مسلم امہ اور مخالف مغرب کے درمیان طاقت کا کوئی توازن ہے؟ اگر کوئی توازن موجود نہیں، کوئی موازنہ ممکن نہیں، تو پھر یکطرفہ ٹریلین ڈالر جنگ کا جواز کیا ہے؟ یہ دہشت و وحشت کا کاروبار کیا ہے؟ کیا محض اسلام دشمنی کا بخار ہے؟ لہو گرم رکھنے کا کوئی سپر پاور بہانہ ہے؟ مسلمان بہانہ اور اسلام اصل نشانہ تو نہیں؟ اصل مسئلہ کہیں دینِ اسلام اور مخالف مغرب کے درمیان طاقت کے توازن کا تو نہیں؟ یہاں طاقت کی اصطلاح وضاحت طلب تو نہیں؟ مغرب دینِ اسلام سے خوفزدہ تو نہیں؟
امریکہ کے معروف دانشور اسٹیفن والٹ نے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان طاقت کے توازن کا دلچسپ موازنہ کیا ہے۔ اسٹیفن والٹ نے طاقت کے مغربی اور مادی معیارات پر دعویٰ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں سے دشمنی اور یکطرفہ جنگ نہ صرف متعصبانہ ہے، بلکہ اسٹرے ٹیجک غلطی بھی ہے۔
عالمی جریدے فارن پالیسی میں “Five Ways Donald Trump Is Wrong About Islam” کے عنوان تلے اسٹیفن والٹ کہتے ہیں کہ ’’امریکہ کی خارجہ پالیسی حقیقت کے منافی ہے۔ بالخصوص یہ طاقت کا عدم توازن ہے، دہشت گردی کے خدشات بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے، اور اسلام دشمن جنونیوں کی دیومالائی کہانیوں پر انحصار کررہی ہے۔ اگر صلیبی جنگ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا اصولِ حرکت بن گئی، تو امریکہ اور اتحادیوں کے لیے سراسر نقصان کا سودا ہوگا۔ اس وقت اسلام کے مقابلے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر مغرب کے حق میں ہے۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ مسلم دنیا کی 1.6 ارب آبادی متحد ہوجائے، تب بھی امریکہ اور مغرب کا مقابلہ کرنے کی اہل نہیں۔ 57 مسلمان اکثریتی ریاستوں کی معیشت یکجا کردی جائے، تو پانچ کھرب ڈالر جی ڈی پی بنتا ہے، جبکہ صرف امریکہ کا جی ڈی پی سترہ کھرب ڈالر ہے، تقریباً اتنا ہی جی ڈی پی یورپ کا ہے۔
عسکری میدان میں دیکھا جائے، تو مسلمانوں کی مجموعی جنگی اہلیت کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ سال مسلمان ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ 270 ارب ڈالرتھا، جبکہ صرف امریکہ کا تنہا دفاعی بجٹ 600 ارب ڈالر رہا۔ مسلمان ملکوں کی بحری قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مسلم ممالک میں اتحاد کی حالت بھی خستہ ہے۔ امریکہ اور مغرب میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا خدشہ بھی بے بنیاد ہے۔ امریکہ میں 33 لاکھ مسلمان مجموعی آبادی کا ایک فیصد ہیں، جو2050ء تک دو فیصد ہوسکتے ہیں۔ یہ تعداد امریکہ میں کوئی اسلامی انقلاب برپا نہیں کرسکتی۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے، القاعدہ اور داعش جیسے منتشرگروہوں کے خطرے کا نازی جرمنی یا سوویت یونین سے موازنہ احمقانہ ہے۔ دہشت گردی کے خدشے کی شرح بھی مبالغہ آرائی کا شاہکار ہے۔ نائن الیون حملے سمیت آج تک، دہشت گردی سے مرنے والے امریکیوں کا تناسب تیس لاکھ میں فی فرد سالانہ ہے، یہ تناسب پینتالیس ہزار میں سے فی فرد تاحیات ہے۔ قدرتی موت کی شرح کا تناسب نسبتاً بہت زیادہ ہے۔‘‘
مال مرتکز دنیا میں اسٹیفن والٹ کا تجزیہ سوفیصد قابلِ فہم ہے، معقول ہے۔ یہ موازنہ مغرب میں جنگوں کی تاریخ کا قابلِ قبول پیمانہ پیش کررہا ہے۔ مغرب میں لڑائیاں جیتنے کی کسوٹی یہی رہی ہے۔ یہ تباہی کی طاقت کا نسخۂ جیت ہے۔ مذکورہ معیاراتِ طاقت صرف اور صرف تباہی کا نسخہ ہیں، مغرب کی جنگی تاریخ ٹھوس ثبوت ہے۔
مسٹر اسٹیفن والٹ تجزیے میں جو حقائق نظرانداز کرگئے، ان حقائق سے شاید مسٹر ٹرمپ اینڈ کمپنی بھی واقف نہ ہو۔ مگر دہشت گرد جنگ ساز بخوبی واقف ہیں۔ یہ حقائق اسلام کی تاریخ کے ہر موڑ پر نظرآتے ہیں۔ افغان جہاد نے نصف صدی سے قائم پندرہ کمیونسٹ ریاستوں کا انقلابی اتحاد پارہ پارہ کیا، یہ عظیم واقعہ اسٹیفن والٹ کے مذکورہ معیاراتِ طاقت کے پیمانے میں کسی توازن تو کیا، کسی وزن تک کا حامل نہ تھا، کیونکہ اسلام کی یہ فتح روسی آبادیوں کی تباہ کاریوں پر مبنی نہ تھی۔ اہلِ نظر دشمن نظریں نہ چرا سکے، دانش سے دشمنی نہ کرسکے۔ طاقت کا اسلامی فلسفہ نگاہوں میں پھرگیا۔ تاریخ کے پھڑپھڑاتے اسباق ایک ایک کرکے روشن ہوتے گئے۔ 313 نفوس کی بے سر و سامان پیش قدمی سے اندلس کے پانیوں میں جلتی کشتیوں تک، اور ایوبی فتوحات سے کمیونزم کے انہدام تک، کہیں مغرب کا معیارِ طاقت محرک نظر نہ آیا۔
سو ثابت ہوا، اسٹیفن والٹ مسئلہ استشراقیت کا شکار ہوگئے۔ وہ واقف نہیں کہ اسلامی فتوحات مالی و مادی برتری، افرادی قوت، یا اسٹنگر میزائلوں سے حاصل نہیں ہوئیں۔ یہ فتوحات اول و آخر روحانی قوت، اخلاقی معراج، دعوتِ حق، اور ایمان کی منہاج پر شہادت سے سرفراز ہوئیں۔ یہ مذکورہ بیانیہ سوویت یونین کی شکست و ریخت سے پہلے تک تمسخرکی زد میں تھا، جدیدیت پسند اور لبرل حضرات اسے ماضی کی سنہری بھول بھلیاں کہہ کر ٹھٹھول کیا کرتے تھے۔ آج غزہ کے کناروں سے کشمیر کے چناروں تک، اور مصری زنداں کی دیواروں سے بنگال کے پھانسی گھاٹوں تک پھر اسلامی قوت کا سرچشمہ رواں دواں ہے۔
سب سے بڑھ کر جو حقیقت اسٹیفن والٹ کی نگاہ سے اوجھل ہے، وہ مغرب کا نظریاتی و شناختی بحران ہے۔ آج امریکہ، روس، یورپ، اور مغرب کی مجموعی زندگی میں انسان کا کوئی مفہوم نہیں۔ مغرب کا یہ انسان کون ہے؟ کیوں ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ اس انسان کی کوئی قدر،کوئی معیار ہے؟ اس کی کوئی شناخت ہے؟ یہ بیٹ مین ہے، سپرمین ہے، اسپائیڈرمین ہے، یا ایکس مین ہے؟ یہ لبرل ہے، نیولبرل ہے، کمیونسٹ ہے، یا فاشسٹ ہے؟ نہ جانے کیا کیا الا بلا ہے؟ بس کچھ نہیں ہے تو ’انسان‘ نہیں ہے۔
پس، اسلام کے فلسفۂ طاقت کو جان لینا چاہیے۔ آدمی کو’انسان‘ بنانے اور معاشرے کو’انسانی تہذیب‘ سے روشناس کروانے کا نسخۂ طاقت اسلام کے پاس ہے۔ یہ تعمیرکی طاقت کا نسخہ ہے۔ اسلام کی جنگی تاریخ ٹھوس ثبوت ہے۔ اسلام کی ’فتح‘ کا یہی مفہوم ہے کہ جہاں جہاں اسلام پہنچا ہے، معاشرے تعمیر کیے ہیں، تہذیبِ انسانی مستحکم کی ہے، اور علم اور انصاف کو فروغ ملا ہے۔ اندلس کے ساحل پر اسلام لنگرانداز ہوا تو یورپ پر سے اندھیر زمانے چھٹے، آکسفورڈ اور کیمبرج کے ماڈل میسر آئے۔ تعمیر کی طاقت کا یہی نسخۂ کیمیا ہے، جس سے جنگ ساز خائف ہیں، کیونکہ یہی دجل کا تریاق ہے۔
nn