میڈیا یا ذرائع ابلاغ ہر ملک کا انتہائی اہم شعبہ ہوتا ہے، تین مختلف دائروں میں یہ شعبہ کام کرتا ہے۔ پرنٹ میڈیامیں اخبار وجرائد ،الیکٹرونک میڈیامیں ٹی وی، ریڈیو وغیرہ،سوشل میڈیا میں انٹرنیٹ،فیس بک، وہاٹ اپس وغیرہ۔ پاکستان میں اس وقت میڈیا کی مجموئی کارگردگی پہلے سے کہیں زیادہ فعال ہے۔ٹی وی چینلز کی ذیادہ تعداد کی وجہ سے عوام کو مختلف تفریحی اور معلوماتی پروگرام اور نیوز بلیٹن فورا ملتی رہتی ہیں۔ اخبار اور چینلز کے نمائندے پورے ملک میں براہ راستlive کوریج میں مصروف رہتے ہیں۔ اور بعض اوقات خود کو خطرے میں بھی ڈال دیتے ہیں۔ آزادی صحافت کی وجہ سے میڈیا کے تمام شعبے اپنا کام بھرپور طریقے سے کررہے ہیں۔
میڈیا کی پالیسی اور کارگردگی کے بارے میں چند اہم نکات و تجاویز درج ذیل ہیں۔ اخبارات و جرائد کی تحریر باریک ہوتی ہے، لوگوں کی اکثریت کو اسے پڑھنے میں دشواری ہوتی ہے، اس طرف نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ ایسے بھی کئی کالم نگار اور تجزیہ نگار ہیں جو کہ قومی و بین الاقوامی شخصیات کی محض کردار کشی میں لگے رہتے ہیں،یا پھر کسی بینالاقوامی معاملہ سے متعلق کسی دوسرے ملک کی صورتحال کی غلط عکاسی کردیتے ہیں۔ تجزیہ میں حقائق اور شواہد کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے، ادھوری معلومات اور محض تخیل کی پرواز پر اعتبار کرکے بہت کچھ لکھ دیا جاتا ہے، جو کہ نامناسب ہے۔غلط تجزیہ اور صورت حال کی ناقص عکاسی عوام کیلئے الجھن کا باعث ہوتا ہے اور پے چیدہ معاملات کو حل کرنا مزید دشوار ہوجاتا ہے۔ ایک عام لکھاری اپنے خیالات کو بہت مناسب لفظوں میں لکھ سکتا ہے، ایک بہتر لکھاری کسی شخص یا معاملہ کے بارے میں درست معلومات فراہم کرتا ہے، جبکہ ایک اعلی درجہ کا لکھاری وہ ہوتا ہے جو ان دو با توں کیساتھ ایک ایسا تجزیہ یا رائے بھی دے سکتا ہے جس سے کسی متنازعہ شخصیت کے بارے میں عوام کو رائے قائم کرنا آسان ہوجاتا ہے اور کسی الجھے ہوئے معاملے کو حل کرنے میں متعلقہ ماہرین کو مدد ملتی ہے۔مسائل کو اجاگر کرنا اور کرپشن کو بے نقاب کرنا میڈیا کی اور لکھاریوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوریج اور رپورٹنگ سے معلومات فراہم ہوتی ہے، لیکن تجزیہ نگاری اس سے الگ ہے۔
تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات کا طریقہ یہ بھی چل رہا ہے کہ ملک کی چند شخصیات کو بہت زیادہ کوریج دی جاتی ہے، اور عوام انھیں دیکھ دیکھ کر اور پڑھ پڑھ کر یقیناًاکتاہٹ کا شکار ہوجاتے ہوں گے۔چند مخصوص شخصیات، مخصوص اشوز پر خبریں اور تبصرے اکثر بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ بہرحال مسائل کو اجاگر کرنے ، کرپشن کوبے نقاب کرنے، اورخبروں کو بروقت پہنچانے میں میڈیا کی کارگردگی بہترین ہے۔ کچھ چھوٹے اخبارات عاملوں اور آستانوں کے اشتہارات بھی چھاپ دیتے ہیں جو عوام کیلئے واضح طور پر نقصان دہ ہوتے ہیں ۔اسٹالز پر بہت سے نئے اور غیر معیاری اخبارات بھی دیکھنے میں آتے ہیں،انھیںِ ردی اخبار کہا جاسکتا ہے۔ ایک، دو اخبار ایسے بھی ہیں جو کم معیار کے اشتہارات ہرگز شائع نہیں کرتے،اگرچہ ان کو اشتہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک ہفت روزہ اخبار یا ماہانہ جریدے کے مقابلے میں روزنامہ اخبار پر ذیادہ ذ مہ داری ہوتی ہے۔ ہفتہ کے ۷ دن بلاناغہ خبروں کی اشاعت میں۔ اور اسی طرح بلاناغہ چلنے والے صبح سے رات دیر تک ٹی وی چینلزکا نشریاتی سلسلہ۔
سوشل میڈیا کی مقبولیت اس وقت بہت زیادہ ہوچکی ہے، انٹرنیٹ، فیس بک، وہاٹ اپس،کی سہولت سے لوگ بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔ لوگوں کے مابین رابطوں کے علاوہ مختلف اشوز پر اپنی رائے،تبصرے باآسانی ایکدوسرے کو اور میڈیا تک پہنچادیتے ہیں۔
کھیل اور ثقافت اور الیکٹرونک میڈیا سے تعلق رکھنے والا ایک شعبہ فلم انڈسٹری ہے، پاکستانی فلموں کا معیار اتنا کم ہے کہ اسے دیکھ کر حیرت اور افسوس ہوتا ہے، یہ فلمیں کسی بھی طرح پاکستانی ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتیں نہ ان میں کوئی مقصدیت ہے۔ ٹی وی ڈرامے قدرے معیاری ہوتے ہیں، عوام کی بڑی تعداد انھیں دیکھتی ہے، پاکستان میں کسی بھی شعبہ میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں، مواقع ملنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔ نوید خان۔۔کراچی۔۔۔