قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان ادبی حلقوں میں ایک معتبر تنظیم کی حیثیت سے معروف ہے۔ اس کے بامقصد اور معیاری پروگرام بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے اس سے قبل آصف جیلانی، جلیس سلاسل، ایس ایم ظفر ایڈووکیٹ، ڈاکٹر معین الدین احمد، نسیم انجم کی کتب کی یادگار تقاریب منعقد ہوئیں۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی پر لکھی گئی پروفیسر شاہین حبیب صدیقی کی کتاب کی تقریب رونمائی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ڈاکٹر امیر حسن صدیقی اسلامی تاریخ کے اہم ترین اسکالر اور تعلیمی امور میں قائداعظم محمد علی جناح کے معتمد ترین ساتھی تھے اور انگریزی اور اردو زبان کے بے مثل مقرر اور ادیب تھے۔ وہ بدایوں بھارت میں 1901ء میں پیدا ہوئے اور اپنے ضلع میں پہلے پی ایچ ڈی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قابلِ فخر سپوتوں میں شامل ہیں۔1943ء میں قیام پاکستان سے قبل وہ سندھ مدرسۃ الاسلام کالج کے بانی پرنسپل ہوئے، اسلامیہ کالج کراچی کے پرنسپل رہے،1951ء میں ڈاکٹر ضیا الدین میموریل سوسائٹی قائم کی۔ انگریزی میگزین ’’وائس آف اسلام‘‘ کا اجراء کیا۔ تحقیقی مضامین سے مزین یہ جریدہ تمام مسلم ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کراچی کے بانی صدر ہوئے۔ 1953ء سے 1960ء تک بانی چیئرمین شعبۂ تاریخِ اسلام جامعہ کراچی رہے۔ تاریخِ اسلام پر 10کتب اور 6 تراجم آپ کی یادگار ہیں۔ جمعیت الفلاح کے اعزازی سیکریٹری رہے، 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکا کی خبر سن کر انتقال ہوا۔ جامعہ کراچی کے قبرستان میں مدفون ہیں۔
پروفیسر شاہین حبیب صدیقی نے ڈاکٹر صاحب کے رحلت فرما جانے کے 45 سال بعد ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تاریخی مواد جمع کرکے اسے کتابی شکل میں شائع کیا، جس کی تقریب رونمائی کا اہتمام قائداعظم رائٹرز گلڈ نے شعبہ تاریخ اسلامی، کراچی یونیورسٹی کی معاونت سے آرٹس آڈیٹوریم میں کیا جس کی صدارت سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی، سابق صدر قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے فرمائی۔ آپ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گلڈ بہت فعال اور اہم ادارہ ہے۔ میری اس سے بہت قربت رہی ہے۔ یہ قومی نوعیت کے موضوعات پر قومی سطح کے سیمینار اور اہم کتابوں کی تقریبِ رونمائی کرتی رہی ہے۔ یہ اسلام کی ترویج و استحکامِ پاکستان سے متعلق ہی کام کرتی ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کا تعلق ہے میں جمعیت الفلاح میں ہفتے میں تین چار دن جاتا تھا جہاں مجلسِ فلاح ادب کے تحت ادبی محفل میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات لازمی تھی۔ میری وہاں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر بشارت علی، ڈاکٹر افضال قادری، ڈاکٹر محمود احمد، ڈاکٹر منظور احمد سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انگریزی میں ’’وائس آف اسلام‘‘ جاری کیا جو اب بند ہوگیا ہے۔ اس کو اب شعبہ اسلامی تاریخ کو نکالنا چاہیے، آپ لوگ اپنے آپ کو پہچانیے اور ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کو رول ماڈل بنایئے اور اپنا مشن بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح تعلیم اور پاکستان کی فلاح رکھیے۔ شعبۂ تاریخ اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد زبیر نے کہا کہ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی ہمارے شعبے کے بانی چیئرمین تھے۔ 1953ء میں جب یہ شعبہ قائم ہوا تو اس میں 12طالب علم تھے اور آج یہ ایک بڑا شعبہ ہے جس میں تین سو سے زائد طلبہ وطالبات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جو بیج بویا تھا اب وہ تناور درخت بن چکا ہے۔ اس کو ڈاکٹر معین الحق، ڈاکٹر صابر، ڈاکٹر نثار احمد، پروفیسر ثنااللہ مجاہد، ڈاکٹر محمد شکیل اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے پھل دار درخت بنادیا ہے اور اس میں بیس سے زائد پی ایچ ڈی نکل چکے ہیں اور اس وقت بھی گیارہ پی ایچ ڈی پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایم اے فائنل میں سب سے زیادہ نمبر لینے والے کو گولڈ میڈل ملتا ہے، ہمارے آنرز کے فائنل میں سب سے زیادہ نمبر لینے والے کو بھی گولڈ میڈل ملنا چاہیے، اور ہمارے شعبے کے طلبہ و طالبات کو جو اسکالرشپ ملتی تھی وہ بھی بند ہوگئی ہے، اس کو بحال ہونا چاہیے۔
کراچی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ظفرسعید سیفی نے کہا کہ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی سے میں نے ایک سرٹیفکیٹ کی درخواست کی۔ وہ گھر پر تھے، انہوں نے فوراً اپنے ہاتھ سے ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کیا اور کہا، تم اپنے ماتحتوں سے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنا اور جب بیرون ملک تعلیم حاصل کرلو تو واپس آکر اسی یونیورسٹی سے وابستہ ہونا۔ ڈاکٹر صاحب نے تاریخ کو سائنس بنادیا۔ جب تک ہم تاریخ سے واقف نہیں ہوں گے ہم مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے۔ بیرون ممالک میں صدرِ مملکت سے زیادہ پروفیسر کی عزت کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر امین حسن میموریل ٹرسٹ کے ڈاکٹر وقار الدین احمد نے کہا کہ یہ ٹرسٹ ہر سال دس اسکالرشپ دیتا تھا، پہلے تین اسلامک ہسٹری ڈپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات کے لیے ہوتے تھے۔ ہمارے پاس اکاؤنٹس میں فنڈ موجود ہیں، میری کوشش ہوگی کہ اب ان کو دوبارہ جاری کیا جائے، یہ ٹرسٹ زبیری صاحب نے قائم کیا جو ان دنوں علیل ہیں۔ اسلامک ہسٹری ڈپارٹمنٹ کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر نے کہا کہ اگر آپ بڑے لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو علم ہوگا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو کارآمد بنایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کئی ادارے بنائے اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے
(باقی صفحہ 41پر)
ان کی سرپرستی کی، اور ڈاکٹر معین الحق، ڈاکٹر انصار زاہد نے ان اداروں کو سنبھالا۔ ڈاکٹر صابر ہم کو ’’وائس آف اسلام‘‘ دکھاتے اور کہتے کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا کارنامہ ہے۔ اس کا پندرہ سالہ اشاریہ جمعیت الفلاح نے تیار کروایا، جس میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، ڈاکٹر معروف دوالبی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین خان، ڈاکٹر حمیداللہ اور دیگر شخصیات کی نگارشات شامل ہوتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ تاریخ اسلام میں اہم موضوعات پر ڈاکٹر امیر حسن صدیقی یادگاری لیکچر کا اہتمام کیا جائے جس میں بیرونی ممالک سے اسکالر بلائے جائیں، ان کے جملہ اخراجات ان کی تنظیم برداشت کرے گی۔ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ استاد وہ ہوتا ہے جو تربیت کرتا ہے، آج میں جس مقام پر ہوں اس میں ان اساتذہ کا ہی ہاتھ ہے۔ گو میں ان سے کبھی نہیں ملا لیکن ان کی شخصیت سے واقف ہوں۔ ان کی ایک اہم تصنیف جو انگریزی میں ہے’’غیر مسلم حکمرانوں کے دور میں مسلم رعایا اور مسلم حکمرانوں کے دور میں غیر مسلم رعایا‘‘ اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ کتاب کی مصنفہ پروفیسر شاہین حبیب صدیقی نے مختلف لوگوں کے پیغامات سنانے کے بعد کہا کہ ہم ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی فیملی کی جانب سے ہر سال بی اے آنرز کے فائنل میں سب سے زیادہ نمبر لینے والے کو ڈاکٹر امیر حسن صدیقی گولڈ میڈل دیں گے اور ڈاکٹر صاحب پر پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کے تعلیمی اخراجات ادا کریں گے۔ تقریب میں تلاوتِ کلام پاک کا شرف صائمہ ناز اور نعتِ مبارک کی سعادت ملائکہ یونس نے حاصل کی۔
نسیم انجم نے اپنے مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پٖر گفتگو کی، خلیل احمد ایڈووکیٹ نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ تقریب کی نظامت شازیہ ناز عروج نے انجام دی۔ گلڈ کے کنوینر محمد حلیم انصاری نے گلڈ کا تعارف کرواتے ہوئے تحریک پاکستان کے اُن اکابرین کے اسمائے گرامی بتائے جو گلڈ کے رکن رہے ہیں۔ پروفیسر اظہار حیدری نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ یاسمین حبیب، غزالہ حبیب اور جاوید حبیب صدیقی کی جانب سے شرکا کے لیے شاندار ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ جبکہ تقریب میں گلڈ کے صدر جلیس سلاسل، نسیم احمد شاہ، پروفیسر نرگس رشید، پروفیسر فائزہ احسان صدیقی، پروفیسر احمد نسیم سندیلوی، ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، ڈاکٹر صوفیہ جاوید، ڈاکٹر حمیراناز، ڈاکٹر جویریہ یوسف، یسریٰ طارق، قاسم بیگ، اقرامون، محمد صدیق، محمود عالم، وہاج فاروقی، انمول ضمیر انصاری، حنا یوسف، عظمیٰ یونس، ثمینہ ضمیر، فرح اختر، ضمیر احمد، مروا عارف، محمد علی قریشی کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی دو بڑی تصاویر بھی حاضرین کی توجہ کا مرکز رہیں۔