آسٹریلیا پہنچ کر اپنے والد محترم کو لکھا کہ اگرچہ میں غیر ذبیحہ گوشت کھانے سے پرہیز کرتا ہوں تاہم آپ اس مسئلے کو کسی ایسے عالم سے بیان کرنے کے بعد جس نے نئی دنیا دیکھی ہو اور برتی ہو، میری رہنمائی کریں۔
والد محترم نے جواب میں لکھاکہ یہ مسئلہ کسی مفتی کے سامنے پیش کرنے کے بجائے تمہارے ضمیر کے سپرد کرتا ہوں۔ ضمیر سے بڑا دارالافتاء کہیں اور نہیں ملے گا۔ جہاں گنجائش نظر نہ آئے وہاں جھگڑا مول لینے کے بجائے شریعتِ قلبی سے کام لو۔ اپنی تربیت اور فکر کے مطابق فیصلہ کرنے کی ایک اچھی مثال سلطان مظفر کے کردار میں ملتی ہے۔ اپنے اندر ہمت پاتے ہو تو اس مثال کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرو۔ ایک بار سلطان کی غیر حاضری میں اعلیٰ نسل اور عمدہ تربیت کا ایک نایاب گھوڑا جسے سلطان پسند کرتا تھا، بیمار ہو گیا۔ علاج کے لیے بڑے جتن کیے گئے، یہاں تک کہ دوا میں شراب ملا کر پلائی گئی۔ بالآخر گھوڑا صحت یاب ہوگیا۔ سلطان واپس آیا تو یہ بات اس کے علم میں لائی گئی۔ سلطان کو وہ گھوڑا بہت عزیز تھا، کفر و دین کی جنگ میں اس نے ساتھ دیا تھا۔ سلطان مظفر نے سن کر صرف اتنا کہا کہ اب کبھی میری زین اس کی پشت پر مت رکھنا۔
والد محترم کا خط پڑھنے کے بعد اس نے عہد کیا کہ وہ خواہشات کے گھوڑے پر سوار ہونے کے بجائے تمام عمر پیادہ پا چلے گا۔
(سفر نصیب۔ مختارمسعود)