(چیلنجوں سے مل کر نمٹنے کی ضرورت ہے،(میاں منیر احمد

208

فرائیڈے اسپیشل: حکومت کا مالی حصہ کتنا ہوتا ہے؟
ماروی میمن: حکومت کا حصہ 86 فی صد ہوتا ہے، باقی ڈونرز سے لیا جاتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: طریقہ کار کیا ہے، کیسے معیار بنایا جاتا ہے کہ کون حق دار ہے؟
ماروی میمن: ہم نے ایسے خاندانوں کی شناخت کے لیے گھر گھر جاکر سروے کیے ہیں۔ ملک کے ہر صوبے میں ایسے سروے ہوئے ہیں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی ہوئے ہیں، جس کے بعد ہمیں ڈیٹا ملا اور اس کے بعد کام شروع ہوا۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ سروے پہلے بھی ہوا تھا؟
ماروی میمن: جی ہوا تھا، لیکن اب بہتر انداز میں ہوا ہے، ہم نے کمیٹیاں بنائی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: حالیہ کوئی تازہ سروے؟
ماروی میمن: بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ہوئے ہیں، لکی مروت میں ہوئے، بلوچستان کے بہت سے شہروں میں ہوئے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے ایک ٹول فری نمبر 0800-26477 دیا ہے اور ہر ضلع میں بینیفشری کمیٹیاں بنائی جارہی ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے وسائل مہیا کیے جارہے ہیں۔ 13 لاکھ بچوں کو اسکول بھیجا، جس پر 598 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔ اسی طرح 40 لاکھ خواتین کو شناختی کارڈ بناکر دیے کہ وہ اپنا ووٹ ڈال سکیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کتنے اضلاع میں ہوا ہے؟
ماروی میمن: اب تک 32 اضلاع میں 48 ہزار سینٹر قائم ہوئے ہیں، اور میں خود مستحق خاندانوں کے ساتھ روزانہ ریڈیو پر رات گیارہ بجے تک رابطہ فون پر رابطے میں رہتی ہوں۔
فرائیڈے اسپیشل: کیا کوئی تربیتی پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے؟
ماروی میمن: جی ہاں، پورے ملک میں 58228 افراد کی تربیت کی گئی ہے۔ بائیو میٹرک سسٹم بھی شروع کیا جارہا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: خواتین کے لیے کیا طریق کار ہے، وہ رقم کس طرح وصول کرتی ہیں؟
ماروی میمن: ابھی تک جو بھی کوشش ہوئی ہے اس کے مطابق 89 فی صد ڈیبٹ کارڈ سے پیسے لیتی ہیں۔ اسی طرح کچھ ڈاک خانے سے، موبائل فون یا ایزی پیسہ کے ذریعے رقم حاصل کرتی ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: ایک شکایت ہے کہ بہت سے موبائل پیغامات ملتے رہتے ہیں کہ آپ کی انعامی رقم نکل آئی ہے۔ یہ سلسلہ کیوں نہیں روکا جاسکا؟
ماروی میمن: اس کے لیے پی ٹی اے کام کررہا ہے، وہ ان غیر قانونی حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔ یہ واقعی ایک شکایت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ نے ملک میں مقامی زبانوں کے فروغ کے لیے کام کیا ہے، اس کی کچھ تفصیلات بتائیے۔
ماروی میمن: پاکستانی زبانوں کے فروغ سے ملک مضبوط ہوگا، قومی وحدت اور ہم آہنگی بڑھے گی، تمام زبانوں کو فروغ دینا موجودہ حکومت کے ترجیحی مقاصد میں شامل ہے۔ پاکستانی زبانوں کی ترقی و فروغ کے لیے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کیا جائے۔ لینگویج کمیشن آف پاکستان کے قیام کی سفارش ایک اہم قدم ہے۔ پاکستانی زبانوں کے فروغ کے لیے بطور چےئر پرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، آغاز کیا ہے اور ہر ضلع سے خواتین کی کہانیاں تحریر کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ یہ کہانیاں اُن بے روزگار خواتین کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ہوں گی جو غربت سے لڑکر آگے بڑھ رہی ہیں ۔ یہ پاکستانی زبانوں کو اہمیت دینے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ یہ کہانیاں ان کی اپنی زبان میں کتابی صورت میں شائع کی جائیں گی، جن کا انگریزی اور اردو ترجمہ بھی شائع کرکے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا جائے گا۔ اس طرح یہ کہانیاں ایک کتاب کی صورت میں میسر ہوں گی۔ انہی کہانیوں کی بنیاد پر اسٹریٹ تھیٹر پر بھی کام کیا جارہا ہے جو مختلف علاقوں میں مقامی زبانوں میں پیش کیا جائے گا۔ ان کہانیوں کے تراجم اور ایڈیٹنگ کے سلسلے میں اکادمی ادبیات پاکستان کی خدمات حاصل کی جائیں گی تاکہ تمام کہانیاں ایڈٹ اور ترجمہ ہوسکیں۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے کمیشن قائم ہونا چاہیے تاکہ ہر زبان یکساں طور پر فروغ پا سکے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکومت کی معاشی پالیسیوں سے کس حد تک مطمئن ہیں؟
ماروی میمن: حکومت جی ڈی پی، سرمایہ کاری اور ٹیکس کے تناسب سمیت اہم معاشی اشاریوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ہم پائیدار، ٹھوس اور بلند معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ بجٹ خسارے کو اگلے مالی سال میں چار فیصد تک محدود رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد بجٹ خسارے کو 3.5فیصد پر لایا جائے گا جیسا کہ ترمیم شدہ مالی ذمہ داری اور قرض محدود ایکٹ میں بیان کیا گیا ہے۔ اقتصادی اصلاحات کے پروگرام کو جاری رکھا جائے گا جو کہ مالی سال 2013-14ء کے آغاز میں طے کیا گیا تھا، اور گزشتہ تین سال سے کامیابی کے ساتھ اس پر عمل جاری ہے۔ حکومت نے پہلے ہی مضبوط معاشی اصلاحات کی ہیں جس سے ملک میں معاشی مواقع بڑھنے سے معاشی ترقی ہوئی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: یہ پاناما کیس کیا ہے؟
ماروی میمن: جھوٹ ہے، جھوٹے الزامات لگا کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا عمران خان کا شیوہ ہے۔ تحریک انصاف شر پھیلانے والا گینگ بن چکی ہے۔ پی ٹی آئی نے جھوٹ اور بے بنیاد الزامات کا نیا پلندہ عدلیہ میں جمع کرایا ہے۔ عدالت کو ایک بار پھر گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہم مستردکرتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: حالیہ دہشت گردی پر کیا کہیں گی؟
ماروی میمن: پچھلے دنوں کئی ایسے دلخراش واقعات ہوئے جس سے قوم کا ہر فرد دکھی ہے۔ یہ ایک ایسا وقت ہے جس میں قوم کواتحاد اور مل جل کر تمام چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ذمہ داری بحیثیت قوم سب سے زیادہ ہے۔ یقیناًپچھلے ادوار میں پاکستان جس طرح آگے بڑھا، مختلف معاملات میں ترقی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے بیچ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جسے ہم پاناما لیکس کہتے ہیں، جس میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک کے نام آئے، جبکہ اس لیکس کے حوالے سے پاکستان میں ایک جماعت نے عجیب قسم کا ہیجان برپا کیا۔ اگرچہ وزیراعظم کا اس میں نام نہیں تھا، وہ کیس سپریم کورٹ میں گیا اور ہم بھی چاہتے تھے کہ سپریم کورٹ ہی اس کیس کا فیصلہ کرے۔ اب یہ کیس اپنے اختتامی مراحل میں ہے، کچھ لوگ عدالت کو بھی شاید کنٹینر سمجھتے ہیں کہ جب دل چاہا منہ اٹھایا اور جو دل میں آیا کہہ دیا۔ جب عدالت نے ثبوت مانگے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ فرائیڈے اسپیشل: آپ کا ایمپائر کون ہے؟
ماروی میمن: اس کیس کے حوالے سے ہمارا ایمپائر تو سپریم کورٹ آف پاکستان ہے، جمہوریت کے حوالے سے عوام ہیں، پاکستانی ہونے کے ناتے ملک کا مفاد ہمارا ہدف ہے۔ پاناما کیس میں جب تحریک انصاف سپریم کورٹ گئی تو اس نے سمجھا کہ شاید ان کے پاس بہت زیادہ ثبوت ہیں، لیکن جب عدلیہ نے ثبوت مانگے تو اس پر یہ رائے آئی کہ یہ وہ کاغذات ہیں جو تحریک انصاف کے حالیہ جھوٹ کے پلندے ہیں۔ پاناما لیکس کے حوالے سے آپ کے پاس بہت وقت تھا، جتنا وقت آپ نے مانگا سپریم کورٹ نے آپ کو دیا۔ آپ نے وکیل بدلے، دلائل بدلے، کوائف بدلے، مگر آپ خود نہیں بدلے۔ اگر آپ خود بدل جاتے تو بہت سے معاملات ٹھیک ہوجاتے اور شاید قوم کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوتا۔ اس نئے جھوٹ کے پلندے میں کوئی بھی نیا ثبوت شامل نہیں ہے۔ کوئی بھی بات جو قوم اور عدالت کے لیے نئی ہو اس میں شامل نہیں ہے۔ پہلے ثبوت دینے میں ناکام رہے اور اب ایک نیا اعداد وشمار کا پلندہ لائے ہیں۔ تحریک انصاف کی پوری تاریخ جھوٹ سے بھری پڑی ہے۔ یہ بھی اسی جھوٹ کی ایک کڑی ہے۔ پہلے 35 پنکچر کا الزام لگایا، پھر کہہ دیا یہ میرا سیاسی بیان تھا۔ پھر پرنٹنگ پریس کا ذکر کیا اور کہا کہ وہاں جعلی بیلٹ پیپر بنائے گئے ہیں۔ اس کے بعد اس بیان سے بھی مُکر گئے۔ ہمارے ساتھ ان کا دھاندلی سے متعلق کمیشن کا معاہدہ ہوا، اس میں طے ہوا کہ اگر ہمارے خلاف فیصلہ آیا تو ہم حکومت چھوڑ دیں گے، اگر آپ کے خلاف فیصلہ آیا تو آپ قوم سے معافی مانگیں گے۔ لیکن وہ اپنے اس وعدے سے پھر گئے۔ وہ متضاد بیانات دیتے رہے، پہلے کہتے رہے کہ ہمارے پاس ثبوت ہیں، جب ثبوت مانگے گئے تو کہا ہمارا کام تو الزام لگانا ہے۔ یہ ان کا غیر سنجیدہ طرزِ سیاست ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنا یہ طرز سیاست برقرار رکھیں تاکہ الیکشن 2018ء میں ہمیں زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔
nn

انٹرویو

حصہ