دیتا ہے، پیاس کو رفع کرتا ہے، پیشاب کھول کر لاتا ہے، منشیات کے مسموم اثرات کو زائل کرتا ہے، اس کی ترشی کھانسی اور گلے کی خرابی میں نقصان نہیں دیتی۔ مغل بادشاہ سنگتروں کو چھیل کر ان کے بیج اور گودے کو چینی اور گلاب کے شربت میں رات بھر مٹی کے برتن میں بھگونے کے بعد صبح صبح برف میں ٹھنڈا کرکے کھاتے تھے۔ اس کا نام انہوں نے ’’راحتِ جاں ‘‘رکھا تھا۔ یہ طبیعت میں بشاشت اور مسرت پیدا کرتا ہے۔ چہرے کی رنگت کو نکھارتا اور جسم میں قوت و توانائی پیدا کرتا ہے۔ اس کا گودا معدے کو تقویت دیتا ہے، دل کو مضبوط بناتا ہے، جگر کی اصلاح کرتا ہے۔
یورپی ماہرینِ طب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ خالص دودھ جس سے مکھن نہ نکالا گیا ہو وہ بھی سنگترے کے رس سے زیادہ غذائیت نہیں رکھتا۔ سنگترے کے رس میں تقریباً اتنی ہی غذائیت پائی جاتی ہے جتنی کہ خالص دودھ میں۔ گویا طبی نقطہ نظر سے سنگترے کا رس دودھ سے افضل تر ہے۔ دودھ کے لیے ضروری ہے کہ معدہ اسے ہضم کرے، جب دودھ مکمل طور پر ہضم ہوتا ہے تو جزوِ بدن بنتا ہے۔
سنگترے کا جوس وٹامن سی سے بھرپور ہوتا ہے اور اگر آپ اس کا باقاعدہ استعمال کریں تو نزلہ و زکام، سردی اور جلد کی متعدد بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سنگترے کا رس نکال کر اس میں چینی ملا لیتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کیونکہ اس طرح آپ کے جسم کو چینی کی غیر ضروری مقدار مہیا ہوتی ہے۔ آپ اس سے ہر صورت دور رہنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ صبح کے وقت سنگترے کا جوس پئیں گے تو بہت افاقہ ہوگا، لیکن ڈبے میں بند سنگترے کے جوس کے استعمال سے قبل اس پر موجود چینی اور دیگر اشیاء کی مقدار کو ضرور پڑھیں تاکہ علم رہے کہ آپ کتنی کیلوریز لے رہے ہیں۔
اطبائے قدیم و جدید اس امر پر متفق ہیں کہ سنگترے، مالٹے یا کینو کی پھانک کا گودا لے کر اس میں کسی قدر چینی شامل کرکے ذرا گرم کرکے استعمال کرانے سے بخار کے مریض کو بہت حد تک افاقہ ہوجاتا ہے۔ جب حیاتین ’ج‘ کم ہوجائے تو چڑچڑاپن پیدا ہوتا ہے۔ مسوڑھے خراب ہوجاتے ہیں۔ جوڑوں کا درد پیدا ہوتا ہے۔ قوتِ برداشت کم ہوجاتی ہے۔ بچے کا بدن بڑھتا نہیں۔ بیماری کو روکنے کی جسم میں طاقت نہیں رہتی۔
سنگترہ اپنے مفید اور صحت بخش اجزا کے باعث دیگر جسمانی اعضا کے علاوہ اعضائے رئیسہ کے افعال کو بھی درست کرتا ہے۔ دل اعضائے رئیسہ میں سے ایک عضو ہے، جس کی تندرستی انسانی جسم کے لیے بے حد ضروری ہے۔ دل کی تقویت کے لیے سنگترے کا جوس ایک کلو، مصری ایک کلو، عرق بید مشک ایک پاؤ، عرق کیوڑہ ایک پاؤ۔۔۔ سب کو ملا کر شربت تیار کرلیں۔ ایک گلاس پانی میں دو سے چار چمچ تک ملا کر استعمال کریں۔ مفرح و مقوی قلب ہے۔
بخار ایک نہایت تکلیف دہ مرض ہے۔ انسان اس کی شدت سے چاروں شانے چت ہوجاتا ہے۔ بخار کی حالت میں سنگترے کے رس کا استعمال بہت فائدہ مند ہے۔ جدید طبی تحقیق کی رو سے بخار کے مریضوں کے لیے سنگترے کے رس کے برابر کوئی دوسری غذا نہیں۔ بعض اوقات بخار کے مریض کو پیاس شدت سے لگتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے مریض کے جسم کے تمام زہریلے مواد خارج کردئیے جائیں جو اس کے خون، جلد اور گوشت کو جلانے کا باعث بنتے ہیں۔ سادہ پانی کے بجائے سنگترے کا رس استعمال کرانے سے نہ صرف پیاس ختم ہوجاتی ہے بلکہ یہ رس زہریلے مواد کے اخراج کا بھی سبب بنتا ہے۔ ٹائیفائیڈ کے مریض کو جو کے دلیہ کے ساتھ پاؤ ڈیڑھ پاؤ سنگترے کا رس ملا کر استعمال کرائیں۔ سردی کی وجہ سے ہونے والے ٹائیفائیڈ بخار کے مریض کو بلا ناغہ سنگترے یا کینو کھلاتے رہیں بلکہ بخار اترنے کے بعد بھی ایک ہفتے تک اس کا استعمال کراتے رہیں۔ لیکن سنگترے میٹھے ہونے ضروری ہیں، ورنہ ترشی کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہے اور بخار کے بگڑنے کا بھی خطرہ ہے۔
کینو کے ہر 100گرام کے اندر 53.2 ملی گرام وٹامن سی پایا جاتا ہے۔ وٹامن سی کے لیے کینو سب سے عام اور مستند ذریعہ ہے۔ اس کے اندر وٹامن A اور B اور مینگنیز، فاسفورس اور Dietary fiber بھی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
کینو، سنگترہ قوتِ مدافعت بڑھاتے ہیں۔ کولیسٹرول کم کرتے ہیں۔ عمر رسیدگی کے اثرات کم کرتے اور نظر کو بھی تیز کرتے ہیں۔
ہمارے جسم کو روزانہ حیاتین ’ج‘ کی جس قدر ضرورت ہوتی ہے، اس کا 2 سے 16فیصد ہمیں سنگترے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ حیاتین ’ج‘ ہمارے جسم میں ایک ایسا مانع تکسید جزو ہے جو پانی میں حل ہوجاتا ہے، لہٰذا اس کی وافر مقدار بڑی آنت کے سرطان سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دمہ، ورم مفاصل اور جوڑوں کے پتھرانے میں بھی مفید ہے۔ حیاتین ’ج‘ مدافعتی نظام کی درست کارکردگی کے لیے بھی اہم ہے۔ یہ نزلہ زکام کو روکتا ہے اور کان کے تعدیے میں بھی مانع ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حیاتین ’ج‘ کے ضمیے کھانے سے وہ فائدہ نہیں ہوتا جو سنگترے کا رس پینے سے ہوسکتا ہے۔
nn
ادرک نظامِ ہاضمہ کے لیے ایک بہترین نسخہ ہے۔ یہ پیٹ سے گیس خارج کرتی ہے اور معدے کے بھاری پن کو دور کرتی ہے۔ چینی اور ہندی تہذیب میں ادرک کو جادوئی سبزی کا درجہ حاصل ہے جو نہ صرف گاڑی میں سفر کے دوران چکر اور متلی کو روکتی ہے بلکہ کئی طرح کے درد اور دیگر علامات کو بھی دور کرتی ہے۔
برسہا برس کی تحقیق کے بعد ادرک کے یہ فوائد اب سائنس بھی مانتی ہے، تاہم پہلے یہ نوٹ کرلیں کہ ماہرین روزانہ دو گرام ادرک کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
جسمانی دفاعی نظام کی مضبوطی:
ادرک میں سردی اور زکام سے بچانے والا ایک اہم مرکب پایا جاتا ہے جو اس مرض کو پھیلانے والے رائنو وائرس کو حملے سے روکتا ہے۔ ادرک سینے میں جکڑن اور فلو کو روکتی ہے۔ کارڈف یونیورسٹی کے مطابق ادرک قدرتی طور پر اینٹی آکسیڈنٹس سے لبریز ہوتی ہے جو بخار اور درد کو کم کرتی ہے۔ بخار میں ادرک کی چائے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔
جوڑوں کے درد کا علاج:
غذائی ماہرین کے مطابق ادرک میں گٹھیا اور جوڑوں کا درد کم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ادرک میں موجود جنجرول نامی مرکب سوزش اور درد دور کرتا ہے۔ ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب گھٹنوں کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کو ادرک کے اجزا کھلائے گئے تو تکلیف میں کمی محسوس ہوئی۔
پٹھوں کے اینٹھن میں کمی:
جو لوگ جم میں جاکر وزن اٹھاتے ہیں یا سخت ورزش کے بعد پٹھوں میں کھنچاؤ سے پریشان ہیں وہ ادرک سے اس کا علاج ضرور کریں۔ ایک چمچہ ادرک روزانہ کھانے سے ورزش کرنے والے پٹھوں کی تکلیف میں 25 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ تیز دوڑنے والے کھلاڑی بھی ادرک سے اپنی تکلیف دور کرسکتے ہیں۔
ادرک معدے کی گرانی کا علاج:
ادرک نظامِ ہاضمہ کے لیے ایک بہترین نسخہ ہے۔ یہ پیٹ سے گیس خارج کرتی ہے اور معدے کے بھاری پن کو دور کرتی ہے۔ ہمارے معدے اور آنتوں سے خارج ہونے والے ہاضماتی رس کو بہتر بناکر ہاضمے کو تیز کرتی ہے۔ اس میں موجود ایک خامرہ (اینزائم) زنجابین اہم پروٹین کو توڑ کر اسے ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ماہانہ ایام کے درد دور کرے:
خواتین کو ہر مہینے تکلیف دہ ایام کا سامنا ہوتا ہے جو ان کے مزاج اور جسمانی کیفیت کو متاثر کرتا ہے۔ ادرک میں پائے جانے والے بعض اہم اجزا اس تکلیف کو کم کرتے ہیں۔
یادداشت کو بہتر بنائے :
ادرک الزائیمر جیسے دماغی مرض کو کم کرتی ہے۔ یہ دماغی خلیات کو ٹوٹ پھوٹ سے بھی بچاتی ہے۔ اس کے علاوہ دماغی اور نفسیاتی امراض کو بھی بڑھنے سے روکتی ہے۔ اس لیے ادرک کو شروع سے ہی خوراک کا حصہ بنانا چاہیے۔