(کراچی ٹرانسپورٹ مافیا(شفا ہما۔۔۔ کراچی

325

شہر کراچی میں سات دنوں میں سات المناک اموات کے باعث ٹرانسپورٹ کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ بشریٰ زیدی کی المناک موت سے لے کر نجانے کتنے ہی لوگ شہر کراچی میں ٹریفک حادثات کا شکار ہوئے اور کتنی ہی سیاست ان اموات کی آڑ میں کی گئی۔ ایم کیو ایم کا عروج بشریٰ زیدی کی موت کے ردعمل کا نقطہ آغاز تھا۔ اس کی بناء پر شہر میں لسانی خلیج گہری کی گئی اور ایم کیو ایم مہاجر مڈل کلاس کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھری۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے لے کر 2013ء تک ایم کیو ایم چار سال کے سوا ہر حکومت میں شامل رہی۔ گورنر، میئر اور صوبائی و وفاقی وزراء کی فوجِ ظفر موج مہاجر مڈل کلاس کی نمائندہ بن کر ہر حکومت میں رہی لیکن اس دور میں شہر کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بجائے حل ہونے کے ابتر ہوتا چلا گیا۔ شہر میں پہلے مرحلے میں سرکلر ریلوے کا خاتمہ کیا گیا، اور اس کے بعد شہر کراچی کی سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی کے ٹی سی کو بند کردیا گیا۔ شہری نمائندے مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے اس شہر کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بند کرنے کے جرم میں برابر کے شریک رہے۔
پرویزمشرف کے دور میں ایک بار پھر بلدیاتی نظام حکومت بحال ہوا تو ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے شہر کے انفرااسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ کی بحالی کا بیڑا اٹھایا۔ ایک طرف کراچی پیکیج سے خطیر رقم حاصل کرکے شہر میں سڑکوں اور فلائی اوورز کا جال بچھایا تو دوسری جانب وفاقی حکومت کی توجہ کراچی کے ٹرانسپورٹ کے سنگین مسئلے کی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوئے۔ شہری حکومت نے براہِ راست ایک نئی بس سروس کی داغ بیل ڈالی اور جدید ترین گرین بسیں کراچی کی سڑکوں پر اٹھارہ ماہ کے قلیل عرصے میں رواں دواں ہوگئیں۔ ان بسوں کی امپورٹ اور ڈیوٹی کی معافی کے لیے ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی کوششوں کی بدولت نہ صرف وفاقی حکومت نے امپورٹ کی اجازت دی بلکہ ڈیوٹی بھی معاف کردی، جس کی بدولت شہر کراچی کے باسیوں کو ایک جدید، سہل الحصول اور برق رفتار ٹرانسپورٹ میسر ہوئی۔ اس منصوبے کو مختلف مراحل میں بڑھا کر شہر میں ایک ہزار بسوں کو سڑکوں پر رواں دواں کرنا تھا جوکہ میٹرو بس سروس سے کہیں بڑا اور لاگت میں انتہائی کم وسائل کا منصوبہ تھا۔
نعمت اللہ خان کی ہی توجہ پر سرکلر ریلوے کی بحالی کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کو بی او ٹی کی بنیاد پر بحال کرنے کے لیے ’جائیکا‘ نے دلچسپی ظاہر کی۔ نعمت اللہ خان کے دور میں منصوبہ سازی مکمل ہونے کے باوجود صوبائی حکومت (جس میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی شامل تھیں) سرکلر ریلوے کی زمین خالی کروانے میں ناکام رہی، اور یوں ’جائیکا‘ نے چھ سال مسلسل انتظار کے بعد اس منصوبے پر کام کرنے سے معذرت کرلی۔
کراچی کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ 25 یا 30 بسوں سے حل ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک مربوط منصوبے کی ضرورت ہے کہ جس میں لوپ روڈز، بسیں، سرکلر ریلوے اور لائٹ ٹرین کے منصوبے شامل ہونے چاہئیں۔ کراچی کا ماس ٹرانزٹ منصوبہ ابھی تک فائلوں میں پڑا سڑ رہا ہے، اس کو دوبارہ نکال کر عمل کے قالب میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام تینوں حکومتوں وفاقی، صوبائی اور شہری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر اخلاصِ نیت کے ساتھ کام کا آغاز کریں۔ اسی طرح اس شہرِ ناپرساں کے عوام، میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سنگین مسئلے کو اس کی سنگیی کی طرح اٹھائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح اس شہر میں ایک لاش سے لے کر دوسری لاش گرنے کا عمل امن کہلاتا تھا، ٹرانسپورٹ کا یہ مسئلہ بھی خدانخواستہ کسی اور سنگین حادثے کے بعد ہی اٹھایا جائے۔
۔۔۔ڈاکٹر اسامہ شفیق۔۔۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جنونیت
غلیظ لطیفوں، منتقم مزاجی، مخالفین کی تنقید پر برہمی سمیت خواتین کو کھلونا اور مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی تجزیہ نگاروں اور ماہرین نے ذہنی بیمار اور غیر متوازن شخصیت کا حامل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ امریکہ سمیت دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔ آن لائن امریکی جریدے ’پالیٹکس یو ایس اے‘ نے ایک تجزیے میں انکشاف کیا ہے کہ ایک درجن سے زائد امریکی سائیکاٹرسٹ، سائیکاتھراپسٹ اور نوبل انعام یافتہ ماہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقاریر، طرزِ حیات اور سیاسی فیصلوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کو ذہنی اعتبار سے بیمار قرار دیا ہے۔ اس پورٹ کی تائید امریکی صدر کے حالیہ کچھ فیصلوں نے کردی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں عیسائیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہم اس کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی اور مسلم دشمن اقدامات سے آغاز کے بعد ٹرمپ نے اس پیغام کے ذریعے ایک اور صلیبی جنگ کا اشارہ دے دیا ہے۔ مسلمانوں کی آمد روکنے سے متعلق امریکی صدر کے فیصلے پر عالمی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ری پبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے بعض رہنماؤں نے بھی سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ری پبلکن سینیٹر جان مک کین نے ٹرمپ کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کا یہ اقدام داعش کے مفاد میں ہوگا اور اس سے داعش کی پروپیگنڈا مہم کو تقویت ملے گی۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کے لیڈر چیک شومل کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے وحشت ناک ایگزیکٹو آرڈر، پوری انسانیت اورہماری قومی سلامتی پر دھبہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ میں رہنے والے مسلمان شدید خطرے کا شکار ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنے اور حجاب والی خواتین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کے اعلانات بھی کیے تھے جس کے بعد مختلف امریکی ریاستوں میں مساجد کو دھمکی آمیز خطوط بھیجے گئے جن میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو امریکہ سے چلے جائیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد مسلمانوں کی نسل کُشی کی جائے گی۔ ان تمام اعلانات پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔ سینکڑوں مساجد کو شہید اور درجنوں مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ یمن میں امریکی ڈرون حملے میں 57 مسلمانوں کی شہادت ٹرمپ کی جنونیت کی بدترین مثال ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے ایران، عراق، شام، یمن، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان کے 13 کروڑ 40 لاکھ شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جن کے پاس ویزا اور گرین کارڈ ہیں، انہیں بھی امریکی اڈوں سے واپس بھیجا جارہا ہے۔ امریکہ میں مقیم 30 لاکھ پناہ گزینوں میں سے امریکی حکومت صرف 20 پر دہشت گردی کا الزام لگا سکی ہے۔ 40 برس میں کسی کے خلاف قتل کا الزام بھی ثابت نہیں ہوا۔
ان تمام حقائق کو نظر میں رکھتے ہوئے مسلمانوں پر پابندی کے فیصلے کو ٹرمپ کی جنونیت، انتہا پسندی، تنگ نظری یا ذہنی بیماری کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے؟ دوسری طرف مسلمان عالمی رہنماؤں کا ٹھوس ردعمل سامنے نہ آنا بھی حیران کن امر ہے۔ او آئی سی کو اس سلسلے میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔ مسلمان کیوں خاموش ہیں؟ او آئی سی صرف معمولی بیانات دینے پر کیوں اکتفا کررہی ہے؟ پاکستانی رہنما کیوں دولت سمیٹنے کی جدوجہد ختم نہیں کررہے؟ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ کیا عالمی محاذ پر ترکی کو تنہا چھوڑ دینا مناسب ہے؟ مسلمانوں پر مشکلات کے اس دور میں بھارتی دباؤ پر حافظ سعید کی نظربندی کیا صحیح فیصلہ ہے؟

حصہ