اس سوال کا مقدمہ دو طریقوں پر دیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ جذبات فی نفسہٖ کیا ہیں۔
دوسرا یہ کہ جذبات من حیث الانسان کیا ہیں۔
اول الذکر کے حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ جذبات فی نفسہٖ وجود نہیں رکھتے بلکہ ان کی کیفیت شعور (جو کہ کُل ہے) کی موجودگی میں اضافی ہے۔ شعور ’’روح کے ذائقہ‘‘ کا نام ہے اور نفسیات اس کا جزو ہے۔ جذبات، محبت، نفرت، انسیت، دل لگی، بغض، حسد وغیرہم۔۔۔ سب کی تخلیق انسانی شعور کرتا ہے اور ان کی نشو و نما اور ترقی میں بہت سی چیزیں حاملِ کردار ہوتی ہیں، جس میں آب و ہوا، آس پاس کے حالات، علاقے کی مجموعی صورت حال، خاندان جس سے تعلق ہے، سرپرستوں کا رویہ، ذاتی نظریات وغیرہ شامل ہیں۔
کانٹؔ نے جذبات و احساسات کو صرف خوشی اور غم میں تقسیم کیا ہے۔ آج کے بھی بہت سے نفسیات دان اسی نظریے کے قائل ہیں۔ یعنی ایسے احساسات یا جذبات جو انسان کو مطمئن کریں یا پھر غیر مطمئن رکھیں۔ میرے نزدیک بھی یہی نظریہ درست ہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر تمام احساسات یا تو انسان کو مطمئن کرتے ہیں یا پھر غیر مطمئن یا مضطرب رکھتے ہیں۔
سائنس کی زبان میں ’’جذبات‘‘ کی اصل جسمانی طور پر کیمیائی تبدیلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مختلف ہارمونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز مختلف جذبات کو پیدا کرتے ہیں۔
مثلاً نار ایپی نیفرین (Norepinephrine) ایک ہارمون ہے جو خطرات کی گھڑی میں انسان کو حواس باختہ کرنے کا کام کرتا ہے۔ اور انسان یہاں سے وہاں بھاگتا دوڑتا ہے۔ خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، جسم گرم ہوجاتا ہے، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح ایپی نیفرین (Epinephrine) کا کام ڈر، ناراضی اور دل جوئی جیسی کیفیتیں پیدا کرنا ہوتا ہے۔
مزید ایسیٹل کولین (Acetylcholine) نامی نیورو ٹرانسمیٹر غم و رنجیدگی کی کیفیت میں مختلف کام کرتا ہے۔ جیسے دل کا ہلکا اور کمزور محسوس ہونا، شریانوں کا اکڑنا وغیرہ۔ سوچتے سوچتے اچانک آنکھوں میں آنسوؤں کا بھر جانا وغیرہ۔
اس کے برعکس سیروٹونین (Serotonin) کا کام خوشی اور سکون کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔ ٹیسٹو سٹیرون کا کام مرد میں جنسی خواہش کا ابھارنا۔ یہی کام عورت میں ایسٹروجن (Estrogen) کرتا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جذبات میں حافظے کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ ہماری تربیت اور مزاج جس طرح اور جس ماحول میں ترقی کرتے ہیں اسی حساب سے ہمارا دماغ مختلف چیزوں کو اہمیت دیتا ہے اور ان کے لیے جسمانی طور پر خاص رویّے پیدا کرتا ہے۔ یہ تجربات کو یاد رکھتا ہے۔ ایک ہی کیفیت دو مختلف لوگوں کے لیے مختلف کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک کیفیت ایک انسان کے لیے سخت بھیانک اور خوف ناک ہو۔ اور وہی کیفیت دوسرے کے لیے ایک عام بات ہو۔ اس صورت میں ایک ہی کیفیت میں جسم میں کیمیائی عوامل مختلف ہوںٖ گے۔ مثلاً ایک انسان کو ایک جگہ اگر ڈرنا ہے تو دماغ اس کیفیت کو ’’سٹیمیولس‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے اور اسی کے حساب سے پیغامات اور ہارمونز وغیرہ کا اخراج ہوتا ہے۔ دوسرے انسان کا دماغ اسی کیفیت میں بالکل پُرسکون رہتا ہے۔ یہاں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جذبات کا حقیقی دار و مدار دماغ کی نشو و نما، ماحول اورتجربات پر ہے جو میں نے ابتدائی طور پر عرض کیا ہے۔ اور جواباً جو کیفیت جسمانی طور پر بنتی ہے وہی جذبات ہیں۔
nn