سلمان عابد
بدقسمتی سے ملک کے ہر شعبے میں جس تیزی سے کرپشن اور بدعنوانی کے عنصر نے جڑیں پکڑی ہیں اس نے پورے معاشرے کو کسی نہ کسی شکل میں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کرکٹ، سیاست، معیشت، کاروبار، انتظامی اور قانونی اداروں سے لے کر ریاستی اداروں تک سبھی اس موذی مرض کا شکار ہیں۔ ہمارے ہیروز وہ نہیں جو اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون طاقت، وسائل اور دولت رکھتا ہے۔ جب پہچان کے یہ معیارات ہوں تو پھرمعاشرے میں رہنے والے لوگ بھی وہی کچھ کریں گے جو یہاں نظر آرہا ہے۔ یہی حال اب اپنی کرکٹ میں بھی نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہماری کرکٹ کی تباہی کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف کرکٹ کے نام پر جوا، سٹہ بازی، کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کا جو کھیل شروع ہوا ہے اس نے بھی کرکٹ کی شکل پاکستان سمیت دنیا بھر میں بدل دی ہے۔ اب کرکٹ کا کھیل شوق نہیں بلکہ پیسہ بنانے والی مشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کھیل سے ہم معاشی طور پر زیادہ مضبوط ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب کرکٹ کی دنیا میں ملکوں کے جو کرکٹ بورڈ ہیں وہ سیاست کے شکنجے میں ہیں اور حکومتیں ان پر کنٹرول کرکے اپنا نظام چلاتی ہیں۔ کرکٹ میں جس تیزی سے پیسے کی ریل پیل ہوئی ہے اُس نے اس کھیل کا رنگ ہی بدل دیا ہے، اور جب رنگ بدلا ہے تو اس سے کرکٹ کیسے محفوظ رہ سکتی تھی! یہی وجہ ہے کہ اب ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ سے لے کر ٹی ٹوئنٹی تک سبھی جگہ کرکٹ اور پیسے کا باہمی تعلق مضبوط نظر آتا ہے۔ یہ جو بڑے بڑے اسپانسر آپ کو کرکٹ میں نظر آتے ہیں ان کی دلچسپی کرکٹ سے زیادہ پیسے بنانے والی مشین پر ہے جو ان کو راتوں رات امیر بناسکتی ہے۔ اس وجہ سے سبھی اس کھیل کے پیچھے بھاگے آرہے ہیں تاکہ وہ اس کھیل سے ذاتی مفاد حاصل کرسکیں۔
حالیہ دنوں میں متحدہ عرب امارات میں پی ایس ایل کا دوسرا کرکٹ میلہ ٹی ٹوئنٹی سجا ہوا ہے۔ اس کرکٹ میلہ میں پاکستان کے دو انٹرنیشنل نوجوان کھلاڑی شرجیل خان اور خالد لطیف کو جوا اور سٹہ بازی کے الزام میں معطل کرکے واپس ملک بھیج دیا گیا ہے، جبکہ دس سے زیادہ دیگر کھلاڑیوں کے خلاف مزید تحقیقات جاری ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں جوا اور سٹہ بازی کا عمل نیا نہیں۔ اس سے قبل پاکستان کے تین اہم کھلاڑی سابق کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر بھی کرپشن اسکینڈل میں سزا کاٹ چکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں سابق کپتان وسیم اکرم، سلیم ملک، معین خان، اعجاز احمد سمیت کئی کھلاڑیوں پر یہ الزامات لگ چکے ہیں۔ سابق کپتان راشد لطیف اور باسط علی نے تو کرکٹ میں اس کرپشن اور سٹے بازی پر بھرپور آواز بھی اٹھائی، لیکن اس مسئلے پر ہماری حکومت اور کرکٹ بورڈ کی خاموشی اور سمجھوتوں کی سیاست نے کرکٹ کے اندر بھی کرپشن اور بدعنوانی کو طاقت فراہم کی ہے۔ اگر اُس وقت جسٹس قیوم کمیشن کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوجاتا اور راشد لطیف سمیت دیگر کھلاڑیوں کی باتوں پر بورڈ نے توجہ دی ہوتی تو آج صورت حال مختلف ہوسکتی تھی۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ جب اوپر سے لے کر نیچے تک سبھی اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھونا چاہتے ہیں تو کون یہاں کھیلوں کو محض کھیلوں تک ہی محدود رکھے گا؟ بدقسمتی سے کرکٹ اب پوری دنیا میں کھیل سے زیادہ کاروبار یا پیسہ بنانے کا عمل بن چکا ہے۔ پیسہ جائز طریقے سے آئے یا ناجائز طریقے سے، کرکٹ کھیلنے والوں اور کرکٹ کھلانے والوں کی نظریں پیسہ کمانے تک محدود ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ میں بھی جو اخلاقیات اب دیکھنے کو مل رہی ہیں ان میں اخلاقی گراوٹ کا عمل زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ کھلاڑی جو اپنے ملک کی جانب سے کھیلتا ہے وہ اب اس کو بڑا اعزاز سمجھنے کے بجائے اس کی عزت کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ کئی کھلاڑی اور بورڈ جو اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں، عملاً ملک سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ پوری دنیا کے کرکٹ بورڈز نے اگر واقعی ابتدا میں کچھ کیا ہوتا، تو آج یہ کچھ نہ دیکھنے کو ملتا۔ لیکن مسئلہ محض کھلاڑیوں کا نہیں، جب خود کرکٹ کے اہم ذمہ داران اور بورڈ کرپشن کا حصہ بن جائیں تو کھلاڑی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے! آپ جب بھی کسی کھلاڑی کو تحقیقات کا حصہ بنائیں تو وہ خود ہی بتائے گا کہ اس کو کیسے کرکٹ کے اصل ذمہ داران نے اِس کھیل میں ملوث کیا۔ کیونکہ کوئی بھی اس کھیل کا حصہ دار بن کر اچانک جوا اور سٹہ بازی میں نہیں آتا، بلکہ اس کے پیچھے مافیا کا ایک پورا کھیل ہوتا ہے جس کو ہر صورت بے نقاب ہونا چاہیے۔
کسی بھی کھیل کا کھلاڑی یا اس کا ذمہ دار ملک کے سفیر کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے جب ایسے واقعات جن میں قومی کھلاڑی یا بورڈ کے عہدے داران کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست میں بے نقاب ہوتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ پاکستان کی کرکٹ تو پہلے ہی عالمی سطح پر سوالیہ نشان کے ساتھ موجود ہے۔ سیکورٹی کی بنیاد پر کوئی ٹیم پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں۔ اب جس انداز سے پی ایس ایل کو بنیاد بناکر بھارت ہمارے خلاف ایک مخالفانہ مہم چلارہا ہے وہ بھی قابلِ غور ہے۔ پاکستان میں عالمی کرکٹ کے نہ ہونے میں ایک بڑا فیکٹر خود بھارت ہے جو ہمیں دباؤ میں رکھ کر اپنے مفادات کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ خود سٹے بازی اور جوئے کے بڑے مافیا کا تعلق بھی بھارت سے ہے جو دیگر ملکوں میں بھی اپنا جال بچھائے ہوئے ہیں۔ اب جو لاہور میں خودکش حملے میں 13 افراد شہید ہوئے ہیں اس واقعہ میں ہم بھارت کے کردار کو نظراندازنہیں کرسکتے۔ کیونکہ بہت عرصے سے بھارت اس کوشش میں تھا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی کے عمل کو روکا جائے، اور خاص طور پر جب یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کا فائل نہیں ہونا چاہیے تو اس میں بھارت پیش پیش تھا، اور لاہور کے دھماکے کے بعد اب لاہور میں پی ایس ایل کا فائنل ہونے کے امکانات محدود ہوگئے ہیں، اور اس کے پیچھے بھارت کی سازش کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے اس سارے معاملے میں ہمیں بھارت کے کردار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ نجم سیٹھی اور شہریار خان کہتے ہیں کہ کرکٹ میں کرپشن کے معاملے میں کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ کاش وہ اس بات کو محض کھلاڑیوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ خود بھی اور اپنے ادارے کو بھی احتساب کے لیے پیش کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ کیا گل کھلارہے ہیں۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ خود ذمہ دار ہیں۔ پی سی بی میں کرپشن اور بدعنوانی سمیت میرٹ سے ہٹ کر بھرتیوں پر میڈیا میں کیا کچھ نہیں آیا، لیکن وزیراعظم جو اس ادارے کے عملی سربراہ ہیں، کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وہ بورڈ ہے جو ہمیں کئی سال سے یقین دہانیاں کرا رہا ہے کہ بہت جلد انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے پاکستان پر کھل جائیں گے۔ لیکن نجم سیٹھی یہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس پابندی کے پیچھے بھارت کا اصل کردار کیا ہے۔ ہماری حکومت اور اس کے ذمہ داران بھارت کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں جو مسائل کی وجہ بھی ہے۔ بھارت میں بھی آئی پی ایل، یا بنگلہ دیش سمیت دیگر ملکوں میں یہ جو پیسے کی بڑی تقسیم کے بعد عالمی کھلاڑیوں کو جمع کرکے کرکٹ میلہ لگایا جاتا ہے یہی کرپشن کی بڑی وجہ بن گیا ہے۔ بھارت میں ایسے کئی بک میکر ہیں جنہوں نے پورے خطے کی کرکٹ کا جنازہ نکالا ہے اور ان ہی بھارتی جواریوں کے بقول اس میں بھارت کا بورڈ بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی سی سی آئی کو جس کا مرکز ممبئی میں ہے، بھارت کی کرکٹ میں کرپشن کا بڑا اڈا سمجھا جاتا ہے۔ یہ جو کئی عالمی کرکٹر بھارت کا رخ بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں اس کے پیچھے بھی پیسے کا سارا کھیل ہے جو کرکٹ کے اصل حسن کو برباد کررہا ہے۔ بدقسمتی سے کرپشن، جوا اور سٹے بازی کا کھیل بورڈز اور کھلاڑیوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کرکٹ کو دیکھنے والے شائقین بھی اس موذی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ گلی محلّوں کی سطح پر کھیلوں اور بالخصوص کرکٹ کے نام پر جو جوابازی اور سٹے بازی ہورہی ہے وہ لمحۂ فکریہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس موذی مرض سے ہماری کلب کرکٹ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اب کچھ لگائے بغیر یا اپنی ہی ٹیم کے خلاف کھیلنا معمول کی بات بن گئی ہے۔ یہ جو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا میلہ دنیا میں سجایا جارہا ہے اس میں بیشتر کرکٹ کوچ، آفیشلزاور کھلاڑی سٹہ بازی کے اس کھیل میں خود بھی اور نوجوان کھلاڑیوں کوبھی حصہ دار بنائے ہوئے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو نوجوان ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ بھی پیسے میں حصہ دار بن کر اپنی ہی ٹیم کے خلاف کھیلیں۔اس لیے مسئلہ محض بڑی کرکٹ تک محدودنہیں، ہمیں کلب سطح کی کرکٹ میں بھی اس موذی مرض کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔
نوجوان کھلاڑی جن کے سامنے ایک شاندار مستقبل ہوتا ہے وہ اس مرض کا زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ یہ جو نئی نسل کرکٹ کے اس موذی مرض کا شکار ہوئی ہے وہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی، بلکہ ان لوگوں نے اپنے بڑے کھلاڑیوں اور کرکٹ کے ذمہ داران کو جوئے یا سٹے بازی میں ملوث پایا تو خود بھی اس کا حصہ بن گئے۔ ویسے بھی کوئی کھلاڑی تن تنہا اس سٹے بازی کا حصہ دار نہیں ہوتا، اس میں پورا ایک مافیا اور گینگ ہوتا ہے جو کئی کھلاڑیوں اور ذمہ داران کو ملا کر میچوں کو فکس کرتا ہے اور نتائج پر اثرانداز ہوتا ہے۔ آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور ملکوں کے بورڈز کی ناک کے نیچے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے، جو توجہ طلب معاملہ ہے۔ ایک زمانے میں نوجوانوں کو صرف کرکٹ کھیلنا ہی نہیں سکھایا جاتا تھا، بلکہ کرکٹ کھیلنے کے آداب اور طور طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔ کیونکہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ملک کے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اب جس انداز سے کرکٹ میں ملٹی نیشنل، کاروباری، اشتہاری طبقہ اور مافیا سرگرم ہوا ہے اس نے کرکٹ کو ’’کارپوریٹ کرکٹ‘‘ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ اس لیے جو طرزعمل اور رویّے نوجوان کھلاڑیوں میں پیدا ہورہے ہیں وہ اسی کارپوریٹ کھیلوں کے پیدا کردہ ہیں۔ کھلاڑیوں کا خیال ہوتا ہے کہ کیونکہ کھیل میں ان کا مستقبل ہمیشہ غیر محفوظ ہوتا ہے اور ان کو یقین نہیں ہوتا کہ کل وہ ٹیم کا حصہ ہوں گے بھی کہ نہیں۔ اسی لیے ان کو ترغیب ملتی ہے کہ جو کچھ بھی اس مختصر وقت میں کمایا جاسکتا ہے، کمالیا جائے۔ یہی وہ رویہ ہے جو اس وقت ہر کھیل جس سے پیسہ جڑچکا ہے، غالب ہوگیا ہے۔ کھیلوں میں پیسے کا آنا بری بات نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ پیسے کا یہ کھیل کیا جائز ہورہا ہے؟ اس پیسے کے نتیجے میں ہماری کرکٹ سمیت ساری اخلاقی قدروں کا بھی جنازہ نکل رہا ہے۔ اس لیے ہمارے ارباب اختیار کو سمجھنا ہوگا کہ اگر اس مرض پر قابو نہ پایا تو کل ہمارا کھیل بھی ختم ہوگا اور معاشرے کی تصویر پر بھی بدنما داغ لگے گا۔
اصل میں جب نئے کھلاڑی اپنی سیاست، انتظامی اور حکومتی سطح پر پھیلی ہوئی کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی وقت سے قبل بہت کچھ کمانے کا جنون سوار ہوجاتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں پیسے اور طاقت کے ساتھ یا مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے وہ قانون کی گرفت سے بھی بچ سکتے ہیں تو وہ کیونکر پیسہ نہ کمائیں!یہی کچھ ہماری سیاست اور بیوروکریسی میں ہورہا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ کرپشن کو مسئلہ نہیں سمجھتے اور ان کے بقول یہ بنیادی نوعیت کا مسئلہ نہیں، وہ اس بات کا ادراک نہیں رکھ پاتے کہ اس نے کیسے معاشرے میں سرایت کی ہے۔ کیونکہ جو پالیسی بھی کرپشن اور بدعنوانی کے گرد گھومے گی اس میں اصلاح کا پہلو تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ جب وزیراعظم سے لے کر وزرائے اعلیٰ، وزیروں سے لے کر سیاست دانوں اور انتظامی و قانونی افسران و کاروباری طبقے تک سبھی اس ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کی سیاست کا شکار نظر آئیں گے تو پھر غصہ محض کھلاڑیوں پر کیوں؟ یہ جو ہم سیاست میں کرپشن کے نام پر بڑے بڑے سیاست دانوں، بیوروکریٹس، فوجی افسران، کاروباری طبقے، میڈیا، قانون کے رکھوالوں کے اعمال ناموں کو دیکھتے ہیں یا جو ہمیں دکھایا جارہا ہے اس نے پورے معاشرے کی اخلاقی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لگتا ہے کہ ہم سب کو پیسے بنانے کا جنون سوار ہوچکا ہے، اور جو لوگ بھی حکمرانی یا طاقت کے نظام کا حصہ بنتے ہیں وہ کرپشن اور بدعنوانی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہی ہے کہ جب ہم نے خوداحتسابی یا قانون کی گرفت کی مدد سے قانون کی حکمرانی اور احتساب کا نظام نہیں بنانا تو پھر معاشرے کی اصلاح کا عمل کیسے شروع ہوگا! لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قانون ہمارے گھر کی لونڈی ہے اور اس کو ہم اپنی طاقت اور وسائل کی مدد سے اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جہاں سے قوم کی بربادی کا اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ جب ہم معاشرے کی شفاف ترقی کے بجائے اپنی ذات، خاندان اور گھر کی ترقی کو بنیاد بناتے ہیں تو ہم ایک طرف کرپشن اور بدعنوانی کرتے ہیں اور دوسری طرف سیاست اور اس کے فیصلوں اور طاقت کو اپنی حد تک محدود کرکے نظام چلاتے ہیں۔ اگر آج آپ نے ان دو کرکٹرز کو پکڑ بھی لیا ہے اور ان کو محض سزا سنا کر آپ سمجھیں کہ ہمارا مسئلہ حل ہوگیا ہے، تو ایسا نہیں ہوگا۔ مسئلے کا حل ان تمام محرکات اور کرداروں کو سمجھ کر بے نقاب کرنا ہے جو کرکٹ کے نام پر ایک بڑے مافیا کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ لیکن یہ کام آسان نہیں، اور اس کے لیے مضبوط قسم کی مزاحمت اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جو رائے عامہ بناتا ہے یا جو اپنے آپ کو ماڈل کے طورپر پیش کرتا ہے، وہ خود کرپشن اور بدعنوانی میں گھرا نظر آتا ہو تو پھر دیگر اداروں میں پھیلی ہوئی کرپشن کا سبدباب کیسے ممکن ہوسکے گا! یہی وہ المیہ ہے جس سے ہماری سیاست، کھیل اور دیگر معاملات کو پاک کرنا ہوگا، اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی اصلاحات اور مزاحمت کے پہلو کو مضبوط بنانا ہوگا۔