( ماخوذ ازحاشیہ نمبر45:44:)
ربّ کو پکارو:۔
آیت نمبر 56,55 میں ارشاد ہوا:۔ (اپنے ربّ کو پکارو گِڑ گِڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناًوہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناًاللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔)
اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے:۔
اَپنے آس پاس ایسے اَفراد کو تلاش کریں، جن کی زندگی میں آپ کو سکون اور اِطمینان نظر آتا ہو۔۔۔ اِنہیں قریب سے دیکھیں، اور اِن کے سکون و اِطمینان کی وجہ جاننے کی کوشش کریں۔ اِن کی پر سکون زندگی کی ایک ہی وجہ آپ کو معلوم ہو گی! چاہے وہ پاکستان میں رہتے ہوں، اَمریکا میں رہتے ہوں یا سعودی عرب، مصر، بنگلہ دیش یا زمین پر کہیں بھی رہتے ہوں۔۔۔ یہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔۔۔ اِنہیں کوئی خوف نہیں ہے، اور اللہ کے سِوا کسی سے امید نہیں رکھتے۔۔۔ اِنہیں کسی سے کوئی لالچ نہیں ہے۔ پھر اِس پُر سکون زندگی کے بھی درجات ہیں، اِس صِفَت میں جو جتنا بڑھا ہوا ہے، اتنا ہی پُر سکون ہے۔ اِس سے کوئی غرض نہیں کہ اِس کے پاس کتنا مال ہے۔۔۔ انتہائی مال و دولت ہونے کے باوجود، اور فاقوں کی نوبت آجانے کے باوجود اِن کے سکون و اِطمینان میں فرق نہیں آتا۔ اِن کے سر پر کوئی تلوار لے کے کھڑا ہو، اور بچانے والا نظر نہ آتا ہو!!! تب بھی زبان سے یہی نکلتا ہے کہ، مجھے میرا رب بچائے گا۔۔۔ اِنہیں سزائے موت سنائی جائے تو یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے کہ اگر اللہ مجھے زندہ رکھنا چاہے تو یہ الٹے لَٹک جائیں مجھے مار نہیں سکتے۔۔۔ یہ سَکینَت صِرف اِن کی ذات ہی پر نہیں، اِن کے گھر، اور گھر والوں پر بھی نظر آتی ہے۔۔۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا، پھانسی کے پھندے پَر جھول جائے! آپ اِن کی زبان سے کوئی فریاد نہ سن پائیں گے۔۔۔ بد ترین بد اَمنی میں، جَب لوگ اچک لیے جاتے ہیں یہ اَمن و اِطمینان سے زندگی گزارتے ہیں۔۔۔ آپ اِنہیں روزمرَّہ حادثات سے عام طور پر محفوظ پائیں گے۔۔۔ اَیسا نہیں ہے کہ اِن کی زندگی میں مشکلات اور مصیبتیں نہیں آتیں، آتی ہیں! یہ ان پر صبر کرتے ہیں اور اِس پر آخرت میں اَجر ملنے کی امید پر پُر سکون رہتے ہیں۔
ہزار سجدے:۔
اِس کے بر عکس وہ لوگ جو ہر بلند آواز سے ڈر جاتے ہیں، دُبک جاتے ہیں، جُھک جاتے ہیں۔۔۔ ہر صاحبِ مرتبہ سے آس لگاتے ہیں، انہیں ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ بڑی تعداد میں مل جائیں گے، ہر آفت زدہ جگہ پر اِن کا رش ہو گا اور یہ فریاد کرتے نظر آئیں گے۔ ہر مجلس اور ہر محفل میں حالات کا رونا روتے نظر آئیں گے۔ جو سورج سے ڈرے گا اور امید باندھے گا، وہ چاند کو سورج کے قریب سمجھ کر ضرور اس سے بھی ڈرے گا اور لالچ رکھے گا۔۔۔ پھر اِسی طرح ہر اس تارے سے خوف کھائے گا جسے سورج یا چاند کے قریب پائے گا۔۔۔ بالکل اِسی طرح جو فرعون سے ڈرے گا اور لالچ رکھے گا (واضح رہے کہ فرعون ہر دور اور ہر دائرے میں ہوتے ہیں) وہ فرعون کے درباریوں اور پھر درباریوں کے قریب لوگوں سے بھی ڈرے گا۔ جس طرح ایک انسان کی زندگی میں سکون و اِطمینان اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے اور اَللہ کے سِوا کسی سے امید نہ رکھنے سے آتا ہے اِسی طرح تمام انسانوں کی زندگی میں بھی سکون و اطمینان صرف اللہ ہی سے ڈرنے اور صرف اللہ ہی سے لالچ رکھنے سے آ سکتا ہے۔۔۔ یاد رکھیں انسان جس سے ڈرتے ہیں اور جس سے لالچ رکھتے ہیں اس کی اطاعت کرتے ہیں۔۔۔ اس کا قانوں مانتے اور اسے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نا فذ کرتے ہیں اور یہی بندگی ہے۔
برائی اور فساد کی بنیاد:۔
اِنسان کا اللہ کی بندگی سے نکل کر، اَپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا، اور اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اَخلاق، معاشرت اور سیاست و معیشت کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرنا، جو اللہ کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے لیے گئے ہوں۔۔۔ یہی وہ بنیادی برائی اور فساد ہے جس سے زمین کے اِنتظام میں خرابی کی بے شمار صورتیں پیدا ہوتی اور زمین پر پھیل جاتی ہیں، اور اِسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصد ہے کہ اِنسان اَللہ کے بجائے کسی اور کو اپنا دوست اور سرپرست اور بِگڑی بنانے والا سمجھے اور اسے مدد کے لیے پکارے اور اِس برائی اور فساد کو درست کرنے کا صِرف ایک ہی راستہ ہے کہ اِنسان صرف اَللہ کو پکارے۔ خوف ہو تو اللہ سے ہو اور امیدیں وابستہ ہوں تو صرف اَللہ سے ہوں۔ اِنسان اَللہ کو اِس احساس و یقین کے ساتھ پکارے کہ اس کی زِندگی ہر پہلو سے اَور ہر معاملے میں، پوری کی پوری اللہ ہی کی عطا، بخشش اور عنایت پر منحصر ہے، کامیابی اور سعادت حاصل ہو سکتی ہے تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے، ورنہ جہاں اِنسان اَللہ کی مدد اور رہنمائی سے محروم ہوا پھر اس کے لیے تباہی و بربادی کے سِوا کوئی دوسرا اَنجام نہیں ہے۔
زمین پر انسان کی ابتدا:۔
زمین پر اِنسان کی زندگی کی ابتدا جہالت سے نہیں علم کے ساتھ ہوئی تھی، یہ وحشی نہیں مہذب تھے۔۔۔ یہ اَللہ کے ساتھ شِرک کرنے و الے اور اَللہ سے بغاوت کرنے والے نہ تھے، بلکہ اَللہ کو ایک مانتے تھے، اور اللہ ہی کی عبادت و اِطاعت کرتے تھے۔۔۔ یہ اَعلٰی اَقدار اور اَچھے اَخلاق والے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر اِنسانی زِندگی کا آغاز بھلائی اور نیکی سے ہوا ہے، بعد میں اِس درست نِظام کو غلط کار انسان اِپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں۔۔۔ اِسی خرابی اور فساد کو مِٹانے اور نظام زندگی نئے سرے سے درست کر دینے کے لیے اللہ تعالٰی نے ہر قوم اور ہر زمانے میں اَپنے پیغمبر بھیجے اور انہوں نے ہر زمانے میں اِنسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا اِنتظام جس نیکی اور صلاح پر قائم کیا گیا تھا، اس میں برائی اور فساد کرنے سے باز آؤ۔
اِرتقا کا غلط تصور:۔
اِس معاملے میں قرآن کا نقطہ نظر ان لوگوں کے نقطہ نظر سے بلکل مختلِف ہے، جِنہوں نے اِرتقا کا ایک غلط تصور لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اِنسان اَندھیرے سے نکل، کر وقت کی رفتار کے ساتھ آہستہ آہستہ روشنی میں آیا ہے اور اِس کی زندگی برائی اور بِگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ اچھی ہوئی اور ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ اِس کے بالکل خلاف قرآن کہتا ہے کہ اَللہ نے اِنسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک صالح نظام سے اِس کی اِبتدا کی تھی، پھر اِنسان خود شیطانی رہنمائی قبول کرکے بار بار، اندھیرے میں جاتا رہا اور اس صالح نِظام کو بِگاڑتا رہا اور اَللہ بار بار اَپنے پیغمبروں کو بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور برائی اور فساد سے دور رہنے اور بچنے کی دعوت دیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین