اخوند زادہ جلال نور زئی
ملک کے اندر بلوچستان اور خیبر پختون خوا قوم پرست سیاست کے اعتبار سے نمایاں صوبے ہیں۔ یہاں سیاسی مزاج و رویہ انتہا پسندانہ بھی ہے۔ بلوچستان میں حقِ اختیار کے معاملے پر پُرتشدد جدوجہد شروع ہوئے ایک عشرے سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ وہ جماعتیں جو پارلیمانی طرزِ سیاست پر یقین رکھتی ہیں، ان کا مؤقف بھی سخت ہے۔ گویا صوبائی خودمختاری کے حوالے سے اُن کے رویّے میں بھی تلخی پائی جاتی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی بھی مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں بسا اوقات انتہا تک جانے کی دھمکی دے دیتی ہیں۔ غرضیکہ ان جماعتوں کے لبوں پر محرومیوں کا ہی تذکرہ رہتا ہے۔ صوبائی خودمختاری کا مسئلہ دراصل ہے بھی آئینی و قانونی۔ جب 1973ء کا آئین منظور ہوا تو یہ وعدہ کیا گیا کہ کنکرنٹ لسٹ دس سال کے اندر صوبائی فہرست میں شامل کردی جائے گی مگر اس میں تاخیر پر تاخیر ہوتی رہی۔ صوبے اپنے وسائل پر اختیار نہ رکھتے تھے، جس کے لیے قوم پرست جماعتیں احتجاج کے مختلف انداز اپناتی رہیں۔ کبھی نیپ، تو کبھی پونم کے نام سے، اور کبھی اے پی ڈی ایم اے کے نام سے اتحاد تشکیل دے کر وفاق پر دباؤ ڈالتی رہیں۔ پیپلز پارٹی ایک قومی جماعت ہے جو دراصل سندھ کی بھی نمائندہ پارٹی ہے، چنانچہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کا گراں قدر کام کرکے پیپلزپارٹی نے یقیناًبہت بڑی پیش رفت کی جس پر صوبوں نے کافی حد تک اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس آئینی ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ چونکہ آئین کے اندر صوبوں کے اختیارات کی صورت گری موجود ہے چنانچہ اب صوبوں کے عوامی نمائندوں اور افسر شاہی پر منحصر ہے کہ وہ اپنا اختیار جاننے کی کوشش کریں اور اپنے وسائل کو خود بروئے کار لائیں۔
بلوچستان میں مخلوط حکومت ہے۔ وزیراعلیٰ کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ضرور ہے، مگر وہ چیف ایگزیکٹو ہیں، بلوچستان اور اس صوبے کے عوام کے نمائندے ہیں۔ بلوچستان بیش بہا معدنی خزانوں کی سرزمین ہے، ایسے میں حکومت کو ہمہ وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معدنی وسائل صوبے اور عوام کے مفاد پر خرچ ہوں۔ حال ہی میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں دنیا کی مہنگی ترین دھات ’’مولی بینیم‘‘ دریافت ہوئی ہے۔ اس دھات کی قیمت ایک لاکھ ڈالر فی ٹن ہے۔ یہ دھات خلائی جہازوں میں استعمال ہوتی ہے۔ جیالوجیکل سروے کی دو الگ الگ ٹیمیں صوبے کے اضلاع آواران اور موسیٰ خیل کا دورہ بھی کریں گی۔ بلوچستان دنیا میں سونے کے ذخائر کی راہداری میں شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق یہاں 36 نئی قدرتی دھاتیں دریافت ہوئی ہیں۔ گویا قدرتی وسائل کی تلاش کا کام مسلسل ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عمل میں بلوچستان کا کتنا عمل دخل ہے؟ یقیناًبلوچستان حکومت کو نہ صرف باخبر رہنا چاہیے بلکہ معدنیات کی تلاش میں پوری طرح شامل ہونا چاہیے تاکہ صوبے کے وسائل کا ہر طرح سے تحفظ ہو۔ اب تک بلوچستان کو اپنے وسائل کی آمدنی سے محروم رکھا گیا ہے، یعنی خاطرخواہ حصہ نہیں دیا جاتا۔ سیندک منصوبے پر چینی کمپنی ایم سی سی کے ساتھ لیز کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ خوش کن اطلاع یہ دی گئی ہے کہ 2017ء میں سیندک کا منصوبہ بلوچستان حکومت کے حوالے کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری اور وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں سیندک سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نواب زہری کہہ چکے ہیں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات کی تلاش و ترقی کے منصوبوں کے اختیارات صوبوں کو حاصل ہوچکے ہیں، انہوں نے زور دیا کہ سیندک منصوبے کا اختیار بھی حکومتِ بلوچستان کو ملنا چاہیے۔ شاہد خاقان عباسی سیندک منصوبہ بلوچستان کے حوالے کرنے پر اتفاق کرچکے ہیں، یقیناًاب ضروری ہے کہ وفاق روایتی حربوں کے بجائے اپنے قول و قرار پر یقینی عمل درآمد کرے۔ بلوچستان حکومت سیندک منصوبے کی لیز میں توسیع سے متعلق جاندار شرائط پر معاملات طے کرے۔ یہ امر مدنظر رہے کہ اُس کمپنی کی بولی قبول کی جائے جس سے صوبے کو زیادہ سے زیادہ منافع ملے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیندک سے بہت کچھ نکالا جاچکا ہے، لہٰذا اب باقی ماندہ کی آمدنی بلوچستان کو حاصل ہونی چاہیے۔ حکومت کو صوبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی رائے سے استفادہ کرنا چاہیے، بالخصوص وہ بیوروکریٹ جو آئینی و قانونی موشگافیوں سے واقف ہیں، کی رہنمائی ضرور لینی چاہیے۔ سیندک میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے 1961ء میں کاپر دریافت کیا۔ جی ایس پی اور امریکن جیالوجیکل سروے کے اشتراک سے سیندک میں ڈرلنگ کی گئی اور 1972ء میں اس مقام پر کاپر کے بڑے ذخیرے کی تصدیق کی گئی۔ 1990ء میں حکومتِ پاکستان نے چین کی کمپنی ایم سی سی سے معاہدہ کیا۔ یہ کمپنی آج بھی سیندک میں کام کررہی ہے۔1991ء تا 1994ء مائن کنسٹرکشن کا ابتدائی کام جاری رہا، چنانچہ1995ء میں ٹرائل آپریشن شروع کیا گیا جس میں1500میٹرک ٹن بلسٹر کاپر اور سونا نکالا گیا۔ ماہرین کے مطابق 1996ء سے 2003ء تک وسائل اور مشینری کی کمی کی وجہ سے کاپر کی مارکیٹ ویلیو گر گئی جس سے حکومت کو تنخواہوں اور دیکھ بھال کی مد میں 300 ملین کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ بہرحال سیندک کے وسائل سے وفاق اور چین کی کمپنی بہت کچھ کما چکے ہیں، البتہ بلوچستان کا حصہ بہت کم ہے۔ صوبائی حکومت کو اپنے وسائل پر اختیار حاصل کرنے کے لیے نہ صرف ڈٹ جانا چاہیے بلکہ اس کے لیے جنگ کرنی ہوگی۔ حکومت کامیاب ہوتی ہے تو صوبہ ترقی اور خوشحالی سے ہم کنار ہوگا۔ یقیناًحکومت کی یہ کاوش، کارکردگی اور کامیابی سنہرے حروف میں لکھی جائے گی۔