سلمان علی
13فروری کوورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کہنے پر پوری دنیا میں مرگی کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ تاکہ پوری دنیا میں مرگی کے بارے میں آگہی پیدا ہو۔ مرگی کو آسیب یا دیگر توہمات سے جوڑا جاتا ہے جو قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ مریض کو جوتا یا چپل سونگھانایا کسی اور طریقہ علاج پر لے جانا خود مریض کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور اہل خانہ کے لیے بھی صرف مسائل ہی کوجنم دیتا ہے۔ اس مرض کے بارے میں جامع تحقیقات ہو چکی ہیں اور ماہرین دماغ و اعصاب اس مرض کو قابل علاج قرار دے چکے ہیں ۔ اس لیے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس حوالے سے آگہی و شعور پھیلائیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ جب یہ آگہی پیدا ہو تو اس کے نتیجے میں ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جس میں اس بیماری کی شرح کو قابو کیا جا سکے ۔ جو بیماری بڑھ رہی ہے اس کو روکا جا سکے اور جن کو یہ بیماری ہے ان کا علاج کیا جا سکے۔ لیکن ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے مرگی کا عالمی دن منایا جاتاہے ۔اس ضمن میں نیورولوجی اویرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کا کردار سب سے اہم رہا ہے جو ہر سال دماغی و اعصابی امراض کی آگہی کے سلسلے میں پریس کانفرنس کرتے ہیں ، دیگر آگہی کے پروگرام کرتے ہیں جس کی میڈیا پر خبریں بھی آتی ہیں ۔گو کہان سب کے باوجود اب تک کوئی ایسے اعداد و شمار نہیں آ سکے جو اس مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد بتا سکیں تاہم ملک بھر کے ڈاکٹرز اور اپنے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پاکستان میں 20لاکھ سے زیادہ مرگی کے مریض ہیں جن کو اب بھی مناسب سہولیات و علاج دستیاب نہیں ہے۔اس ضمن میں حکومت کی بے حسی اہم ہے کہ جہاں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ بیمار ہیں یا مر رہے ہیں (کیونکہ یہ مہلک بیماری بھی ہو سکتی ہے )اور حکومت کی طرف سے وزارت ہونے کے باوجود پچھلے کئی سالوں میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔جتنے اقدامات متعلقہ سوسائٹیزنے تجویز کیے کہ پاکستان میں اس بیماری کو روکنے کے لئے اقدامات ہونے چاہئیں اُن پر عمل نہیں ہو سکا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طرح کی تجاویز دیگر ممالک میں نافذ ہو چکی ہیں جن میں انڈیا میں اور بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ملک بھی شامل ہیں ۔ ان ملکوں میں تو حکومت نے اس بیماری کے لئے باقاعدہ سرکاری سطح پر ٹاسک فورس قائم کی ہیں کہ جس میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیماری کو روکنے کی کوشش کی جائیگی۔ لیکن پاکستان میں چونکہ وفاقی سطح پر وزارت صحت عملاً فنکشنل نہیں ہے صرف کوآرڈینیشن کا کام کرتی ہے اور صوبائی سطح پر یہ پورا محکمہ ہے۔مناسب علاج کے لئے ، اس مرض کی تشخیص کے لئے مخصوص مشین ہوتی ہیں جس سے اس کی تشخیص کی جا سکتی ہے ۔متعلقہ ڈاکٹرز ہوتے ہیں (نیورولوجی ) لیکن نہ سول ہسپتالوں میں نہ ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں ان کی دستیابی کے لیے کوئی اقدامات کئے گئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ وہ بیماری ہے کہ جو دوا سے قابل علاج ہے۔آپ مریض کو دوا دیں تو 90%مریض وہ ہیں کہ جو ’’دوروں سے پاک ‘‘ہو جاتے ہیں اور معاشرے کا ایک عملی حصہ بن جاتے ہیں ۔ ایک طالب علم ہے اس کو اگر مرگی کی بیماری ہے وہ اسکول نہیں جا سکتا جب تک اس کی بیماری کنٹرول میں نہ ہو ۔کوئی خاتون ہے اسکول میں پڑھاتی ہے کوئی اسکول میں اور کسی کمپنی میں ملازمت کرتا ہے کوئی بھی کام کرتا ہواس کے مرگی کے دورے کنٹرول میں نہیں ہوں گے تو وہ کوئی کام نہیں کر سکتا ۔وہ معاشرے کا ایک معذور فرد بن جاتا ہے اور آپ اس کے دوروں کو کنٹرول کر لیں روزانہ دو گولی تین گولی یا چار گولی دوائی اس کو دے دیں اس کے دورے کنٹرول ہو جائیں تو وہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بن جاتاہے۔اس مرض کا شکار دنیا میں ڈاکٹرز بھی ہیں، کئی تو پی ایچ ڈیز ہیں ،انجینئرز ہیں، فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں، طلبہ ہیں ،گھر میں رہنے والی خواتین ہیں جو بچے پالتی ہیں ۔ یہ سب اس مرض کے ہوتے ہوئے نارمل زندگی گزار رہی ہیں صرف اس لیے کہ ادویات کے استعمال سے انہوں نے مرگی کی بیماری کو قابو کر رکھا ہے ۔
حکومت کے کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ جو مرگی کے مریض ہیں ان کو مرگی کی دوائیاں دستیاب ہونی چاہئیں گورنمنٹ کو اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔کبھی کوئی دوا دستیاب نہیں ہے کبھی کوئی۔ایک مریض اگر دوا پر ہے اور وہ دوا کمیاب ہو تو اس کا تو سارا کنٹرول خراب ہو جاتا ہے ۔ دو دو تین تین سال سے دورے کنٹرول میں ہوتے ہیں پھر دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں اس لئے کہ دوائی مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہے۔یہ بھی تو کسی کی ذمہ داری ہوتی ہے چاہے وہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ہو یا گورنمنٹ ہو کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جو لائف سیونگ دوائیاں ہوتی ہیں ان کو معاشرے میں دستیاب ہونا چاہئے۔ اور ہمارے مریضوں کو اس پر بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹرز ایک دوائی لکھتے ہیں کچھ دنوں میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوا غائبمارکیٹ سے ہو گئی ہے۔ اس کے بعد دوسری لکھو تو دوسری غائب ہو جاتی ہے تو پورا سال یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے کہ جس کے اوپر حکومت کو اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ جو مرگی کے مریض ہیں ان کو ہم نہ صرف دوا دیتے بلکہ ان کی ہم ووکیشنل ٹریننگ کرتے ان کو ہم معاشرے کا ایک بہتر فرد بناتے جو معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرتا۔پاکستان سے باہرایسے کئی ادارے ہیں کہ جہاں انہوں نے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر بنائے ہوئے ہیں اور مریضوں کو دستکاری و دیگر ہنر سکھائے جاتے ہیں ۔ WHOاور United Nationکے ساتھ جو ہم نے ہیومن رائٹس کا چارٹر سائن کیا ہے اس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ بنیادی سہولیات اس ملک کے شہریوں کو فراہم کی جائیں گی۔اور یہ ایک انسان کا بنیادی حق ہے کہ اگر اس کو ایک بیماری ہے تو اس کو علاج مہیا کیا جائے۔ اس طرح جو مرگی میں مبتلہ ہیں انہیں ہم ووکیشنل ٹریننگ دیں، اچھے اسکولوں میں داخلے فراہم کریں، اگر وہ معذور ہیں تو ان کی معذوری کا علاج کریں تاکہ وہ اس معاشرے کے کامیاب فرد بن سکیں۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس کے اوپر کام کریں جو 20لاکھ مرگی کے مریض ہیں اس میں پندرہ ،بیسلاکھ لوگ ایسے ہوں گے جو اس معاشرے کا بہت کارآمد فرد بن سکیں گے ۔بس اہم بات یہ ہے کہ ریاست اپنا کردار ادا کرے ۔