یاسر غنی
انسانی جسم ساٹھ کھرب سے زائد خلیوں (Cells) پر مشتمل ہے۔ ہر خلیے کے اندر اہم وراثتی مادہ ڈی این اے موجود ہوتا ہے جس میں مکمل انسان کی تمام تر معلومات (Blue Prints) موجود ہوتی ہیں۔ ڈی این اے ایک لمبا دھاگہ نما کیمیائی مادہ ہے جو تقریباً تین ارب چھوٹے مالیکیولز پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں نیوکلیوٹائیڈ کہا جاتا ہے۔ ہر نیوکلیوٹائیڈ مزید تین چھوٹے مالیکیولز پر مشتمل ہوتا ہے۔ ڈی این اے میں پائے جانے والے نیوکلیوٹائیڈ چار قسم کے ہوتے ہیں جنہیں مختصراً A , ,G Tاور C سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
ڈی این اے کی لمبائی
ڈی این اے کی لمبائی حیرت کا ایک سمندر ہے۔ ایک انسانی خلیے میں تقریباً چھ فٹ لمبا ڈی این اے کا دھاگہ پایا جاتا ہے۔ ایک مکمل انسان کے تمام خلیوں کے ڈی این اے کو لمبائی کے رخ پر جوڑا جائے تو اس کی لمبائی تقریباً گیارہ ارب کلومیٹر بنتی ہے جو زمین کے سورج سے فاصلے سے ستّر گنا سے بھی زائد ہے۔ یعنی ایک جدید ترین الٹراسونک طیارہ جس کی رفتار آواز سے آٹھ گنا تیز ہے، وہ اس فاصلے کو سوا صدی میں طے کرے گا۔ اگر ایک ٹائپسٹ 60 الفاظ فی منٹ کی رفتار سے 8 گھنٹے روزانہ ڈی این اے کے نیوکلیوٹائیڈز کو ظاہر کرنے والے مخفف حروف تہجی ہی کو ٹائپ کرے تو بغیر کسی چھٹی اور آرام کے، پندرہ سال میں صرف ایک خلیے کا ڈی این اے لکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس سے جو کتاب تیار ہوگی اگر اس کے ایک صفحے پر پانچ سو الفاظ ہوں اور کل 1000 صفحات ہوں تو ایسی 280 کتابیں تیار ہوں گی جن پر صرف ایک خلیے کی معلومات ہوں گی۔ ایک انسان کے تمام خلیوں کی معلومات لکھنے کے لیے روئے زمین کے تمام وسائل ناکافی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
(ترجمہ) ’’زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوں گی۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘ (سورہ لقمان آیت نمبر 27)
اتنی لمبائی کے باوجود یہ انتہائی کم جگہ گھیرتا ہے۔ ڈی این اے کے دس لاکھ نیوکلیوٹائیڈ اتنی جگہ گھیرتے ہیں جتنی جگہ پر کمپیوٹر ایک میگا بائٹ (MB) ڈیٹا اسٹور کرتا ہے۔ اور ایک خلیے کا مکمل ڈی این اے 3 گیگا بائٹ (GB) جگہ گھیرتا ہے۔
ڈی این اے کی ساخت و افعال
ڈی این اے بل کھاتی ہوئی سیڑھی کی مانند ہوتا ہے، جس کو خاص قسم کی نیوکلیئر پروٹین (Histones) پر ایک خاص ترتیب سے لپیٹ کر رکھا جاتا ہے۔ تین نیوکلیوٹائیڈ مل کر ایک کوڈ بناتے ہیں جسے جین (Gene) کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک جین ایک خصوصیت کو کنٹرول کرتی ہے۔ مثلاً آنکھوں کے رنگ کو ایک جین کنٹرول کرتی ہے۔ ایک خلیے میں تیس ہزار سے زائد فعال (Active) جینز پائی جاتی ہیں۔ ہر خلیے کے اندر مکمل انسان کی معلومات ہوتی ہیں۔ ایک ناخن کے ڈی این اے میں معدہ، دل، جگر، بال اور دیگر تمام اعضائے انسانی بنانے کی مکمل معلومات ہوتی ہیں۔ اسی طرح تمام خلیوں میں مکمل معلومات موجود ہوتی ہیں۔ یعنی ڈی این اے کی ایک ہی طرح کی کاپی ہر خلیے میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صناعی ایسی بے مثل ہے کہ ہر جین اپنی متعلقہ جگہ پر ہی ظاہر ہوتی ہے۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سر پر ٹانگیں نکل آئیں یا ناخنوں کی جگہ دانت، یا پھر دماغ کی جگہ پر گردے آجائیں۔ ہر انسان کا ڈی این اے اپنی ترتیب میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے سوائے مماثل جڑواں بچوں (Identical Twins) کے، جو ایک ہی بیضے کی تقسیم سے پیدا ہوئے ہوں۔ والدین، اولاد اور بہن بھائیوں کے ڈی این اے میں ایک خاص مشابہت ہوتی ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔ اس کو تکنیکی اصطلاح میں ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کہا جاتا ہے۔ ڈی این اے کی اس خصوصیت کو بچوں کے والدین کی شناخت، حادثات اور مجرموں کی پہچان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح پاکستان میں نادرا (NADRA) کے پاس تمام رجسٹرڈ افراد کی انگلیوں کے نشانات (Fingerprints) کا ریکارڈ موجود ہے، صرف ایک انگلی کے نشانات سے اصل فرد کی پہچان ہوسکتی ہے، ایسے ہی ڈی این اے کا ریکارڈ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ حادثات و دیگر جرائم کی جگہوں سے صرف ایک بال، ناخن یا خون کا کوئی قطرہ وغیرہ مل جانے سے اصل فرد کی شناخت ہوسکتی ہے۔ امریکہ میں ایسا ایک ادارہ موجود ہے جہاں جیل جانے والے خطرناک مجرموں کا ڈی این اے ریکارڈ محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ڈی این اے اپنے احکامات ایک خاص قسم کا مالیکیول بنا کر جاری کرتا ہے جسے پیغام رساں آر این اے (Messenger RNA) کہا جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے مالیکیول میں نیوکلیوٹائیڈز کی ترتیب میں پیغام چھپا ہوتا ہے۔ یہ پیغام خلیے میں موجود رائبوسومز (Ribosomes) پڑھتے ہیں اور دی گئی ہدایات کے مطابق پروٹین تیار کرتے ہیں۔ یہ پروٹین متعلقہ کام سرانجام دیتی ہے۔ انسانی جسم کا آغاز صرف ایک خلیے زائیگوٹ سے ہوتا ہے جو ماں اور باپ کی طرف سے آنے والے تولیدی جرثومے اور بیضے (Sperm & Egg) کے مدغم ہونے سے بنتا ہے۔ یہ زائیگوٹ (Zygote) تقسیم در تقسیم ہوکر کھربوں خلیوں پر مشتمل انسان بناتا ہے۔ خلیے کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ڈی این اے بھی کاپی (Replicate) ہوکر ہر نئے بننے والے خلیے میں چلا جاتا ہے۔ ڈی این اے کی کاپی تیار کرنے کا نظام اتنا حیرت انگیز ہے کہ عام حالات میں کاپیاں تیار کرتے ہوئے اربوں مالیکیولز میں سے کسی ایک کی ترتیب بھی خراب نہیں ہوتی۔ کسی چھوٹی سی بھی غلطی کا نتیجہ خطرناک بیماری، معذوری یا جسمانی اعضاء کی تبدیلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ڈی این اے یقیناًایک حیرت ناک شے ہے اور اس کا مطالعہ بلااختیار یہ اقرار کرنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک انتہائی عظیم ہے اور صرف وہی اس لائق ہے کہ اس کے آگے جبینِ انسانی کو جھکایا جائے۔