پاکستان میں دہشت گردی کے سانحات کے سلسل سے جاری ہیں۔ پیر 13 فروری کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں صوبائی اسمبلی کے سامنے ہونے والے بم دھماکے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ددوا ساز اداروں اور تاجروں کا احتجاجی دھرنا جاری تھا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ لاہور میں ہونے والے تازہ ترین حملے میں دو اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت 17 پاکستانی شہری شہید اور 85 زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں پولیس والوں اور عام شہریوں کے ساتھ وقائع نگاری میں مصروف ذرائع ابلاغ بھی نشانہ بنے‘ ایک ٹی وی چینل کی گاڑی بھی تباہ ہوئی جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے۔ لاہور میں ہونے والے دھماکے کو فوری طور پر دواسازاداروں اور کی فروخت سے متعلق تنظیموں کے احتجاج اور پولیس کی نفری کو نشانہ بنانے سے جوڑا گیا ہے‘ اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی گئی کہ چونکہ لاہورمیں پاکستان سوپرلیگ کے فائنل مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کا تاثر مستحکم ہوجاتا۔ یہ تاثر بعض قوتوں کو مطلوب نہیں ہے‘ اس لیے ایک ایسے حساس مقام کو چنا گیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیل سکتا ہے۔ یہ سانحہ اس پس منظر میں بھی پیش آیا ہے کہ 36 ملکوں نے پاکستان کے سمندر میں مشترکہ بحری مشقیں کی ہ یں۔ جس کی وجہ سے علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان کی تزویراتی قوت و طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت‘ عسکری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں طویل عرصے سے قوم کو بتاتی رہی ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے۔ حکومت پاکستان نے بلوچستان سے حاضر سروس ’’را‘‘ کے افسر کلبھوش سنگھ کو گرفتار کیا ہے۔ سی پیک کے منصوبے کے خلاف بھارت کی مخالفت چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر کشیدگی بڑھائی ہوئی ہے۔ پاکستانی قوم نے دہشٹ گردی کی وارداتوں کا جرأت اور حوصلے سے مقابلہ کیا ہے‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران دوست اور دشمن کا شعور حاصل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ہرواردات کے بعد ’’پُراسرار‘‘ اور ’’بھوت‘‘ تنظیموں کی طرف سے اعترافی بیانات بھی ذرائع ابلاغ میں نشر ہوجاتے ہیں‘ یہ بیانات اس بات کی شہادت ہیں کہ ان وارداتوں کی پشت پر پاکستان دشمن خفیہ ایجنسیاں ہیں جن میں ’’را‘‘ سرفہرست ہے اور کلبھوش سنگھ کی پاکستان سے گرفتاری اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان ہمسایہ ملک کی مدد سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان کے پڑوسیوں نے سارک کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔‘‘یہ وہ بات ہے جو بار بار کہی جاتی رہی ہے‘ لیکن اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جارہا ہے۔ اس بات کی طرف ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے خطاب میں بھی کیا ہے کہ طاقت کا غیرقانونی استعمال ‘ بیرونی جارحیت اور غیرملکی قبضے دہشت گردی کو بڑھارہے ہیں یعنی افغانستان پر امریکہ اور یورپی ممالک کا فوجی قبضہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ایک سبب ہے۔اس حقیقت کا ادراک ہوجانے کے باوجود کہ امریکی سربراہی میں شروع کی جانے والی انسدادِ دہشت گردی کی جنگ یا ’’وار آن ٹیرر‘‘ فروغ دہشت گردی کی جنگ ہے۔ پاکستان میں تسلسل سے ہونے والی دہشت گردی اور اس میں اضافہ اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی قوم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے شہری آزادی‘ بنیادی انسانی حقوق اور آزاد عدلیہ کو قربان کیا ہے اور انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں فوجی عدالتوں کو قبول کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ناقابل احتساب اختیارات دیے ہیں۔ سیاسی آزادیوں پر پابندیوں کو قبول کیا ہے‘ جبکہ ملک میں دستور بھی بحال ہے ‘پارلیمان بھی قائم ہیں‘ہر واقعے کے بعد ریاستی اداروں کے اختیارات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے‘ لیکن یہ یقین قائم نہیں ہوتا کہ دہشت گردی کا سلسلہ رک گیا ہے۔ لاہور بم دھماکے سے ایک بار پھر یہ سوال پیدا کردیا کہ ضرب عضب‘ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن کامیابیوں کا دعویٰ کیا گیا تھا ان کی حقیقت کیا ہے؟ کئی بار دعویٰ کیا گیا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ قبائلی علاقوں خو دہشت گردوں سے پاک صاف کردیاگیاہے‘کیا یہ دعوے غلط تھے‘ یا دہشت گردی کی تنظیمیں اتنی طاقتور ہیں کہ وہ طاقتور ریاستی اداروں کو بھی عجاز کرسکتی ہیں۔ کیا دہشت گرد اتنے طاقتور اور سخت جان ہیں کہ وہ اب بھی اتنے بڑے حملے کرسکتے ہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں معمول سے زیادہ حفاظتی اقدامات ہوتے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد یہ خبر بھی جاری کرائی جاتی ہے کہ خفیہ تفتیشی اداروں کی جانب سے حملے سے انتباہ کردیا جاتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود دہشت گرد جب چاہتے ہیں اپنی کارروائی کر ڈالتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب روس افغاسنتان میں گھس آیا ۔ دہشت گردی کی وارداتوں کی ہولناکی میں اضافہ اس وقت ہوا جب امریکہ نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی اور پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ فوجی‘ سیاسی اور انٹیلی جنس کمک اور رسد فراہم کرے۔ اس جنگ کا اصل ہدف پاکستان او ردفعای او رجوہری صلاحیت تھی غیرملکی دہشت گردوں کی پاکستان میں رسائی اس وقت ظاہر ہوگئی تھی جب آرمی چیف جو کہ ملک کے سربراہ بھی تھے کا جہاز دھماکے سے اڑا دیا گیا اور اس کے اصل حقائق سے قوم کو لاعلم رکھا گیا۔اب بھی یہی صورت ہے کبھی بھی قوم کو معلوم نہیں ہوتا کہ اصل حقائق کیا ہیں یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ حملہ خودکش تھا یا کوئی بم نصب کیا گیا تھا۔ ایسے واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات میں اضافہ کردیتے ہیں‘ لیکن ابھی تک توعوام کی جان و مال محفوظ ہونے کی ضمانت نہیں مل سکی۔ ایک ہی واقعات میں مختلف لوگوں کو گرفتا کیا جاتا ہے‘ لیکن اکثر لوگ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں۔ قوم کا یہ مسآہدہ ہے کہ ایسے حادثات‘ سانحات اور واقعات حکومت اور اس کے داروں کو بلااحتساب اختیارات دلوانے کا سبب بنتے ہیں۔ جگہ جگہ تلاشی ہوتی ہیں‘ شہری آزادیاں سلب کی جاتی ہیں‘ لیکن دہشت گردوں پر کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب لگتا یہ ہے کہ اس سانحے کے بعد احتجاج کرنے کے لیے لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ کا پھر سے جائزہ لیا جائے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے جس حقیقت کو عیاں کردیا ہے اس کا اعتراف کرکے قومی و ملکی حخمت عملی تشکیل دی جائے۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا۔۔۔؟