پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں جو عنصر سب سے زیادہ طاقتور اور غالب نظر آتا ہے وہ کرپشن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم نے سب سے زیادہ ترقی اسی شعبے میں کی ہے۔ پاکستان کا کون سا سرکاری یا نیم سرکاری محکمہ کرپشن کی لعنت سے پاک ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا صرف ایک ہی جواب ہے ’’کوئی نہیں‘‘۔ جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں کرپشن نے اپنی جڑیں پھیلانا شروع کیں، اور آج یہ جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہوچکی ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا تقریباً ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ کرپشن کی غلاظت میں اس قدر لتھڑ چکا ہے کہ اب وہ کرپشن کو کرپشن سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس لعنت کو خوبصورت نام دے دیے گئے ہیں، کہیں اسے ’’کمیشن‘‘ کہا جاتا ہے، کہیں ’’چائے پانی‘‘، کہیں اس کو ’’پرسنٹیج‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور کہیں اس لعنت پر ’’ڈونیشن ‘‘ اور فیس کا ملع چڑھا دیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کرپشن کے بارے میں تصور رشوت خوری تک محدود ہے۔ یہ تاثر درست نہیں، درحقیقت ہر قسم کی بے قاعدگی اور ہر وہ عمل جو شرعی احکامات، قانونی ضابطوں اور اخلاقی و سماجی اقدار کی نفی کرتا ہے کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ جس معاشرے میں کرپشن کی جڑیں جتنی گہری اور مضبوط ہوں گی وہ معاشرہ اخلاقی اور معاشی اعتبار سے اتنا ہی کھوکھلا اور کمزور ہوگا۔ ہمارے اکابرین نے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ ہم ایک آزاد اور خودمختار ملک میں اسلامی تعلیمات اور اقدار کی روشنی میں ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے جائیں۔۔۔ جہاں عدل ہو، قناعت ہو، محرومیاں نہ ہوں، کوئی کسی کمزور کا حق غصب کرنے کی جرأت نہ کرے، حکمرانوں کا طرزِ زندگی سادہ ہو اور وہ عوام کو جوابدہ ہوں، عدالتوں میں بروقت انصاف کرنے کا نظام ہو، عوام معاشی طور پر تنگ دست نہ ہوں، بے سہارا اور مالی طور پرکمزور افراد کی کفالت حکومت کی ذمہ داری ہو، اور ہر کام قاعدے، قانون اور میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ لیکن افسوس یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا، بلکہ اس کے برعکس کرپشن کی لعنت نے ہمارے معاشرتی نظام اور اخلاقی اقدار کو تباہ کردیا ہے اور اس کی جڑ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے۔ یہی اصل مقصدِ حیات بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن ایک آرٹ اور فن کا درجہ حاصل کرچکی ہے اور کرپشن کے ایسے ایسے طریقے وضع ہوچکے ہیں کہ عقل حیران ہے۔ جس معاشرے میں اعلیٰ سے ادنیٰ سطح تک خود احتسابی کا فقدان ہو، احتساب کرنے والے ادارے اور افراد خود کرپشن کے دریا میں ناک تک ڈوبے ہوئے ہوں، حکمراں اندرون ملک اور بیرون ملک بڑے بڑے منافع بخش کاروبار کررہے ہوں، قومی ادارے کرپٹ اور نااہل افراد کے سپرد کردیے جائیں، حکمرانوں کی ترجیحات عوام کو درپیش سنگین مسائل سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، حکمراں عوام کو تو سادگی کا درس دے رہے ہوں اور خود عوام کے ٹیکسوں کی آمدنی پر عیش کررہے ہوں اور اپنے بے معنی اور لاحاصل قسم کے غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے صرف کررہے ہوں، حج جیسے اہم اسلامی رکن کی ادائیگی میں بھی عوام لو لوٹا جارہا ہو، انتخابی عمل کی شفافیت مشکوک ہو، کرپٹ سیاست داں چاہے وہ حزبِ اقتدار کا حصہ ہوں یا حزبِ اختلاف کا، جمہوریت کے نام پر ایک دوسرے کی کرپشن اور نالائقیوں پر پردہ ڈال رہے ہوں، بیوروکریٹس عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے اور منافع بخش پوسٹنگز اور زیادہ سے زیادہ مراعات کے حصول کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی فکر میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہوں، سرکاری دفاتر میں جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت کا سہارا لینا ناگزیر ہو، صوابدیدی فنڈز کے نام پر قومی خزانے کے کروڑوں روپے حکمرانوں اور بیوروکریٹس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں پر ضائع کیے جارہے ہوں، سرکاری ٹھیکوں میں بے قاعدگیاں معمول کا حصہ ہوں اور ہر سطح پر پرسنٹیج طے ہو، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مقامی سطح کے مینوفیکچررز جب چاہیں اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھانے میں آزاد ہوں اور ان پر کوئی قاعدہ قانون لاگو نہ ہو اس معاشرے میں آزادی اور خودمختاری کے معنی و مفہوم بدل جاتے ہیں۔ ایسا معاشرہ بے لگام آزادی کے بھنور میں پھنس کر بالآخر غرق ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تاجر منافع خوری میں آزاد ہیں، سڑک چھاپ غنڈے اور بدمعاش نہتے عوام کو لوٹنے میں آزاد ہیں، سرکاری عمّال رشوت بٹورنے میں آزاد ہیں، نالائق اور حریص سیاست داں اپنی تجوریاں بار بار بھرنے میں آزاد ہیں، صاحبانِ اقتدار قومی خزانہ لوٹنے میں آزاد ہیں، ڈاکٹر اور وکیل من مانی فیس وصول کرنے میں آزاد ہیں، ضروری اشیائے صرف کی مصنوعی قلت پیدا کرکے ان کی من مانی قیمتیں وصول کرنے میں ذخیرہ اندوز آزاد ہیں، لینڈ مافیا چائنا کٹنگ کرنے میں آزاد ہے، عدالتیں مقدمات کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر کرنے میں آزاد ہیں، رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور من مانے کرائے وصول کرنے میں آزاد ہیں، غرضیکہ ہمارا ہر شعبۂ زندگی انتہا درجے کی بے قاعدگیوں اور حد درجہ ابتری کا شکار ہے۔ ان تمام مسائل کا حل صرف اور صرف بے رحمانہ احتساب اور قانون کے سخت نفاذ میں مضمر ہے۔ لیکن احتساب کون کرے؟ کیا بدعنوان اور کرپٹ عناصر‘ بدعنوانوں کا احتساب کرسکتے ہیں؟ اس لیے کرپشن کے خاتمے کی دور دور تک کوئی امید نظر نہیں آتی۔
nn