قبائل کے ساتھ اصلاحات کے نام پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو ڈراما کھیلا جارہا تھا گوکہ اس کا باقاعدہ ڈراپ سین تو ابھی ہونا باقی ہے، البتہ گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے ایجنڈے سے جب اصلاحات اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے نکتے کو حذف کیا گیا اور جب مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں جمعیت وکلاء فورم کے کنونشن سے خطاب میں واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ کابینہ کے اجلاس سے فاٹا اصلاحات کا نکتہ جمعیت (ف) کے وفاقی وزیر اکرم خان درانی کے اختلاف کے بعد نکالا گیا ہے اور یہ کہ فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے بجائے اب اسے قومی دھارے میں لایا جائے گا تو اس صورت حال پر یہ شعر سو فیصد صادق آتا ہے کہ
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
یعنی فاٹا اصلاحات کے نام پر ایک کروڑ قبائل کو ڈیڑھ سال تک سولی پر لٹکائے رکھنے کے بعد عین آخری لمحات میں ان کے منہ سے اس نوالے کا چھینا جانا قبائل کے ساتھ حد درجہ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ فیصلہ کب کیا جائے گا کہ اس اہم ترین اور نازک مسئلے کا آخری اور حتمی حل کیا ہوگا، اور یہ کہ یہ مسئلہ آخرکار کون حل کرے گا۔
فاٹا اصلاحات اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے متعلق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے جنوبی وزیرستان میں فوجی جوانوں سے خطاب کی صورت میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ اگر ایک جانب حوصلہ افزا اور باعثِ اطمینان ہے تو دوسری طرف آرمی چیف اور مولانا فضل الرحمن کے بیانات میں پائی جانے والی ہم آہنگی اور دونوں کی جانب سے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے اعلانات کے بجائے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے مبہم الفاظ کے استعمال اور خواہشات کے اظہار سے اس دیرینہ اور اہم مسئلے کے مزید پیچیدہ ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انھوں نے وکلا کے درمیان کھڑے ہوکر ببانگِ دہل یہ اعتراف بھی کیا کہ جنرل پرویزمشرف کے خلاف وکلا کی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک میں ان کا مؤقف بالکل واضح تھا اور بعد کے حالات نے بھی ان کے اس مؤقف کی واضح تائید کی تھی، اسی طرح اب انہوں نے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت میں کا جو موقف اختیار کیا ہے بہت جلد سب لوگ ان کے اس مؤقف کی تائید پر بھی مجبور ہوں گے۔
یہ محض اتفاق ہے یا پھر حالات کی ستم ظریفی کہ جس دن آرمی چیف اور مولانا فضل الرحمن کے فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بیانات ذرائع ابلاغ کی زینت بنے اسی روز گورنر خیبر پختون خوا کا یہ بیان بھی میڈیا میں شائع اور نشر ہوا کہ وزیراعظم عنقریب قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا اعلان کریں گے۔ یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن اب یہ کھل کر کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ وہ اور ان کی جماعت فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ انہیں اصل اعتراض انضمام کے الفاظ اور طریقہ کار پر ہے۔ اس لیے وہ اب ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے انضمام کے بجائے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ قومی دھارے سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور کیا خیبر پختون خوا میں انضمام سے قبائل قومی دھارے سے باہر ہوجائیں گے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب دیئے بغیر مولانا فضل الرحمن اتنی آسانی سے اس اہم ترین مسئلے کو یوں آسانی سے ایک کروڑ قبائل کی نظروں سے اوجھل کرنے کی جو دانستہ یا نادانستہ کوشش کررہے ہیں اس میں اُن کا کامیاب ہونا یقیناًبعیداز قیاس ہے۔ فاٹا اصلاحات کو حکومت اور اس کے اتحادی مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جس طرح پیچیدہ اور مبہم بنانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے قبائل کی زندگی اور موت کے اس مسئلے کو جو اِن دنوں ’اب یا کبھی نہیں‘ کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، اس حد تک سیاسی بنادیا گیا ہے کہ اب ہر کوئی اس گرم تندور پر روٹیاں لگانے کی مشق کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اے این پی، قومی وطن پارٹی، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے فاٹا اصلاحات کے نفاذ کے لیے میدان میں نکل آئی ہیں۔ صوبے میں انضمام کے مسئلے پر اختلافات سے یہ خدشات جنم لیتے جارہے ہیں کہ مبادا فاٹا انضمام کا مسئلہ رستا ہوا ناسور نہ بن جائے۔ قومی وطن پارٹی کے گزشتہ دنوں حیات محمد خان شیرپاؤ کی42 ویں برسی کے سلسلے میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ اگر 12مارچ سے قبل فاٹا کو خیبر پختون خوا میں ضم نہ کیا گیا تو قومی وطن پارٹی قبائل کے شانہ بشانہ جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر ایجنسی کا دورہ کرکے قبائل کو خیبرپختون خوا میں ضم ہونے پر آمادہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام سے خیبر پختون خوا ملک کا دوسرا بڑا صوبہ بن جائے گا۔ قومی وطن پارٹی اور اس کے قائد آفتاب شیرپاؤ کی جارحانہ پالیسی کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قومی وطن پارٹی۔۔۔ جو صوبائی حکومت کا حصہ ہونے کے ناتے اب تک محتاط بیٹنگ کررہی تھی اور جس میں صوبے کی بعض دیگر جماعتوں کے برعکس اب تک کسی بڑی سیاسی شخصیت نے شمولیت اختیار نہیں کی ہے۔۔۔ کو اپنے آپ کو سیاسی تنہائی سے نکالنے کے لیے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا اچھا ایشو ہاتھ آیا ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اس ایشو پر زیادہ جارحانہ انداز اختیار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسی طرح اے این پی نے بھی فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے ایشو پر جو واضح اور دوٹوک مؤقف اپنایا ہوا ہے اس کو بھی سیاسی ماہرین اسی تناطر میں دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اے این پی کی قیادت نے گزشتہ دنوں چارسدہ میں باچا خان اور عبدالولی خان کی برسی کے موقع پر اپنی جس سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا ہے اس میں بھی اے این پی کی توپوں کا رخ اگر ایک طرف پی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی حکومت کی جانب تھا تو دوسری جانب اے این پی کی قیادت نے فاٹا انضمام کے ایشو پر مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور وفاقی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ اے این پی جو ان دنوں کچھ زیادہ ہی متحرک ہے، کی طرف سے فاٹا کے انضمام کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے ردعمل میں یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ قبائل کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مولانا فضل الرحمن کو ڈیرہ اسماعیل خان اور محمود خان اچکزئی کو کوئٹہ میں حاصل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو چند لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے قبائلی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کے احساسِ محرومی کے خاتمے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے ریفرنڈم کی تجویز کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہ پنڈورا باکس کھولا گیا تو پھر کل کسی بھی علاقے کو ایسے کسی بھی مطالبے سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام پختونوں کو متحد کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔
اے این پی کی جانب سے فاٹا انضمام کے ایشو پر قبائل کو متحرک کرنے اور اس معاملے کو ڈیل کرنے کے لیے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی کے قیام سے پتا چلتا ہے کہ اے این پی اس ایشو کو چھوڑنے یا اس پر خاموشی اختیار کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے، بلکہ مستقبل قریب میں یوں لگتا ہے کہ وہ اس ایشو کو بنیاد بناکر نہ صرف خیبرپختون خوا میں اپنے کارکنان کو متحرک رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہے گی بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی اپنے قدم جمانے کے لیے اس ایشو کو استعمال کرنے کا موقع ضائع نہیں ہونے دے گی۔
دوسری جانب جماعت اسلامی بھی قبائلی علاقوں میں پریس کانفرنسوں اور احتجاجی مظاہروں کے اعلان کے ذریعے فاٹا اصلاحات پر جارحانہ موڈ میں نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی باجوڑ، مہمند اور خیبر ایجنسی میں خاصا اثر رسوخ رکھتی ہے اور ان تینوں ایجنسیوں میں فاٹا انضمام کے حوالے سے چونکہ باقی ایجنسیوں کی نسبت زیادہ سیاسی شعور اور گرمجوشی پائی جاتی ہے۔
فاٹا انضمام کے حق میں سرگرم عمل جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے ساتھ ساتھ انضمام مخالف جماعت جمعیت (ف) کو چونکہ اس بات کے خدشات لاحق ہیں کہ کہیں وہ اپنے غیر مقبول مؤقف کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں سیاسی تنہائی کا شکار نہ ہوجائے، تو اب اس کی جانب سے کم از کم قبائلی علاقوں کے اندر سے اس ایشو پر وہ آواز اٹھتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے جس کا اظہار اب تک کیا جارہا تھا، حتیٰ کہ اب تو مولانا فضل الرحمن کو بھی گزشتہ روز یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختون خوا میں انضمام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ اس ضمن میں جہاں قبائل سے وسیع تر مشاورت کے متمنی ہیں وہاں وہ چاہتے ہیں کہ انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں تعمیر وترقی کے لیے وسیع البنیاد اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یہاں ہمیں اس نازک پہلوکو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اگر انضمام کے معاملے کو جلد از جلد منطقی انجام تک نہ پہنچایا گیا اور اس سلسلے میں ٹال مٹول کی پالیسی جاری رکھی گئی تو ان خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض غیر ملکی قوتیں بالخصوص بھارت اور افغانستان اس نازک ایشو اور خاص کر قبائل کے مخصوص مزاج اور حالات کو کسی بھی وقت اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے جتنا جلدی ہوسکے یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا مقبولِ عام فیصلہ کرلینا چاہیے، یہی اس دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کا مناسب اور واحد حل ہے۔