سید تاثیر مصطفی
پاکستان کے ایوانِ بالا(سینیٹ) کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے ایک ایسا جرأت مندانہ حکم جاری کیا ہے جو ایک غیرت مند قوم کے شایانِ شان بھی ہے اور غیرت و حمیت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ انہوں نے تمام پاکستانی سینیٹرز کے امریکی دورے منسوخ کردیے ہیں، امریکی سینیٹ کے کسی وفد یا رکن کے علاوہ کسی امریکی سفارت کار کا پاکستانی سینیٹ میں خیرمقدم نہ کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور امریکی سفارتی عملے سے رابطے بھی معطل کردیے ہیں۔ خبر کے مطابق امریکہ کی جانب سے مناسب وضاحت آنے تک یہ حکم مؤثر اور لاگو رہے گا۔
رضا ربانی نے یہ حکم ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو امریکہ کی جانب سے ویزا جاری نہ کرنے پر دیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹر صلاح الدین کو 13 اور 14 فروری کو نیویارک میں ہونے والے ایک بین الپارلیمانی مباحثے میں پاکستان کی نمائندگی کرنا تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ دعوت امریکہ ہی کے کسی پارلیمانی ادارے نے دی ہوگی۔ گویا یہ ایک طرح سے امریکی حکومت کی اپنی دعوت تھی، جس کے لیے چیئرمین سینیٹ نے متذکرہ سینیٹرز کے نام بھجوائے، جنہوں نے بروقت ویزا کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے درخواست دے دی۔ امریکی سفارت خانے نے سینیٹر صلاح الدین کو ویزا جاری کردیا لیکن عبدالغفور حیدری کے ویزے پر خاموشی اختیار کی اور پھر ویزا دینے سے انکار کردیا، جس پر چیئرمین سینیٹ نے اپنے اس شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
تاحال اس معاملے پر کوئی امریکی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ حکومتِ پاکستان نے بھی تاحال اس پر کوئی پیش رفت نہیں کی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے بھی کوئی ردعمل نہیں دیا کہ آیا وہ رضا ربانی کے ردعمل کو درست سمجھتی ہیں یا نہیں؟ اور اگر ان کا ردعمل درست ہے تو یہ سیاسی جماعتیں خود اس معاملے میں کوئی کردار ادا کریں گی یا نہیں؟ سب سے اہم معاملہ حکومتِ پاکستان کا ہے کہ کیا وہ اپنے ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے کے ساتھ ہے یا امریکی طرزعمل کے ساتھ؟ وہ اپنے آئینی ادارے کے سربراہ کی عزت رکھتی ہے یا امریکہ سے جڑی ہوئی مصلحتوں کو اہمیت دیتی ہے؟ اب تو مولانا عبدالغفور حیدری کا بیان بھی سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حکومت امریکی سفیر کو طلب کرکے اس سے وضاحت مانگے۔ حکومت اس پر کیا کرتی ہے اور کیا نہیں کرتی، یہ اُس کا معاملہ ہے۔ یقینی طور پر اُس کو کچھ کرنا ہوتا تو چیئرمین سینیٹ کے ردعمل کے فوری بعد کرتی۔ اس کے تاخیری حربے بتارہے ہیں کہ اسے مصلحتیں عزیز ہیں۔ وہ امریکی مرعوبیت کا شکار ہے۔ امریکہ سے اس کے کچھ مفادات بھی ہوسکتے ہیں۔ وہ پاک امریکہ تعلقات کی پیچیدگیوں اور پاکستان کی کمزور اور مجبور حیثیت کا بھی بہانہ بناسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان، اس کے عوام، اس کے سب سے بڑے آئینی ادارے کی بھی کوئی حیثیت ہے یا نہیں؟ قومی حمیت کے معاملات بھی حکومت کی کسی ترجیح میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر وہ خود کوئی بڑا اقدام نہیں کرسکتی تو اس کو تو بہترین موقع میسر آگیا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ڈٹ گیا ہے۔ حکومت اس کے ساتھ کھڑی ہو اور امریکہ کو یہ باور کرائے کہ صرف امریکی سینیٹ کی ہی عزت اور وقار اہم نہیں ہے، پاکستان کا وقار اور پاکستانی سینیٹ کا وقار بھی اتنا ہی اہم اور ضروری ہے۔ بظاہر حکومت سے اس کی امید نہیں۔ وہ اس بات پر بغلیں بجا رہی ہے کہ ابھی امریکہ نے پاکستانیوں کے امریکہ آنے پر پابندی نہیں لگائی، اور امریکی حکومت کے کسی نچلے درجے کے افسر نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ پاکستان پر کوئی پابندی نہیں لگائے گا۔ امریکہ نے اِس وقت تک جن سات ممالک کے باشندوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی ہے اور نومنتخب صدر اپنے اس مؤقف اور حکم پر تاحال ڈٹے ہوئے ہیں وہ اس کی ضرورت ہے، خوف ہے یا ووٹرز کا دباؤ ہے، جو بھی ہے یہ اس کا معاملہ ہے، لیکن یہ تمام کے تمام مسلم ممالک ہیں۔ امریکی صدر کا یہ حکم اور عوامی مظاہروں اور عدالتی احکامات کے باوجود اس پر ڈٹ جانے کا بیان بتارہا ہے کہ وہ مسلم دشمنی پر مبنی ذہنیت رکھتے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ان سے اسی طرح کے اقدامات کی توقع رکھنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایران کے سوا پابندی کی زد میں آنے والے کسی مسلم ملک نے کوئی غیرت مندانہ ردعمل نہیں دیا۔ بدقسمتی سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تو امریکی صدر کے اقدام کی حمایت کی ہے۔ پاکستان جو ایک جوہری ملک ہے اور یقینی طور پر مسلم ممالک اور وہاں کے عوام ایسے مواقع پر پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں، وہ بھی اس صریحاً ناانصافی اور امتیازی سلوک پر کوئی واضح اور دوٹوک مؤقف نہیں دے سکا۔ پاکستان کو سوچنا چاہیے کہ جب وہ ان مسلم ممالک کے ساتھ اِس معاملے پر کھڑا نہیں ہوسکتا تو کشمیر یا کسی اور معاملے پر ان مسلم ممالک سے کیسے کسی حمایت کی توقع کرسکتا ہے! بدقسمتی سے اب تک کی پاکستان کی خارجہ پالیسی مصلحتوں کا شکار اور امریکہ اور دوسری سپر طاقتوں کی فکری بالادستی کو تسلیم کرنے پر مبنی ہے۔ خود بھارت کے ساتھ اُس کے تمام تر جارحانہ اقدامات کے باوجود ہماری پالیسیاں ایسی نہیں ہیں جنہیں ایک غیرت مند قوم کی پالیسیاں کہا جاسکے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل اشتعال انگیزیاں کررہا ہے۔ پیر 13 فروری کو بھی اُس نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے تین پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا ہے اور ہم بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دے رہے ہیں! اس سے قبل ہم سارک کانفرنس کے معاملے میں بھارتی اقدامات دیکھ چکے ہیں کہ اُس کی کوششوں سے یہ کانفرنس پاکستان میں نہیں ہوسکی۔ لیکن ہماری اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی، ہم نے ازخود امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جانے کا اعلان کیا۔ وہاں پہنچے اور بھارتی رویّے کے بعد ہمیں نہایت شرمساری کے ساتھ وہاں سے واپس آنا پڑا۔ کاش ہمارے حکمران ان چیزوں کا نوٹس لیں۔ خارجہ پالیسی میں یہ چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ امریکہ سے مستقبل قریب میں بھی کوئی اچھی امیدیں نہ باندھیں، اور جہاں کہیں ضروری ہو اپنا ردعمل دیں کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں، کسی کے غلام نہیں ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے حالیہ ردعمل دے کر پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔ وہ اس جرأت پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔ وہ اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہیں۔ حکومت خود مجبور ہوگی اور آخرکار امریکہ کو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ اس کی ہٹ دھرمی اور ازخود بالادستی کی پالیسی کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔