(پاک افغان کشیدگی اسباب کیا ہیں؟(عالمگیر آفریدی

202

افغانستان نے پاک افغان سرحد کے دشوارگزار پہاڑی علاقوں میں چھپے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے پر پاکستان سے احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر حملوں کا یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جب سے لاہور، پشاور، مہمند ایجنسی، سیہون شریف اور چارسدہ واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان سے منسلک دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی ہے اور اس نے اسی نوعیت کے دیگر حملوں کی دھمکی دی ہے تب سے پاکستان نے اس سلسلے میں نہ صرف افغان حکام سے افغان سرزمین پر موجود جماعت الاحرار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں متعین امریکی افواج کے کمانڈر جنرل نیکلسن سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کرکے پاکستان کو مطلوب دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے افغان حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنرل باجوہ نے جنرل نیکلسن سے افغان حکومت پر اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں موجودجماعت الاحرار اور تحریک طالبان سمیت کئی دیگر پاکستان مخالف گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے علاوہ پاک افغان سرحد پر سیکورٹی کے نظام کو مؤثر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ضمن میں یہ اعلانات بھی رپورٹ ہوئے ہیں کہ پاکستان نے چند روز قبل افغان حکام کو جی ایچ کیو طلب کرکے پاکستان کو انتہائی مطلوب 76 سرکردہ طالبان راہنماؤں کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں روپوش عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اب تک کسی بڑی کارروائی سے حتی الوسع اجتناب کیا ہے، لیکن افغان حکومت نے نہ تو پہلے پاکستان کو مطلوب افراد کی حوالگی کے پاکستانی مطالبے کو درخورِ اعتنا سمجھا، اور اب جب پاکستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات میں سو سے زائد بے گناہ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، تب بھی افغان حکومت پاکستان کی شیئر کردہ انٹیلی جنس معلومات پر پاک افغان سرحد کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی، جس سے نتیجتاً پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا فطری امر ہے۔ اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے اور خود امریکی میڈیا سمیت سی آئی اے کے کرتا دھرتا بھی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے تمام سرکردہ راہنما اور کمانڈر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش ہیں جن کے متعلق پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں متعدد بار مستند معلومات متعلقہ افغان اور امریکی حکام سے شیئر کرچکی ہیں، لیکن ان کی جانب سے اس ضمن میں تاحال کسی سرگرمی کا نظر آنا تو دور کی بات ہے، الٹا گزشتہ روز افغان حکومت نے پاکستان کے مطالبات کے جواب میں افغانستان کو مطلوب 85 افراد کی فہرست تھماکر پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء کے زخموں پر نمک پاشی کا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔ افغان حکومت کی اسی بے حسی کا نتیجہ ہے کہ سرحد کے اس پار مقیم دہشت گرد نہ صرف پاکستان کے اندر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ان کے ہاتھوں عام بے گناہ لوگ بھی بڑی تعداد میں لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے متعلق عام تاثر یہ ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کے تانے بانے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ملتے ہیں، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے افغان سرزمین پر بالعموم اور پاک افغان سرحد پر بالخصوص پاکستان مخالف ایک طاقتور نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔ یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان کے مختلف علاقوں میں تخریب کاری کے واقعات میں ملوث پائی گئی ہے بلکہ حال ہی میں بھارتی حکمران پاکستان پر ممبئی، اڑی اور پٹھانکوٹ دھماکوں اور حملوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے پاکستان کو ان حملوں کے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔ بلوچستان سے حاضر سروس بھارتی جاسوس کلبھوشن سنگھ یادیو کی گرفتاری، اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پچھلے سال ڈھاکا میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے سانحہ مشرقی پاکستان کو بھارتی کارنامہ قرار دینا، بھارتی حکمرانوں کا خبثِ باطن ہے جو دنیا پر ظاہر ہوچکا ہے۔ اس پس منظر میں افغان حکمرانوں کے پاکستان مخالف بیانات اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھنے اور ان اقدامات کو کمتر ثابت کرنے کے منفی رویّے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حقیقت کو ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے کہ افغان حکمران پاکستان سے تعلقات کو معمول پر لانے اور پاکستان کی جانب سے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیوں کو سنجیدگی سے دیکھنے کے بجائے بھارت کی زبان بول کر پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی سرحدی کشیدگی اور خطے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مخصوص مفادات کے لیے اس خطے کو ایک بار پھر بطور نرم چارہ استعمال کرنے کا ارادہ کرچکی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاک چین بڑھتے ہوئے مستحکم اقتصادی اور دفاعی تعلقات چونکہ امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی جارحانہ جنگی سرگرمیاں، نیز جاپان، فلپائن، انڈونیشیا اور جنوبی کوریا میں امریکی اڈوں کی موجودگی کا مقصد چونکہ چین کے گھیراؤ کے سوا اورکچھ نہیں ہے اور چین چونکہ اگلے دو عشروں تک کسی بھی قسم کی جنگی مہم جوئی سے اپنا دامن بچاکر معاشی استحکام اور اقتصادی بالادستی کا طے شدہ ہدف حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے اُس نے کسی ممکنہ تصادم سے بچتے ہوئے سی پیک کے ذریعے اپنی تجارت اور اقتصادی ترقی کو جاری رکھنے کے لیے جو متبادل راستہ اپنایا ہے امریکہ اس پر نہ تو خوش ہے اور نہ ہی وہ چین کے اس منصوبے کو اتنی آسانی سے کامیاب ہونے دے گا۔ لہٰذا وہ اگر ایک جانب اس منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے بھارت کے ذریعے اسے سبوتاژ کرنے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے تو دوسری جانب افغان کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کے مواقع بھی فراہم کررہا ہے۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ پاکستان نے جب سے چین اور روس کے ساتھ مل کر افغان بحران کے حل اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے پر کام شروع کیا ہے تب سے امریکہ کی نظروں میں پاکستان سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر نہ صرف دہشت گردی کے واقعات میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے بلکہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے لیے دیگر آزمودہ اور روایتی حربے بھی آزمائے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف اندرونی سطح پر اپنی صفوں کو منظم کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لیناہوگا بلکہ بھارت، افغان حکومت اور امریکہ پر مشتمل اتحادکی پاکستان مخالف سرگرمیوں اور سازشوں کا توڑ کرنے کے لیے اپنی بین الاقوامی سرگرمیوں کو تیز کرتے ہو ئے چین اور روس سمیت دیگر دوست ممالک کو بھی اعتماد میں لینا ہوگا۔ nn

حصہ