دہشت گرد ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگئے ہیں اور دہشت گردوں کو لگام دینے کے دعوے ایک مرتبہ پھر دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ’’ٹوٹی ہوئی کمر‘‘ والے پاکستان دشمن دہشت گردوں نے اپنی موجودگی کا ایک بار پھر احساس دلانا شروع کردیا ہے۔ دہشت گردوں نے سب سے پہلے لاہور کو نشانہ بنایا جہاں چیئرنگ کراس کے مقام پر خودکش حملہ ہوا، جس میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید ہوئے۔ لاہور کے بعد دہشت گردوں نے منظم طریقے سے گزشتہ روز پشاور، مہمند ایجنسی اور شب قدر میں 4 مبینہ خودکش حملے کیے جن میں مجموعی طور پر 4 اہلکاروں سمیت 7 افراد شہید ہوئے۔ پشاور کے علاقے حیات آباد میں موٹرسائیکل پر سوار خودکش بمبار نے خود کو ماتحت عدلیہ کے ججوں کو لے جانے والی گاڑی کے قریب دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق جب کہ 4 جج زخمی ہوئے۔ اسی روز شب قدر میں ایک حملے میں لانس نائیک شہید ہوا۔ پھر دہشت گردوں نے مہمند ایجنسی کو نشانہ بنایا جہاں 3 خاصہ داروں سمیت 5 افراد شہید ہوگئے۔ اور یہ سلسلہ رکا نہیں، اس کے بعد سندھ میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 100 افراد شہید اور500 سے زائد زخمی ہوگئے۔ بلوچستان کے ضلع آواران میں بھی تخریب کاری کی بڑی کارروائی فورسز کے قافلے کے قریب بارودی سرنگ کے دھماکے کی صورت میں کی گئی جس کے نتیجے میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 3 اہلکار شہید ہوگئے۔
دہشت گردی کی جنگ کے پس منظر میں ریاست و ریاستی اداروں کی صلاحیتوں، دعووں اور ضرب عضب پر نئے سوالات اٹھ گئے ہیں۔ کیونکہ عسکری ادارے اور سویلین حکومت برملا یہ اظہار کرتے رہے کہ دہشت گردوں کا مکمل طور پر قلع قمع کردیا گیا ہے، ملک میں امن قائم کردیا گیا ہے اور اب کسی کو بھی امن و امان کی صورت حال خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے نظر آرہے ہیں جہاں نائن الیون کے بعد کھڑے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات پر پاکستان نے ایک بار پھر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کو سرحد پار افغانستان سے مدد اور تعاون مل رہا تھا اوراس ضمن میں شاید پہلی مرتبہ افغان سفیر کو دفتر خارجہ کے بجائے براہِ راست آرمی قیادت نے جی ایچ کیو طلب کیا اور اُن سے افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس وقت پاک افغان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ شاید بظاہر تو پاک افغان کشیدگی ہے لیکن اس کو پاک امریکہ کشیدگی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستانی فوج نے جمعہ کی شب پاک افغان سرحد کے نزدیک خفیہ ٹھکانوں اور کمین گاہوں پر فضائی حملے اور بمباری کی تھی اور مبینہ طور پر دہشت گرد گروپ جماعت الاحرار کے ایک تربیتی کیمپ کو نشانہ بنایا تھا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اسی گروپ نے 13 فروری کو لاہور اور 15 فروری کو مہمند ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں خودکش بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس کے بعد اگلے ہی دن پورے ملک میں 48 ’’دہشت گردوں‘‘کو مارنے کے بھی دعوے سامنے آئے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی ہمیشہ کسی بڑے حادثے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ہی کیوں ہوتی ہے؟ اور پھر پورے ملک میں چھاپوں اورگرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کراچی میں تو یہ ایک زبردست کاروبار بن گیا ہے۔ ایس ایس پی مگر آئی جی سے طاقت ور راؤ انوار کے پولیس مبینہ مقابلوں کی تو ایک لمبی فہرست بن چکی ہے۔ تازہ ترین واقعے کے بعد بدھ کو انہیں جماعت الاحرار کے 8 دہشت گرد بھی اچانک نظر آگئے اور ان کے ہاتھوں وہ ایک اور مبینہ مقابلے میں مارے گئے۔
پاکستان میں جہاں امریکی سرپرستی میں مقامی دہشت گردوں کے ساتھ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ اور حقیقت ہے، وہیں یہ بھی تاثر ابھر رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’جعلی‘‘ جنگ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ریاست متحرک ہوئی تو گزشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردی میں کمی آئی، ملک بھر میں امن کا قیام ممکن ہوا، کراچی میں کسی حد تک امن قائم ہوا، سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان، بلوچستان سمیت ملک بھر کی صورتِ حال بہتر ہوئی۔ لیکن لگتا ہے یہ اب عارضی بندوبست ثابت ہورہا ہے۔ کراچی میں دہشت گردی بھی ہورہی ہے اور جرائم بھی ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اسی طرح ملک کے دیگر شہروں کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے، وہیں اس شور میں پورے ملک میں معاشرتی عدم توازن اور عدم انصاف کی وجہ سے جو جرائم اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں ان کی تباہی اور بربادی کے اثرات کے ہمارے پاس اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ ہم کیا کررہے ہیں اور ہماری منزل اور ہدف کیا ہے، لگتا ہے ہماری ریاست اس سوال سے بے نیاز ہے، اور اس کا کوئی عمل اس کا اپنا نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ بھی اتنی ہی لڑنی ہے کہ جتنا لڑنے کا کہا جاتا ہے۔ کم از کم ریاست کا عمل تو یہی بتاتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ بہت آسان کام ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا الزام کسی غیر ملکی طاقت یا ملک کے سر تھوپ کر خود قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کی تلاش اور انہیں پکڑنے سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں اور اس کا بار بار اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی عالمی طاقتوں کے گریٹ گیم کے تحت ہورہی ہے، یہ کسی ایک دہشت گرد تنظیم یا ملک کی دہشت گردی نہیں ہے، یہ سی آئی اے، را اور امریکی مہربانی سے نئے دشمن ملک افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس کا کھیل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ کیا ہماری خفیہ ایجنسیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟ ایسے میں، کہ جب عالمی قوتیں ایک منظم منصوبے کے تحت عراق، شام اور افغانستان کے بعد فلسطین، مصر، یمن، بنگلہ دیش، مقبوضہ کشمیر اور اراکان (برما) سمیت اہم مسلم خطوں کو تباہ و برباد کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔۔۔ پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب ان کے خاص ہدف ہیں۔ پاکستان امتِ مسلمہ کا ایک اہم ملک ہے اور پوری امت کو اس سے امیدیں وابستہ ہیں، جبکہ ہم دوسروں کے کھیل میں ایک عرصے سے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مصنوعی جنگ سے جان چھڑا کر دہشت گردی کے خلاف اصل جنگ شروع کی جائے، اور یہ جنگ دو قومی نظریے کی بنیاد پر بننے والے پاکستان کے لیے ہو، امتِ مسلمہ کے لیے ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہم اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کے صحرا میں برسوں مزید بھٹکتے رہیں گے اور ہمارے پیارے روزانہ کی بنیاد پر ہم سے بچھڑتے رہیں گے۔