ماہرین نے دماغ کے مخصوص گوشے کو متحرک کرکے نشے کی لت کو دور کرنے کا تجربہ کیا ہے جس کے ابتدائی نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں۔
امریکی شہر سان ڈیاگو میں واقع اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سائنس دانوں نے چوہوں پر تجربات کیے جس میں چوہوں کے دماغ کے ایک اہم گوشے ’’سب تھیلمک نیوکلیئس‘‘ پر برقیرے (الیکٹروڈ) لگاکر انہیں سرگرم کیا۔ دماغ کا یہ حصہ کسی طلب کو روکنے میں کام آتا ہے جسے سائنس کی زبان میں ’’انہبیشن ایریا‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے قبل یہی دماغی حصہ پارکنسن بیماری کے دورے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوا تھا جس کے لیے یہاں الیکٹروڈ سے ہلکی بجلی کے سگنل پہنچائے جاتے تھے۔
ہیروئن کی عادت اور دماغی تعلق پر کام کرنے والے سائنس دان کا کہنا ہے کہ ہیروئن بہت مشکل سے چھوٹتی ہے لیکن تجربے میں چوہوں کو ایک لیور دباکر ہیروئن کی تھوڑی سی مقدار لینے کی سہولت دی گئی جو 2 ہفتے تک ہر 12 گھنٹے میں ایک مرتبہ ہیروئن تک رسائی ممکن بناتی تھی۔ ماہرین نے چوہوں کے دماغ پر الیکٹروڈ لگاکر سب تھیلمک نیوکلیئس کو تحریک دی جسے ڈیپ برین سیمولیشن کہا جاتا ہے۔ ہلکی بجلی کی تحریک سے چوہوں میں ہیروئن کی طلب کم ہوئی، الیکٹرو شاک سے گزرنے اور اس سے دور رہنے والے چوہوں کو 2 ہفتے تک ہیروئن سے دور رکھا گیا۔ اس کے بعد دوبارہ ان کے سامنے ہیروئن حاصل کرنے کا نظام رکھا گیا تو معلوم ہوا کہ جو چوہے ڈیپ برین سیمولیشن سے گزرے وہ ہیروئن سے دور رہے۔ اس کی شاید یہ وجہ ہے کہ الیکٹرو شاک عمل سے دماغی سرکٹ بھی تبدیل ہوجاتا ہے جو نشے کی طلب کم کرتا ہے۔ ڈیپ برین سیمولیشن میں سرجری کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ ہر ایک پر کسی خطرے کے بغیر آزمایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بہت جلد انسانوں پر یہ طریقہ آزما کر انہیں نشے کی لت سے دور کیا جاسکے گا۔