(حسن اخلاق(افروز عنایت

462

امی: ماشاء اللہ انعم آج مجھے تمہاری طبیعت کافی بہتر لگ رہی ہے۔
انعم: جی امی اللہ کا شکر ہے۔ پورے ایک ہفتے کے بعد آج میں رات میں آرام سے سوئی۔ شکر اللہ کا، اس ڈاکٹر کی دوائی سے اللہ نے شفا عطا کی۔
داماد: جی آدھی بیماری تو ڈاکٹر کی باتوں سے ہی دور ہوگئی۔
انعم: جی امی، پورا آدھا گھنٹہ ڈاکٹر اپنے ایک مریض کو دیتا ہے، اس نے اطمینان، سکون اور توجہ سے میرے کیس کی تفصیلات مجھ سے اور اشعر سے سنیں اور پھر تسلی بخش ڈسکس کی کہ میں مطمئن ہو گئی، ورنہ تو میں ڈر رہی تھی کہ نہ جانے مجھے کیا بیماری ہے خدانخواستہ۔
امی: ہاں بیٹا، یقیناًڈاکٹر کی مکمل توجہ ، خوشگوار لب و لہجہ اور حسنِ اخلاق مریض کے لیے باعثِ تسکین ہوتا ہے، ورنہ آج کل تو ڈاکٹروں اور نرسوں کے ناروا سلوک کی بڑی شکایات سننے میں آتی ہے۔ اچھا خاصا بندہ بھی ایسے ڈاکٹروں اور نرسوں کے برتاؤ اور رویّے کی وجہ سے مزید مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور ٹینس ہوجاتا ہے۔
***
روبینہ اپنی ملنساری اور سلیقہ مند طبیعت کی وجہ سے اپنے گھر، حلقۂ احباب اور دوستوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ وہ پرائے کو اپنا بنانے کا فن جانتی تھی۔ شادی کے بعد سسرال میں بھی اس کے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس نے اپنی ان صلاحیتوں کی بناء پر ان کا دل جیتنے کی کوشش کی، لیکن ناکامی ہوئی۔ اس نے اپنا محاسبہ کیا کہ کہیں اس سے کوئی کوتاہی تو سرزد نہیں ہورہی کہ سب کے رویوں میں تلخی اور روکھا پن ہے۔ اس لیے اس نے پہلے سے بھی زیادہ گھر اور گھرداری میں حصہ لینا شروع کردیا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب گھر والے اس کے حُسنِ سلوک اور سلیقے سے متاثر ہوں گے۔ لیکن افسوس کہ وہ ان کے رویوں میں تبدیلی لانے میں ناکام ہوگئی، بلکہ ان سب کے ناروا سلوک اور روکھے پن کی وجہ سے اس کی اپنی شخصیت متاثر ہونے لگی۔ وہ جو ایک پُراعتماد اور ہنس مکھ لڑکی تھی مرجھا کے رہ گئی، کیوں کہ نہ صرف ناروا سلوک بلکہ ہر قدم پر اُس کی توہین اور بے عزتی کی جاتی جس سے اس کی حوصلہ شکنی ہوتی۔ اس طرح دوسروں کے سامنے بات کرنے میں بھی جھجھک پیدا ہو گئی۔
***
وہ اس اسکول میں نئی نئی بھرتی ہوئی تھی۔ اسے ملازمت کا کوئی تجربہ نہ تھا، لہٰذا قدم قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہی تھی اور سینئر اور تجربہ کار استانیوں سے مشورہ اور رائے ضرور لیتی۔ اپنے مضمون کے لیے گھر سے بھی مکمل تیاری کرکے آتی تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ باقی ٹیچرز بھی اُس کی اس محنت اور دلچسپی کو سراہتیں، لیکن وہ نوٹ کررہی تھی کہ میڈم کا رویہ اس کے ساتھ بڑا تلخ اور اکھڑا اکھڑا ہے۔ وہ اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیتیں اور معمولی معمولی باتوں پر بھی سب کے سامنے اس کی بے عزتی کے مواقع تلاش کرتی ہیں۔ میڈم فرزانہ کے اس رویّے نے انعم کو بڑا پریشان کردیا۔ یہ ملازمت اس کی مجبوری تھی لہٰذا استعفیٰ دینے سے بھی قاصر تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر میڈم کے رویّے میں تبدیلی نہ آئی تو یہاں اس کا ملازمت کرنا مشکل ہوجائے گا، اس تلخ اور اذیت ناک ماحول میں وہ سکون سے کام نہیں کرسکے گی، لہٰذا اس نے دوسری ملازمت کے لیے بھی کوشش جاری رکھی۔ ایک دن فارغ (فری) پیریڈ میں وہ بڑے انہماک سے بچوں کی کاپیاں جانچ رہی تھی کہ آفس سے میڈم کا بلاوا آگیا۔ وہ ڈری سہمی، میڈم کے آفس میں آئی۔ آفس میں میڈم کے علاوہ کوآرڈی نیٹر ریحانہ بھی موجود تھی جس نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا (میڈم ریحانہ کے سامنے مس انعم کا رجسٹر رکھا ہوا تھا) اور کہا کہ آپ نے الفاظ کے معنی صحیح نہیں لکھے۔
’’میڈم آپ نشاندہی کریں کہ وہ کون سے الفاظ ہیں‘‘۔ میڈم نے ایک لفظ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس کا معنیٰ یہ ہے اور آپ نے غلط لکھا ہے۔ انعم نے مطمئن اور پُراعتماد انداز میں جواب دیا (کیونکہ اس نے بڑی تحقیق کے بعد معنیٰ لکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ غلط نہیں ہے) ’’میڈم آپ بالکل درست فرما رہی ہیں، اس لفظ کا معنیٰ یہ بھی ہے اور جو میں نے یہاں نوٹ کیا ہے وہ بھی ہے، یہاں اشعار کے لحاظ سے اس کا معنیٰ یہی ہے، لیکن میں نے بچوں کی کاپیوں میں دونوں معنی لکھوائے ہیں اور یہ بھی نوٹ لکھوایا ہے کہ اشعار کے لحاظ سے یہاں صرف یہی معنیٰ لیا جائے گا‘‘۔ لیکن یوں لگ رہا تھا کہ میڈم ریحانہ انعم کی بات ماننے کو تیار ہی نہ تھیں۔ اس بحث کو ختم کرنے کے لیے میڈم فرزانہ نے لائبریری سے لغت منگوائی۔ لغت میں وہی کچھ لکھا ہوا تھا جو انعم کہہ رہی تھی۔ پہلی مرتبہ انعم نے دیکھا کہ میڈم کے لہجے میں اس کے لیے نرمی تھی۔ میڈم نے اس سے کہا ’’مس انعم آپ جاسکتی ہیں، آپ کی کلاس کا وقت ہونے والا ہے۔‘‘ انعم جب آفس سے نکل رہی تھی تو پیچھے سے میڈم فرزانہ کی آواز اس کے کانوں میں پہنچی جس نے اس کے اعتماد کو مزید بڑھا دیا اور اسے خوش کر دیا ’’مجھے اس لڑکی پر پورا اعتماد تھا کہ یہ صحیح ہوگی کیونکہ ان تین مہینوں میں اس کی کارکردگی کو میں نے باریک بینی اور تنقیدی نگاہوں سے جانچا ہے‘‘۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ میڈم کا ہر نئی آنے والی استانی کے ساتھ یہی برتاؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت کم اور مجبوری کی وجہ سے کوئی ٹک جاتا ہے، ورنہ بھاگ جاتا ہے۔
***
زینب نے معاشی حالات کی مجبوری کی وجہ سے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت شروع کی، لیکن اسے جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس کے شوہر کا رویہ بڑا تلخ اور حوصلہ شکن ہے۔ اس نے اپنا جائزہ لیا کہ کہیں اس کی ملازمت کی وجہ سے شوہر، گھر یا بچوں کی حق تلفی تو نہیں ہورہی! اس نے پہلے سے بھی زیادہ گھر، گھرداری کی طرف توجہ دی تاکہ اس کے شوہر کو کوئی شکایت نہ ہو۔ وہ ہر کام وقت سے پہلے اور خوش اسلوبی سے انجام دینے لگی۔ بجائے اس کے کہ شوہر سراہتا، الٹا بہانے بہانے سے اسے ایذا پہنچانے کے بہانے تلاش کرتا۔ ملازمت اس کی مجبوری نہ ہوتی تو وہ کب کی چھوڑ چکی ہوتی، لیکن وہ تندہی سے ہر کام کو انجام دے رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات کے لیے بالکل بھی وقت نہیں نکال پا رہی تھی، لیکن اسے اس کی پروا نہ تھی، اسے صرف شوہر کا طنز آمیز اور تلخ رویہ مجروح کررہا تھا۔ آس پاس دوست احباب اس کے سلیقے، خوش اخلاقی، سگھڑپن اور محنت کی تعریف کررہے تھے لیکن ایک شخص جو ہر وقت اکھڑا اکھڑا ہوا اور تلخ لہجے میں بات کررہا تھا وہ اس کا شوہر تھا جس کی وجہ سے اسے سخت اذیت سے دوچار ہونا پڑرہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ شوہر سے بدظن اور دور ہوجاتی، اس نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا اور دعا مانگی۔ اس عمل سے اسے قدرے سکون محسوس ہوا، اور شوہر کے اس رویّے اور برتاؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت پر وہ خود حیران ہوجاتی کہ وہ یہ سب ہنسی خوشی کیسے سہہ جاتی ہے!
***
یہ حقیقت ہے کہ انسان کے ناروا، تلخ اور غصیلے رویّے اور سلوک کا سامنے والے پر شدید منفی ردعمل ہوتا ہے۔ یہ ناروا سلوک اور برتاؤ رشتوں اور ناتوں میں نہ صرف دراڑیں ڈالنے کے لیے کافی ہے بلکہ اس کے زہر کے اثرات دیرپا ہیں۔ یہ رویّے لوگوں کے آپس کے تعلقات میں اجنبیت اور دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ اپنائیت اور خلوص کو ختم کردیتے ہیں۔ بچوں پر والدین، اساتذہ اور دوسرے لوگوں کے منفی رویوں کے ردعمل اور اثرات کو میں اس سے پہلے اپنے کسی کالم میں تفصیل سے بیان کرچکی ہوں کہ کس طرح ان کی شخصیت میں ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا باعث بنتے ہیں یہ رویّے۔ لیکن بڑوں کے درمیان بھی اس طرح کے رویّے شدید ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ ایک بچی نے مجھے بتایا کہ شادی میں رخصتی کے وقت پلو میں میری ماں نے ایک نصیحت یہ بھی باندھی کہ سسرال کو ہی اپنا گھر سمجھنا، اب وہی تمہارے ماں باپ ہیں، بہن بھائی ہیں، ان کے دل میں خلوص رکھنا۔ ماں نے مجھے تو اس نصیحت سے لیس کردیا، لیکن اگلے بندے ان تمام جذبات سے عاری تھے، انہیں اپنا بنانے کی میری تمام کوششیں رائیگاں گئیں، آج میں افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ان کے اور میرے درمیان ایک گھر میں رہنے کے باوجود اجنبیت کی دیواریں کھڑی ہیں۔ بے شک اچھی تعلیم و تربیت کی وجہ سے میں ان کی خدمت بھی کررہی ہوں۔ اس گھر میں مَیں ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کی کوشش بھی کررہی ہوں۔۔۔ بے شک یہ تلخ اور روکھے رویّے رشتوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔
انسان اپنے مثبت رویوں اور احسن سلوک سے دشمن کو بھی رام کرسکتا ہے۔ دو میٹھے بول دوسرے انسان کے لیے سکون کا باعث بن سکتے ہیں۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں ہر شخص مختلف مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ لہٰذا اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ دوسروں پر نکال کر سکون حاصل کرتا ہے جو کہ غلط اور غیر اخلاقی رویہ ہے، جس سے اکثر اسے خود بھی نقصان اور تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ دورانِ ملازمت ایک نئی نویلی شادی شدہ لڑکی کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر وقت اس کے چہرے پر کرختگی، غصہ اور جھنجھلاہٹ سوار رہتی۔ یہ غصہ اکثر معصوم بچوں اور اسکول کے ملازمین پر نکلتا۔ میں نے ایک دن اس کو اکیلے دیکھا (جب وہ ایک آیا پر چیخ رہی تھی کہ لے جاؤ یہ رجسٹر، میں دستخط نہیں کررہی، میڈم سے جاکر کہو)۔ آیا کے جانے کے بعد اس کے آس پاس میرے سوا کوئی نہ تھا۔ میں نے اس سے کہا ’’مس عقیلہ اگر آپ برا نہ مانیں تو کچھ کہوں؟‘‘
میری طرف اس نے دیکھ کر کہا ’’جی مس۔۔۔‘‘
’’آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ گھر کی طرف سے۔۔۔ یا کوئی اور مسئلہ ہے؟‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے بڑے دکھ سے کہا ’’نہیں تو مس۔‘‘
میں اس کے انداز سے ہی اس کے حالات کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوگئی، لہٰذا میں نے اس سے کہا ’’بیٹا زندگی میں بہت سی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ضروری نہیں ہے کہ جو آپ خود چاہتے ہیں وہی ہو، لیکن اللہ ناانصاف نہیں ہے، آپ کے لیے بہتر ہی کرے گا ان شاء اللہ، لیکن اس طرح کا ردعمل آپ کو محبتوں اور اپنوں سے دور لے جائے گا، آپ کی اپنی اور سامنے والے کی زندگی بھی اذیت ناک ہوجائے گی، اس طرح دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے جو آپ کی اپنی شخصیت اور زندگی کے لیے اذیت اور کرب کا باعث بنیں گے۔ اتنا غصہ، طیش آپ کی صحت کے لیے بھی خراب ہے۔‘‘
’’میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئی، ’’تو مس کیا کروں؟‘‘
’’دیکھو بیٹا، زندگی میں بچیوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تمہارا اس طرح کا ردعمل صحیح نہیں ہے۔ حالات میں بہتری کے لیے انتظار کرو، افہام و تفہیم کا طریقہ اپناؤ۔‘‘
آنے والے وقت میں یہ خبر سنی کہ اس کی طلاق ہوگئی، کیونکہ دونوں طرف سے رویوں کی شدت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ الحمدللہ ہم دینِ اسلام کے پیروکار ہیں۔ مذہبِ اسلام آپس میں رشتوں ناتوں کو جوڑنے کے لیے اور محبتوں کے رشتے استوار کرنے کے لیے ہدایات و احکامات دیتا ہے، جن پر عمل کیا جائے تو ہر شخص دوسرے سے راضی اور خوش رہ سکتا ہے۔ گفت و شنید میں نرمی، ملائمت، خوش اخلاقی، درگزر، حسنِ اخلاق، ہمدردی کے رویوں سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے اندازِ زندگی، ان کی معاشرتی زندگی کا جائزہ اور مطالعہ کرنا لازمی ہے۔ حضرت زیدؓ بن حارث کو غلامی کی زندگی پسند تھی۔ یہ آپؐ کا حسنِ سلوک تھا کہ حضرت زیدؓ ایک لمبے عرصے کے بعد والدین سے ملے لیکن جانے سے انکار کردیا اور آپؐ کی آغوشِ رحمت میں رہنا پسند فرمایا۔ اسلام تو غیر مسلموں سے بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دیتا ہے، اجنبیوں کو سلام کرنے کی ترغیب دلاتا ہے، آپس میں نرمی کرنے کا حکم دیتا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے کہ ’’اللہ نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’اسلام کا بہترین عمل سلام کرنا اور کھانا کھلانا ہے۔‘‘
ایک دوسرے کے ساتھ تلخی یا سختی سے بات کرنے کو منع فرمایا گیا ہے۔ اپنی زبان سے کسی کو تکلیف پہنچانے کو پسند نہیں کیا گیا ہے۔ مفہومِ حدیث ہے کہ وہ مومن نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔ اسی طرح ترمذی کی حدیث ہے کہ ’’جہنم میں لوگ اپنی زبانوں کی وجہ سے پھینکے جائیں گے‘‘۔ کسی بات پر ناراض ہوکر غصہ کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ کی رضامندی کے لیے غصہ پی جائے تو اس نے غصہ کے گھونٹ سے کوئی افضل گھونٹ نہیں پیا‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف)
کیونکہ غصے کی وجہ سے انسان دوسرے کو مارنے پیٹنے، برا بھلا کہنے اور تکلیف پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کرتا، بداخلاقی اور بدزبانی کی انتہا کردیتا ہے اور مخالف اس کی زد سے بچ نہیں سکتا۔ لہٰذا غصہ آئے تو پانی پی لے یا وضو کرلے۔ غصے میں بدکلامی کرنے والوں سے لوگ نفرت کرتے ہیں، بلکہ ترکِ تعلق تک کرلیتے ہیں۔ جبکہ حسنِ اخلاق سے لوگوں سے خوبصورت تعلقات استوار ہوتے ہیں، رشتے اور ناتے مضبوط ہوتے ہیں، تعلقات میں پختگی آتی ہے، اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک چیز اور کہ حسنِ اخلاق سے بندہ خود بھی پُرسکون اور مطمئن رہتا ہے کیونکہ دوسروں کا دل دکھانا اپنے رب کو ناراض کرنا ہے۔
آپؐ نے فرمایا ’’حسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی میزانِ عمل میں کوئی چیز نہیں۔‘‘ (ابوداؤد)
nn

حصہ