جھوٹ کے بارے جتنا سوچتے جائیں اُس کی نئی نئی شکلیں، نت نئے انداز، جدید طرزیں سُنائی دیتی جائیں گی ، تمام اندازوں اور خدشات سے بڑھ کر جھوٹ ہمارے اندر رچ بس گیا ہے، اپنے چاروں طرف دیکھتے جائیں سُنتے جائیں، سوچتے جائیں اور جوڑتے جائیں کتنے سارے جھوٹ ہیں جو ہمارا معمول بن گئے ہیں،جو نہ کیا ہو اُس کے کرنے کا دعوا کرنا جھوٹ ہے ، جو نہ ہوا ہو اُس کو ہونا بتانا جھوٹ ہے ۔
ان کے نام کے ساتھ جھوٹ کا لاحقہ لگانا مناسب نہیں ہے ہمارے معاشرے میں قابل اعتبار ہیں ہی کتنے جبہ ودستار، اسمبلی اور قیادت، سیاست اور سیاست دان، کنگال اور مالا مال، ناصع اور سامع سب جھوٹ کو سچ بدل بنانے کی کوشش کررہے ہیں، پھر اسے کیا کہا جائے جو ہمارے بہت اچھے آئی جی سندھ جناب اے ڈی خواجہ صاحب نے فرمایا ہے ؟ آپ نے تاجروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، کراچی میں عام لوگ قتل ہورہے تھے اور سول سوسائٹی خاموش تھی، کراچی کی سڑکوں پر پولیس افسران قتل ہورہے تھے اور سول سوسائٹی تماشائی بنی رہی کراچی کی مساجد میں پولیس افسران مارے جارہے تھے اور کراچی کی زندہ آبادیوں میں قبرستان کا سا سناٹا طاری تھا۔
جناب اے ڈی خواجہ کا تعلق سندھ کے شہر ٹنڈومحمد خان سے ہے،یہ نیم شہری علاقہ ایک لاکھ سے کم آبادی پر مشتمل ہے، جانب اے ڈی خواجہ کا شہرجناب ذوالفقارمرزا کے پیدائشی شہر حیدرآباد سے تیس کلومیڑ پر واقع ہے، ٹنڈومحمد خان سے بدین تک کا علاقہ جناب ذوالفقار مرزاکا سابقہ حلقہِ قومی اسمبلی ہے مرزا صاحب کا ذکر اس لیے ہے کہ اُنھوں نے بھی امن کمیٹی کو اپنی سپاہ بناکرکراچی کو میدان جنگ بنانے میں اپنا پورا حصہ ڈالا تھا، جناب ذوالفقار مرزا قصّہِ پارینہ ہوگئے ہیں اور اُن کے تمام کارنامے بھی ہماری مقتدرہ قوتوں نے معاف کردیئے گئے ہیں، لہذاجس کی رسی دراز ہو اُس کے پیچھے پڑجانے والے ہم کون ہوتے ہیں۔
میرے نبیؐ کا فرمایا کیوں پورا نہ ہو ’’تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے زورآورں کے سامنے قانون کمزور تھا اور کمزروں کے لیے قانون زور آور تھا‘‘۔
اے ڈی خواجہ پر واپس آتے ہیں اے ڈی خواجہ میں کوئی تو بات ہوگی جو سندھ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے کے باوجود پولیس کے سب سے اعلی منصب پر پہنچ گئے، آپ ایس ایس پی بدین، حیدرآباد، شکارپور، دادو رہے اور کراچی جس کی عوام سے اُنھیں شکوہ ہے وہاں بھی وہ اُنھوں نے کراچی ایسٹ اور ساوتھ میں ڈی آئی جی کے فرائض انجام دیئے، آپ ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ تعینات رہے آپ ڈاریکیڑ نیب اور ڈاریکیڑ ایف آئی اے بھی رہے، ان کے عہدوں کو گنوانے کا مقصد یہ کہ وہ کراچی اور سندھ کے لیے اجنبی نہیں ہیں اورنہ ہی کراچی کا کوئی گوشہ کوئی سرگرمی جناب اے ڈی خواجہ کی نظروں سے اوجھل ہوگی۔
اے ڈی خواجہ اپنی ذمہ داری روائتی طریقے سے ادا کرنے والے افسر نہیں ہیں بلکہ وہ آوٹ آف بکس سوچنے اور کرنے کا جگرا رکھتے ہیں، جب آپ ایس ایس پی دادو تھے تو اپنے علاقے میں اُنھوں نے پولیس کے روائتی مخبری نظام پر تکیہ نہیں کیا بلکہ اپنی عملداری میں مجرموں کا پتہ لگانے کے لیے خود با نفسِ نفیس دادو کی گلیوں میں کبھی دودھ سپلائی کرنے والا گوالہ بن کر اور کبھی سبزی فروش بن کر خاک چھانتے تھے ایسے افسانوی کردار کے حامل جناب اے ڈی خواجہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کراچی میں قتل کررہی تھی اور سب خاموش تھے۔
گھاس کے نیچے پانی تو عرصہ دراز سے پھیل رہا تھا لیکن ایم کیو ایم کی شکل میں سیلاب بن کر 1988ء میں شہر کو بہا لے گیا ، وہ کراچی کی تباہی کا پہلا دن تھا اور آج کا دن ہے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی ایم کیوایم کے سامنے اپنے خفیف وزن اورمختصر حجم کے باوجود سیلابی بند کی صورت میں کھڑی ہے، اسی طرح مرحوم مولانا شاہ احمدنورانیؒ ؒ نے بھی ایم کیو ایم کو اول دن سے بھتہ خوری کا جو ٹائیٹل دیا تھا وہ تمام زندگی اس کی گردان کرتے رہے۔
ایم کیو ایم کے عروج کے زمانے میں، جناب اے ڈی خواجہ کی پولیس کے تھانوں کا یہ حال تھا کہ اگر کوئی ایم کیو ایم کے ظلم کی شکایت کرنے اُن کے پاس جاتا تھا تو پولیس والے مظلوم کی شکایت درج کرنے کے بجائے ظالم کو مظلوم کے سامنے کھڑا کردیتے تھے کہ ’’ اس کی ہمت دیکھو یہ تمہاری شکایت کرنے آیا ہے‘‘۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے عظمت کو ایم کیو ایم کے قاتلوں نے گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا لیکن عظمت کے جسم میں سانس باقی تھی گلبہار تھانے کے عملے نے اُنھیں طبعی امداد کے لیے اسپتال بھیجنے کے بجائے ایم کیوایم کے حکم پر تھانے میں بیٹھا کر رکھا تاکہ اُن کے جسم سے خون کا آخری قطرہ بھی نکل جائے لہذا خون بہہ جانے کی وجہ سے عظمت شہید ہوگئے اُس وقت پویس افسران کے قتل کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا بلاشبہ اللہ کے یاں نہ دیر ہے اور نہ اندھیر اگر اُس وقت پولیس اپنی ذمہ داری ادا کرتی تو یوں کراچی کی گلیوں اور مسجدوں میں نہ ماری جاتی۔
جناب اے ڈی خواجہ! اگر کراچی کی سول سوسائٹی ایم کیو ایم کے سامنے خاموش تھی تو عامر سعید کیوں قتل ہوئے اُنھیں کس نے قتل کیا،آئی جی صاحب کے مطابق اگر کراچی پر ایم کیو ایم کے خوف سے سناٹا طاری تھا تو اسلم مجاھد کی للکار کو کس نے خاموش کردیا؟ احسان انصاری، ڈاکٹر پرویز محمود، لقمان بیگ اور اسے ہی ان گنت لوگ کیوں قتل ہوئے، جناب اے ڈی خواجہ جس زمانے کا ذکر کررہے ہیں اُس وقت کے اخبارات میں جناب منور حسن،شاہ احمد نورانی، نصراللہ شجیع، اسلم مجاھد، پرویز محمود کے اخباری بیانات اُٹھا کر پڑھ لیں ان لوگوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اعلان کیا ’’ایم کیو ایم مہاجروں اور کراچی کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے‘‘۔ جناب اے ڈی خواجہ کے مطابق اس وقت اُن کی اپنی پولیس موت کے خوف سے وردی پہن کر تھانوں سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھی۔
انسان کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے اکثر اوقات یاداشت کی یہ کمزوری جینے کا راستہ ہموار کرتی ہے لیکن بعض بعض سبق ایسے ہوتے ہیں جو اگر یاد نہ ہوں تو باربار دھرانے پڑتے ہیں لہذا اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پورے پاکستان اور خصوصاً اہل کراچی کو 88ء کا کراچی یاد کرایا جائے جو لوگ سچ بولتے بولتے اُس پر قربان ہوگئے اُن کی فہرستیں بنائی جائیں اُن کے تصویریں دکھا کر یاد اہل کراچی کو تاریخ کا سبق یاد کرایا جائے، ایم کیوایم کو نصحیت کرتے کرتے جو لوگ جنت کے مسافر ہوئے ان کے لواحقین کے انڑویو شائع کیے جائیں تاکہ جناب اے ڈی خواجہ جیسے اچھے افسر کو یہ ملال نہ ہو کہ کراچی میں پولیس والے مارے جارہے تھے اور سب بے حسی سے تماشا دیکھ رہے تھے، حق پر کھڑے رہنے والوں نے تو اپنی مراد پالی لیکن ہم جیسے تنگ دلوں کو خواجہ صاحب سے شکوہ ہے کہ کراچی میں سچ بولنے والوں کا گلی گلی میں خون بہہ رہا تھا اور پولیس تماشا دیکھ رہی تھی۔
جناب اے ڈی خواجہ سے ایک گزارش اور بھی ہے کہ ایم کیو ایم محض ایک سیاسی جماعت نہ تھی بلکہ مافیا تھی اور مافیا بھی ایسی جنکی پشت ہر عوام تھی لہذا یہ پولیس اور اسی طرح کے دوسرے اداروں کا کام تھا کہ مجرم کو پکڑتے اور عوام کو تحفظ دیتے خواجہ صاحب کی پولیس نہ اپنا فرض ادا نہ کیا جس کا خمیازہ اُن کی پولیس اور ساتھ سارے شہر نے بھگتا اور بھگت رہے ہیں اور آئندہ کئی برس تک بھگتے رہیں گے۔
کیوں کہ آثار اب بھی اچھے نہیں ہیں،آج بے گُناھی کی کسوٹی یہ رہ گئی ہے کہ بائیس اگست کو میں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا لہذا اگر میں نے الطاف حُسین کا دست راست ہوتے ہوئے جو کچھ بھی کیا وہ معاف کیوں کہ میں آج پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگارہا ہوں اس وقت زندہ باد کا نعرہ لگانے والے اُن چوہوں کی طرح ہیں جو جہاز کو ڈوبتے دیکھ کر سب سے پہلے بھاگتے ہیں۔
میرا آج کا موضوع جھوٹ تھا لیکن وقت نے علمی سے زیادہ عملی جھوٹ کو آشکارکرنے پر مجبور کردیا۔
nn